• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گلہ بکریا ں والا محلہ لیہ چونیاں(2)...روزن دیوار سے … عطاء الحق قاسمی

مجھے اگرچہ پتنگ بازی کا بہت شوق تھا لیکن میرے پاس نہ پتنگ ہوتی تھی اور نہ ڈور، یہ کھیل ”خلاف شرع“ تھا چنانچہ ابا جی سے اس کے لئے پیسے ملنا تو دور کی بات ہے انہیں جب پتہ چلتا کہ میں چھت پر پتنگ بازی کررہا ہوں تو وہ جائے واردات پر پہنچ کر بذات خود میری”دھلائی“ کرتے، سو مجھے پتنگ اور ڈور کے حصول کے لئے چھت پر جاکر آسمان کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھنا پڑتا تھا کہ کون سے ”پیچے“کی پتنگ یا ڈور ہماری چھت پر گرنے کی امید ہے اور میری یہ امید اکثر برآتی کہ ہمارے گھر کی چھت کافی اونچی تھی۔مجھے اس نظر کی لذت آج بھی محسوس ہوتی ہے جب کٹی ہوئی پتنگ کی ڈور بلندی سے آہستہ آہستہ لہراتی بل کھاتی ہماری چھت کی طرف آتی نظر آتی اور میں لپک کر اس کا سرا تھام لیتا، اگر تو پتنگ باز کھیل کے ا صولوں سے واقف اور صاحب ظرف ہوتا تو وہ پتنگ کٹتے ہی ڈور کا اپنی طرف والا سرا خود ہی منقطع کردیتا اور یوں اس کی اس سپورٹسمین اسپرٹ کے نتیجے میں ڈھیر ساری ڈور بغیر ہاتھوں کو زخمی کئے ہاتھ لگتی تاہم زیادہ تر پتنگ باز کم ظرف ہی ہوتے، وہ پتنگ کٹتے ہی باقی ماندہ ڈور تیزی سے اپنی طرف کھینچنے لگتے ہیں ،دوسری طرف سے دوسرا ”فریق“ کھینچ رہا ہوتا اور یوں اس رسہ کشی میں انگلیاں فگار ہوجاتیں اور ”مال غنیمت “ بھی بہت کم مقدار میں ہاتھ لگتا، اس روز تو ہم جیسوں کی عید ہوتی تھی جب ڈور کے علاوہ کوئی پتنگ بھی ہمارے ہاتھ لگتی خصوصاً کچھ اس طرح کی صورتحال میں کہ ہم آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں لیکن کوئی پتلی سی چیز ہمارے چہرے سے ٹکراتی ہے، پتہ چلتا ہے کہ فضا میں بہت زیادہ بلندی پر کٹی ہوئی کوئی پتنگ موجود ہے اور اس کا سرا ہمارے گالوں کو چھو کر گزرا ہے۔ ایک لمحہ ضائع کئے بغیر لپک کر اسے پکڑتے ہیں اور جب ڈور کو اپنی جانب کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس کے تناؤ سے اندازہ ہوتا ہے کہ پتنگ اتنی بلندی پر ہے کہ نظر آنا بند ہوچکی ہے سو آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ہم جیسے”فقرے“ وافر تعداد میں ملنے والے اس مال غنیمت کا جشن کتنے روز تک مناتے ہوں گے؟
ابھی اس”شوق فضول“ کی کچھ تفصیلات باقی ہیں ، میں نہیں چاہتا کہ اپنی جیب ان یادوں سے ایک دم خالی کردوں، سو دوسری باتوں کے درمیان درمیان میں اس لذیذ حکایت کا بیان بھی جاری رہے گا۔ سو ان دنوں ہماری ان ڈور گیموں پر بھی پابندی تھی ہم بہن بھائی ابا جی کی عدم موجودگی میں فرش پر لڈو بچھا کر اس کے گرد بیٹھ جاتے، کیا مزیدار کھیل تھا جب 99 پر پہنچ کر سانپ ڈستا تھا اور ”گوٹی“ واپس زیرو پر آتی تھی تو شدت غم سے حالت غیر ہوجاتی تھی لیکن دوسری طرف جب اچانک سیڑھی ہمارے نصیبوں میں آتی تھی اور ہم کہیں کے کہیں پہنچ جاتے تھے شادی مرگ کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ کھیل کے دوران گھر کے ایک فرد کو ”مخبر “ کے فرائض انجام دینا ہوتے تھے۔ اسے جونہی ابا جی کے قدموں کی آہٹ سنائی دیتی وہ ہمیں اطلاع کرتا اور ہم لڈو لپیٹ لپاٹ کر کہیں چھپا دیتے اور درسی کتابیں کھول کر بیٹھ جاتے جس پر ہمیں ابا جی کی طرف سے شاباش ملتی اور وہ کہتے”اس طرح دل لگا کر پڑھتے رہو یہ پڑھائی زندگی میں تمہارے کام آئے گی“ اب یہ اللہ ہی جانتا ہے کہ کون سی پڑھائی زندگی میں میرے کامیاب آئی ہے“
اور یہ جو ہم کہتے رہتے ہیں کہ آج کی نسل بے راہ ہوچکی ہے جبکہ ہمارے بچپن اور ہماری جوانی میں تو صورتحال یہ نہیں تھی تو ایسا کہتے ہوئے شاید ہم کچھ چھپا رہے ہوتے ہیں، ہم تیسری چوتھی جماعت کے بچوں کو اس”صالح“ معاشرے میں جو”شعر“ یاد تھے وہ یہ تھے۔
شیشی بھری گلاب کی پتھر پہ توڑ دوں
خط کا جواب نہ آیا تو خط لکھناہی چھوڑ دوں
آیا ہوں بڑی دور سے پانی پلا مجھے
اور معافی چاہتا ہوں دوسرا مصرعہ میں لکھ نہیں سکتا کہ”اخلاق“ اس کی اجازت نہیں دیتا۔ اس طرح کے کچھ شعر اور بھی تھے۔ میں وہ بھی حذف کر رہا ہوں تاہم یہ بھی ممکن ہے کہ اس دور کا پورا ماحول ایسا نہ ہو جیسا گلہ بکریاں والا کوچہ لیہ چونیاں وزیر آباد کا تھا لیکن یہ بات طے ہے کہ ہمارے اس محلے کا ماحول آج کے ماحول ایسا ہی تھا یا شاید اس سے بھی خراب تھا کیونکہ مجھے یاد ہے کہ ایک دو دفعہ میں نے اپنے دوست سمیع کے گھر کی سیڑھیوں کے نیچے چھپ کر سگریٹ کے ٹوٹے پینے کی کوشش بھی کی تھی، اس سے کہیں بڑھ کر یہ کہ ہم بچے بغیر کسی تعصب کے تعصب سے آلودہ گندے ”شعر“ گلیوں میں گاتے پھرتے تھے۔ پتہ نہیں یہ شعر کہاں سے”نازل“ ہوتے تھے لیکن ہمیں ان کا”ردم“ اچھا لگتا تھا۔گویا یہ زہر قیام پاکستان کے صرف دو چار سال بعد ہی ہماری رگوں میں سرایت ہونا شروع ہوگیا تھا۔
جہاں تک سکول کا تعلق تھا وہاں بھی صورتحال کچھ ایسی مثالی نہیں تھی۔ یہ ایم بی پرائمری سکول نمبر2تھا جو غلہ منڈی میں واقع تھا۔ عین مین بازار سے کھلنے والے بڑے سے گیٹ میں سے ہم اندر داخل ہوتے اور اندر داخل ہوتے ہی بائیں جانب بلا چھولوں والا اپنی دکان سجائے بیٹھا ہوتا جہاں سے آدھی چھٹی کے وقت ہم اس سے چھولے خرید کر کھاتے اس کے بعد ایک کھلا صحن اور سائے دار دائیں بائیں کمرے تھے جن میں ہماری کلاسیں ہوتی تھیں ۔ان کلاس روموں کے فرش پر ٹاٹ بچھے ہوتے تھے اور کلاس روم کے آغاز میں ماسٹر صاحب”مولا بخش“ہاتھ میں لئے کھڑے ہوتے وہ ہمیں پنجابی میں پڑھاتے تھے بلکہ گالیاں بھی پنجابی ہی میں دیتے تھے۔ ان گالیوں سے ہماری ذہنی تربیت اور”مولا بخش“ سے جسمانی تربیت کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ لکھنے کے لئے کاغذ قلم نہیں ہوتا تھا بلکہ لکھتے ہم تختی پر تھے اور قلم ہمارا کانے کا ہوتا تھا جسے روشنائی میں”ڈوبا“دینا ہوتا تھا… آدھی چھٹی کے وقت تختیوں سے ہم گتکا“ کھیلتے تھے اور پھر بات گتکے تک نہیں رہتی تھی بلکہ سکول کا صحن”میدان جنگ“ میں تبدیل ہوجاتا تھا مگر ہلکی پھلکی ”جھڑپوں“ کے بعد ہم ایک دفعہ پھر باہم شیر و شکر ہوجاتے تھے(جاری ہے)
تازہ ترین