انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج رانا نثار احمد کے حکم پر سابق صدر پرویز مشرف کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کردئیے گئے ہیں اور حکم دیاگیا ہے کہ جب تک پرویز مشرف گرفتار نہیں ہوتے وارنٹ برقرار رہیں گے، جنرل پرویز مشرف ان دنوں لندن میں قیام پذیر ہیں اور انہوں نے تو کسی وکیل کے ذریعے عدالت تک رسائی حاصل کی ہے اور نہ ہی کسی وکیل نے انکے دفاع کیلئے وکالت نامہ جمع کروایا ہے، پرویزمشرف دراصل ایک ہنگامے اور ٹکراؤ کی پیداوار ہیں۔ ”حقیقی جمہوریت“ کا بانی یہ فوجی نو سال میں بریگیڈئر سے صدر مملکت تک جاپہنچا، سپریم کورٹ نے 3 نومبر2007ء کو جنرل پرویز مشرف کی نافذ کردہ ایمرجنسی کو غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر اخلاقی قرار دے دیا، ہنگامی حالات کا اعلان کرنے کے بعد سابق صدر پرویز مشرف نے اپنے ڈانوں ڈول اقتدار کو سنبھالا دینے کی بھرپور کوشش کی لیکن تمام بے سود ثابت ہوا، چیف جسٹس کی حیثیت سے عبدالحمید ڈوگر سمیت جتنے بھی ججوں کی تقرری کی گئی وہ ساری تقرریاں غیر آئینی و غیر قانونی قرار پائی، اس تاریخی فیصلے سے تین ماہ قبل پرویز مشرف برطانیہ چلے گئے تھے، اسکے بعد انہوں نے بین الاقوامی میڈیا کو انٹرویوز دئیے جو آج تک جاری و ساری ہیں، اپنے حالیہ ایک انٹرویو میں سابق صدر نے کہا ہے کہ ”بیرون ملک مصروفیات بہت زیادہ ہوگئی ہیں اسلئے بار، بار پاکستان آنے جانے کے بجائے باہر ہی رہنا چاہتاہوں، اگر قانون نے اجات دی تو میں پھر قوم کی خدمت کیلئے انتخاب لڑونگا، ان دنوں میں لیکچر دے رہاہوں“۔ اس پر وزیراعظم گیلانی نے ایک ترک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ سیاست سے دور رہیں، انہوں نے کہاکہ ہم پرویز مشرف سے واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کے عوام ملک میں سیاسی تبدیلی چاہتے ہیں ایسی صورت میں وہ سیاست میں اپنی واپسی کا سوچیں بھی نہ۔
پاکستان ان نقصانات کی تلافی کیلئے کمر بستہ ہے جو عدلیہ کی معطلی کے بعد قانون و انصاف کے یرغمال بنائے جانے کی وجہ سے ہوئے، انہی نقصانات میں ایک آمر کے غیر قانونی و غیر آئینی اقدامات بھی شامل ہیں جن پر عدالت عالیہ بالخصوص چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چوہدری کی گرفت نہ ہو یہ ممکن ہی نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ بھی چلایا جاسکتا ہے ہر چند کہ اس کے امکانات کم کم ہی ہیں کہ حکومت طاقتور فوج سے کبھی ٹکر نہیں لینا چاہے گی، اس کے ساتھ اس بات کا بھی امکان ہے کہ پرویز مشرف وطن واپس لوٹیں، وہ ملک سے دور رہنا ہی پسند کرے گا، میرے حساب سے طاقتور فوج بھی انہیں یہی مشورہ دے گی کہ ملک میں ان کی موجودگی عدم استحکام پیدا کرسکتی ہے، سیاسی تجزیہ نگاروں کے نزدیک بھی پرویز مشرف کے خلاف اس وقت تک کوئی قانونی کارروائی نہیں کی جائے گی جب تک وہ پاکستانی سیاست سے دور رہتے ہیں، ان کے خیال میں ملک کے عوام اور پارلیمنٹ اب بھی پرویز مشرف کو ناپسند کرتی ہے اب پرویزمشرف ماضی کا حصہ بن چکے ہیں مگر میری رائے اس سے مختلف ہے میرے خیال میں پرویز مشرف کے خلاف بہر قیمت مقدمہ چلایا جانا چاہئے اور انہیں اپنے آمرانہ فیصلوں اور اقدامات کا خمیازہ بھگتنے پر مجبور کیا جانا چاہئے، اگر پاکستان کو بچانا ہے تو فوج کو سیاست سے دور… بہت دور رکھنا ہوگا۔