• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں جب اخبارات پڑھتا ہوں تو محسوس کرتا ہوں کہ ایسی صحافتی اخلاقیات کی باقیات موجود ہیں، میں ڈمی اخبارات کی بات نہیں کرتا، ان میں سے ایک تو ایسا اخبار بھی میں نے گزشتہ روز دیکھا کہ لگتا تھا شرم و حیا نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی، تاہم قومی سطح کے اخبارات اپنا بھرم کافی حد تک قائم رکھے ہوئے ہیں۔ ان میں سے کچھ کبھی کبھار بہک بھی جاتے ہیں یا بہکائے جاتے ہیں لیکن انہیں عوامی سند کبھی نہیں ملتی جبکہ ٹی وی چینلز میں سے دو تین ایسے بھی ہیں جو شام سات بجے سے رات کے گیارہ بجے تک مائوں بہنوں کے سروں سے بھی ان کی چادریں اتارنے میں لگے رہتے ہیں۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ جو معتبر ٹی وی چینلز ہیں انہیں بھی اپنی خبروں کی پیشکش کو اتنا ڈرائونا نہیں بنانا چاہئے کہ دیکھنے والا دبک کر بیٹھ جائے کہ اللہ جانے آگے کیا ہونے والا ہے۔ اسی طرح قوم کی بربادی کا سارا ملبہ سیاستدانوں پر ڈالنا مناسب نہیں، اس بربادی میں ا رب پتی تاجر(جن میں سے کچھ ایک ماٹھی سی دکان پر دھوتی باندھ کر بیٹھے مچھلی یا قورمہ بیچتے نظر آتے ہیں) وہ بھی تباہی و بربادی میں ٹیکس نادہندگی کی صورت میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ بعض نہایت اعلیٰ درجے کے بیوروکریٹ الحمد للہ ہمارے درمیان موجود ہیں جو ایک گرتی عمارت کو سہارا دئیے ہوئے ہیں، مگر ایسے بھی بہت سے ہیں جو اپنی نالائقی کرپشن اور یا پھر حکومت کا حصہ ہوتے ہوئے حکومت کو گرانے کی کوشش کرنے والوں کا بھرپور ساتھ دیتے ہیں۔ اس کا ایک منظر میں نے اس روز دیکھا جب سپریم کورٹ نے وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیا۔ اس روز سرکاری ٹیلیوژن کے پروگرام دیکھنے والے تھے حالانکہ حکومت مسلم لیگ (ن) ہی کی تھی۔ اسی طرح بعض قومی ادارے بھی پاکستان کو نقصان پہنچانے والوں میں شامل رہے ہیں، لہٰذا سارا غصہ صرف حکمرانوں اور سیاستدانوں پر نہ نکالیں جو آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ کمزور پہ ہاتھ اٹھانا یا اسے سر بازار گالیاں دینا بہادری نہیں ہے۔ بہادری وہاں دکھائیں جہاں سے آپ کو اس طرف سے ملنے والا جواب تاعمر یاد رہے۔
سو ان دنوں میں صرف وہی چینل دیکھتا ہوں جو متوازن رویہ رکھتے ہیں، ہمارے چند اینکر تو بین الاقوامی معیار کے حامل ہیں۔ وہ کسی بھی موضوع پر بات کریں، حق میں یا مخالفت میں، ان کا ترازو صحیح کام کررہا ہوتا ہے۔ ان دنوں تو ہمارا’’ترازو‘‘ متنازع ہوگیا ہے بلکہ پورا متوازن شاید کبھی بھی نہیں رہا، مگر ان دنوں بدقسمتی سے وہ مذاق بن کر رہ گیا ہے اور یہ ملک و قوم کی ایک اور بہت بڑی بدقسمتی ہے چنانچہ ہمارے پیارے پاکستان کو زک پہنچانے والوں میں اب’’ترازو‘‘ کا نام بھی آنے لگا ہے۔ ایک وقت تھا میں فلمیں بہت دیکھا کرتا تھا مگر پھر بعد میں یہ دلچسپی مصروفیات کی وجہ سے کم ہوتی چلی گئی۔ گزشتہ روز گھر میں ٹی وی آن تھا، مگر اس میں روٹین کی لڑائی جھگڑے چل رہے تھے۔
درمیان میں جو بریکنگ نیوز آتی تو میں الرٹ ہوجاتا مگر بریکنگ نیوز کچھ اس طرح کی ہوتی کہ فلاں جماعت کے جنرل سیکرٹری سیڑھیوں سے گر پڑے، مگر ان کی ٹانگ وغیرہ نہیں ٹوٹی، وہ خیریت سے ہیں۔ بریکنگ نیوز تو تب ہوتی اگر موصوف ’’شرمناک‘‘ حد تک زخمی ہوتے تاکہ ان کے حاسدوں کے گھر گھی کے چراغ جلتے، سو ٹی وی پر یہ سب کچھ چل رہا تھا۔ عمر بیٹے نے کہا’’ابو آپ بھی بور ہورہے ہیں اور ہم بھی۔ آپ ٹی وی آف کریں۔میں آپ کو ایک فلم دکھاتا ہوں‘‘۔ سو اس نے میری رضامندی سے’’بجرنگی بھائی جان‘‘ آن کردی۔ یہ سلمان خان کی فلم تھی، جو انڈین ہے اور انڈیا میں رہ جانے والی ایک پاکستانی بچی کو پاکستان چھوڑنے آتا ہے۔ اسے جاسوس سمجھ کر پولیس اس کا پیچھا کرتی رہتی ہے مگر وہ دو ملکوں میں دشمنی کے با وجود محض انسانی بنیادوں پر ہر قسم کے حالات سے پوری قوت کے ساتھ نبرد آزما ہوتا ہے اور بالآخر بچی کو ان کے ماں باپ سے ملانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔
میرے خیال میں یہ فلم پاکستان میں بین ہونا چاہئے کہ اس سے دلوں میں یہ’’خوش فہمی‘‘ پیدا ہوسکتی ہے کہ کبھی نہ کبھی دونوں ملکوں کے انسان دوست افراد ان دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان تصادم کو روکنے میں کامیاب نہ ہوجائیں، عوام ایک دوسرے کے قریب نہ آجائیں اور یوں دونوں ملکوں کے درمیان دیرینہ اختلافات ختم ہونے سے دونوں ملک خوشحال نہ ہوجائیں۔ عوام کو خوشحال ہونے کی کیا ضرورت ہے، ماشاء اللہ ہمارے ہاں بھی اور وہاں بھی ایک طبقہ موجود ہے جو بہت خوشحال ہے۔ ہمیں اس’’پراکسی‘‘ ہی سے کام لیتے رہنا چاہئے۔

تازہ ترین