کراچی(ٹی وی رپورٹ)سابق وزیرداخلہ رحمن ملک نے کہا ہےکہ بینظیر بھٹو قتل کا اہم ملزم خود کش حملہ آور اکرام اللہ اس وقت قندھار میں ہے،افغان صدر اشرف غنی اکرام اللہ کو گرفتار کر کے پاکستان کے حوالے کریں، تاکہ بینظیر بھٹو قتل کیس کی مزید کڑیاں جوڑی جاسکیں اکرام اللہ چار ہفتے قبل بی بی سی کو انٹرویو دینے والا تھا لیکن اس سے قبل اس پر حملہ کیا گیا،بینظیر بھٹو قتل منصوبے میں چیف ہینڈلر عبیدالرحمن کوپکڑنے کیلئے چھاپہ مارا تو اگلے چوبیس گھنٹوں میں اسے ڈرون حملے میں ماردیا گیا،سی آئی اے بتائے بینظیر قتل کے اہم ملزم عبید الرحمن کو کس انفارمیشن پر ڈرون حملہ کر کے مارا گیا،بینظیر قتل میں ملوث سازش کرنے والوں،چیف ہینڈلر، درمیانی سطح کے ہینڈلرز،حملہ کرنے والے اور فائنانسرز سب کی شناخت ہوئی، تحقیقات کے دوران جب بھی ملزمان کے نزدیک پہنچتے انہیں مار دیا جاتا تھا۔وہ جیو نیوز کے خصوصی پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کررہے تھے۔ کیپٹل ٹاک کا یہ خصوصی پروگرام شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے دسویں یوم شہادت کے موقع پر گڑھی خدا بخش لاڑکانہ میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔پروگرام میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، قائد حزب اختلاف قومی اسمبلی خورشید شاہ، وزیرداخلہ سندھ سہیل انور سیال ، پیپلز پارٹی کے رہنما مصطفی نواز کھوکھر اور لیاری کے جانثاران سے بھی بات کی گئی۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ بینظیر بھٹو قتل کیس میں عدالت کے فیصلے سے مطمئن نہیں ہیں، بلاول بھٹو اب اس کیس کی پیروی کررہے ہیں، شہید بی بی کے بیٹے بلاول کا مستقبل روشن ہے، پارٹی کی تنظیم نو کے بعد معاملات بہتری کی طرف جارہے ہیں۔خورشید شاہ نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے اقتدار ضرور کھویا لیکن جمہوریت کو مضبوط کیا، یقین ہے پرویز مشرف کے ریڈ وارنٹ بھی نکالے جائیں گے۔پیپلز پارٹی کے رہنما مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ پیپلز پارٹی اپنی کمزوریوں کا جائزہ لے رہی ہے، بلاول بھٹو پیپلز پارٹی کو موجودہ بحران سے نکالنے کی اہلیت رکھتے ہیں، سوشل ڈیموکریسی ملک کے مستقبل میں بہتری کی ضمانت ہے۔وزیرداخلہ سندھ سہیل انور سیال نے کہا کہ اٹھارہ اکتوبر 2007ء میں بینظیر بھٹو پر حملے کے شواہد ضائع کردیئے گئے تھے، کارساز حملہ کی تحقیقات کیلئے قائم کمیٹی شواہد اکٹھے کرنے کی کوشش کررہی ہے۔سابق وزیر داخلہ رحمن ملک نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بینظیر بھٹو قتل کی تحقیقات کرنے والی ایف آئی اے ٹیم کے سربراہ کی دیانتداری پر کسی کو شک نہیں ہے، اقوام متحدہ اور اسکاٹ لینڈ یارڈ کی رپورٹس میں واضح ہوچکا ہے کہ بینظیر بھٹو کی شہادت سر پر چوٹ لگنے سے ہوئی، اپنی زندگی کو داؤ پر لگا کر کہہ سکتا ہوں کہ دونوں سہولت کار جنہیں چھوڑ دیا گیا انہوں نے خودکش حملہ آور کو آگے لانے میں پوری مدد کی، بینظیر قتل میں ملوث سازش کرنے والوں، چیف ہینڈلر، درمیانی سطح کے ہینڈلرز، حملہ کرنے والے اور فائنانسرز سب کی شناخت ہوئی، آج تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ تحقیقات کے دوران ہم جب بھی ملزمان کے نزدیک پہنچتے تھے انہیں مار دیا جاتا تھا۔ رحمن ملک نے بتایا کہ بچ جانے والا خود کش حملہ آور اکرام اللہ اس وقت قندھار میں ہے،بی بی سی اکرام اللہ سے انٹرویو کرنا چاہتا تھاجس کیلئے اس نے حامی بھرلی تھی، چار ہفتے پہلے جب اکرام اللہ کا انٹرویو ہونا تھا تو قندھار میں اس پرحملہ ہوا جس میں وہ بہت مشکل سے بچا، اکرام اللہ کی آخری معلومات ہمیں دو ہفتے پہلے ملی ہیں، افغان صدر اشرف غنی سے اپیل کرتا ہوں کہ اکرام اللہ جو اس وقت افغانستان میں موجود ہے اس کو گرفتار کر کے پاکستان ڈیپورٹ کریں، کہیں ایسا نہ ہو کہ پہلے مارے جانے والے سات افراد کی طرح اکرام اللہ بھی نہ مار دیا جائے۔ رحمن ملک نے کہا کہ بینظیر بھٹو قتل منصوبے میں عبیدالرحمن چیف ہینڈلر تھا، تحقیقات کے دوران ہمیں اس کی لوکیشن صدر کے گنجان آباد علاقے میں معلوم ہوئی، ہم ٹریک کرتے ہوئے اس گلی تک پہنچے تو یہ وہاں سے غائب ہوگیا، اسی دوران ایک دلچسپ بات یہ ہوئی کہ ٹیلیفون کے سروس پرووائڈر نے کہا کہ جس بندے کی لوکیشن آپ پوچھ رہے ہیں وہ گوجرانوالہ میں ہے، میں نے چیف انویسٹی گیٹر کو کہا وہاں سے واپس نہیں جانا اور وہاں نئی ٹیم بھیج دی، اگلے چوبیس گھنٹے میں عبید الرحمن پر ڈرون حملہ کر کے اسے مار دیا گیا، یہ اب تک خیبرپختونخوا میں ہونے والا واحد ڈرون حملہ ہے،سی آئی اے ہمیں بتائے عبید الرحمن کو کس انفارمیشن پر ٹارگٹ کر کے مارا گیا۔رحمن ملک کا کہنا تھا کہ میں نے بینظیر بھٹو قتل سے متعلق پرویز مشرف سے بھرپور انداز میں سوالات کیے ہیں، یو اے ای میں ایک پیلس میں میٹنگ ہوئی، میں اور بینظیر بھٹو لندن سے آئے جبکہ پرویز مشرف بھی اسی جگہ پہنچے، پہلے میری اور بینظیر بھٹو کی پرویز مشرف اور دیگر دو جنرلز کے ساتھ میٹنگ ہوئی، اس کے بعد بینظیر بھٹو اور پرویز مشرف کی ون ٹو ون میٹنگ ہوئی جس میں تھوڑی دیر بعد ہمیں بھی بلالیا گیا، وہاں پرویز مشرف نے بینظیر بھٹو سے کہا کہ I would like to celebrate New year close 2007 31st December and it will be great بینظیر بھٹو نے کہا کہ look general I am not going to take your dictation, I will make my own timings, I am not going to come as per your timings بینظیر بھٹو چینجنگ روم میں گئیں تو پرویز مشرف نے مجھے کہا کہ یہ آپ کی بات سنیں گی آپ انہیں کیوں نہیں کہتے کہ نہ آئیں، میں نے کہا جنرل صاحب میں نہیں کہوں گا کہ نہ آئیں کیونکہ وہ فیصلہ کرچکی ہیں انہوں نے آنا ہے اور محترمہ جو فیصلہ کرلیتی ہے بڑا اٹل ہوتا ہے لہٰذا اس پر آپ کو بات کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی۔ رحمن ملک نے مزید بتایا کہ 26تاریخ کو مجھے ایک جنرل کا فون آیا کہ ڈی جی آئی ایس آئی محترمہ سے ملناچاہتے ہیں، میں نے محترمہ کو بتایا تو انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے بلالیں، اس ملاقات میں بینظیر بھٹو، میں، جنرل ندیم تاج موجود تھے، انہوں نے بینظیر بھٹو سے کہا کہ آپ کو سخت خطرہ ہے،آپ پر حملہ ضرور ہوگا،جب بینظیر بھٹو پر حملے کے اتنے واضح خطرات تھے تو کیوں انہیں سیکیورٹی نہیں دی گئی،پرویز مشرف کیسے کہتا ہے کہ اسے معلوم نہیں تھا، ڈی جی آئی ایس آئی اس کی مرضی کے بغیر نہیں آسکتا تھا، بینظیر بھٹو نے جنرل ندیم تاج سے کہا کہ پرویز مشرف سے کہنا اتنی دھاندلی کرے جتنی میں ہضم کرسکوں، اگر جنرل پرویز مشرف نے مکمل سیکیورٹی دی ہوتی تو شاید بینظیر بھٹو کی شہادت نہ ہوتی۔