• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میڈیا میں شامل ایک طبقہ نے تو حد کردی۔ پیسہ کے لالچ اور ریٹنگ کی ریس نے اس حد تک میڈیا کو گر ا دیا کہ آزاد عدلیہ اور چیف جسٹس کو گالیاں دلوانا بھی اب معمول بن گیا ۔ ملک کا خیال ہے نہ عوام کا۔ اداروں کی حرمت کا احساس ہے نہ اٹھارہ کڑور عوام کے مستقبل کا۔ بس پیسہ ملتا رہے، ریٹنگ بڑھتی رہے چاہے اس سے ملک ہی کا بیڑہ غرق کیوں نہ ہو جائے۔ کسی کو بھی سامنے بٹھا کر جس کو چاہے گالیاں دلوا دو۔ بے شک قانون کی خلاف ورزی ہو یا آئین کی مگر بغیر کسی فکر کے گالم گلوچ کا سلسلہ جاری ہے۔ حکومتی ذمہ دار یہ سب کچھ دیکھنے سننے سے قاصر ہیں اور اسی وجہ سے ایک دفعہ نہیں بار بار عدلیہ کو بُرا بھلا کہلوانے کے لیے ایک ہی مہمان کو ایک کے بعد ایک شو میں بلایا جا رہا ہے۔ محترم چیف جسٹس ، ان کے خاندان ، دوسرے معزز ججوں اور عدلیہ کے خلاف اس قدربد زبانی اور ایسے ایسے بیہودہ الفاظ استعمال کیے جا رہے ہیں جو پہلے نہ کبھی سنے نہ دیکھے۔جرمنی میں مقیم پاکستان کے لیے درددل رکھنے والے بزنس مین سید خرم صاحب کے مطابق ایک اینکر پرسن نے اُنہیں خود بتایا کہ ٹی وی انتظامیہ نے اسے مجبور کر کے عدلیہ کے خلاف شو کروایا۔ جب میری ان اینکر پرسن سے بات ہوئی تو انہوں نے مجبور کرنے والی بات تو نہیں کی مگر اس بات کی تصدیق کی کہ اُن کے ادارے کے مالک کی طرف سے یہ انٹرویو کرنے کو کہا گیا تھا۔ قانون اور آئین کے مطابق ججوں اور عدلیہ کے خلاف اس نوعیت کی گفتگونہ تو ٹی وی چینلز پر دکھائی جا سکتی ہے اور نہ ہی اخبارات میں شائع کی جا سکتی ہے۔ حتّٰی کہ ایسی گفتگو پارلیمنٹ کے اندر بھی نہیں کی جا سکتی مگر یہاں تو فری فار آل (Free for all) والا معاملہ ہے۔ ججوں اور عدلیہ کو بُرا بھلا کہنے والوں کو سزا کا خوف ہے نہ قیدوبند کا ڈر کیوں کہ انہیں معلوم ہے کہ سزا کی صورت میں آئین کے آرٹیکل 45 کے تحت اُن کی سزا کو ختم کر دیا جائیگا۔ عدلیہ اور چیف جسٹس کے خلاف گالم گلوچ کرنے والوں کو یہ بھی فکر نہیں کہ اُن کو سابق وزیر اعظم گیلانی کی طرح نااہل قرار دے دیا جائے گا کیوں کہ جو اُن کو ملا وہ سب تو حکمرانوں کی وجہ سے ملا ورنہ وہ تو اس کا کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ اب ان کے لیے قربانی کا وقت ہے۔ ایک گیلانی گیا تو کیا ہو، پرویز اشرف آ گیا، موجودہ وزیر اعظم چلا گیا تو کیا ہو اور کئی گیلانی اور پرویز اشرف قربانی کے لیے حاضر ہیں۔ ساراکھیل یہ ہے کہ کسی بھی صورت میں اس حکومت کی کرپشن اورحکمرانوں کے خلاف بیرون ملک بدعنوانی کے کیس نہ کھلنے پائیں۔ پاکستان کا چاہے جو مرضی حال ہو، ملک تباہ و برباد ہو جائے، لوگ بھوکے مریں مگر کسی بھی صورت کرپشن پر بات نہ کی جائے۔ اگر سپریم کورٹ کرپشن کے معاملات اٹھائے گی تو اس کو بھی نیست و نابود کر دیا جائے گا۔ اگر ہمارا کوئی سفیر پاکستان کیخلاف مبینہ سازش میں شامل ہوگا تو حکمرانوں سے تعلق کی بنیاد پر اس کے لیے بھی معافی کا سلسلہ ہو گا۔ اور اگر آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ ایسے شخص کے خلاف اپنا بیان دیں گے تو آرمی کے ادارے کا بھی مذاق اُڑایا جائے گا۔ جمہوریت کے نام پر پاکستان کو برباد کرنے والے تو جو کر رہے ہیں وہ تو سب کے سامنے ہے مگر میڈیا اس قدر سنگدل کیوں ہو گیا اس کا مجھے بہت دکھ ہے۔ میڈیا نے تو آزاد عدلیہ کی جدوجہد میں اہم ترین رول ادا کیا تھا اب پیسہ اور ریٹنگ کی لالچ میں اُسی عدلیہ کو برباد کرنے کی سازش کا حصہ بن رہا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ اربوں روپے میڈیا میں کس کس انداز میں تقسیم کیے جا رہے ہیں۔ سیکرٹ فنڈ کس کس کی جیبوں میں جا رہا ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے تو اس سلسلہ میں بہت کچھ سپریم کورٹ کے سامنے رکھ دیا۔ ٹرانسپیرنسی نے تو اس چینل اوراشتہاری ادارے کے کرتا دھرتا کا نام بھی دے دیا جو حکمرانوں کی ایماء پر میڈیا سے لین دین میں مصروف ہیں۔ یہ سب کچھ ایک خاص منصوبے کے تحت ہورہا ہے اگر میڈیا سے متعلق قوانین پر عمل درآمد ہو رہا ہوتا تو یہ سب کچھ ممکن نہ تھا مگر قانون نافذ کرنے والوں کو تو فحاشی نظر آ رہی ہے نہ اُن ”بے چاروں“ کوسپریم کورٹ کے خلاف گالم گلوچ سنائی دے رہی ہے۔ یہ سنائی بھی کیسے دے جب گالم گلوچ کرنے والے حکمرانوں کے قریبی آدمی ہوں اور اس سب کا مقصد حکمرانوں کو بچانے کا ہو اور جب ذمہ داروں کے مستقبل کا فیصلہ بھی حکمرانوں کے ہاتھ میں ہو۔قانوناً ایسے میڈیا کو کڑی سزا دی جانی چاہیے جو آئین اور قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عدلیہ جیسے آئینی ادارے کی کھلم کھلا تضحیک میں مبتلا ہوں۔ مگر ایسا موجودہ صورت حال میں ممکن نہیں۔ سپریم کورٹ اور چیف جسٹس کو بُرا بھلا کہنے والوں کی تو خواہش ہے کہ ان کو عدلیہ کی تضحیک کرنے کے جرم میں عدالت طلب کرے تا کہ وہ ایک نیا تماشا لگا سکیں۔ ان حالات میں اعلی عدلیہ کو چاہیے کہ وہ ایسے میڈیا کے خلاف تادیبی کارروائی کرے جو آئین و قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عدلیہ کی تضحیک اور ججوں کا مذاق اڑانے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ کسی ایک کا جب لائسنس معطل ہو گا تو سب قانون پر عمل درآمد کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ میڈیا کی آزادی کا حال دیکھیں کہ میں یا کوئی دوسرا اینکر پرسن میڈیا سے متعلق کسی غیر قانونی اور غیر اخلاقی اقدام پر بات نہیں کر سکتا مگر آئین و قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوے سب کو عدلیہ اور ججوں کو گالی دینے کی کھلی چھٹی ہے۔
جب پابندی کی بات ہو رہی ہے تو ذرا تذکرہ ہو جائے اسلام سے شرمندہ شرمندہ رہنے والے اس کالم کار کا جو حکومتی عہدوں کا بھوکا رہا،مشرف کا چمچہ رہا او عمران خان کے مطابق امریکہ کی زبان بولتا ہے۔ اپنے حالیہ کالم میں موصوف نے اپنی لاعلمی اور ناقص معلومات اور اس ناقص معلومات کو بنیاد بنا کر کھوکھلا تجزیہ پیش کیا جس میں جناب کی مجھ سے ”محبت“ کے علاوہ اسلام اور پاکستان کے آئین کے متعلق جذبات کی خوب ترجمانی ہوتی ہے۔ پہلے تو موصوف سے گزارش ہے کہ تبصرہ کرنے سے پہلے درست معلومات حا صل کر لیا کریں اور بہتر ہو گا کہ چڑیا کے علاوہ بھی معلومات کے حصول کے لیے کوئی اور ذرائع بھی تلاش کر لیں ۔میرا نام لیے بغیر جناب فرماتے ہیں کہ ایک صحافی نے بھی فحاشی کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی جو سراسر بے بنیاد ہے۔ امریکہ جس طرح جھوٹ کی بنیاد پر مسلمان ملکوں پر حملہ کر دیتا ہے اسی انداز میں موصوف ایک جھوٹ کی بنیاد پر میرے پیچھے پڑ گئے۔ موصوف نے یہ بھی فتویٰ جاری کر دیا کہ میرے مدیران صفحہ اول پر میری”اخلاقی بحث“ سے اختلاف کرتے تھے اس لیے مجھ پر پابندی عائد کی گئی۔ یہ بھی سراسر غلط اور جھوٹ ہے۔جناب سے گزارش ہے کہ اگر وہ مجھ پر پابندی کی وجہ پاکستان براڈکاسٹنگ ایسوسی ایشن سے پوچھیں تو اپنا ایک اور جھوٹ اُن کے سامنے ہو گا۔پابندی سب پر ہے۔ اگر موصوف اس پابندی سے مبرّا ہیں تو مجھے اس موضوع پر اپنے شو میں بلائیں سب پتہ چل جائے گا۔
جو سرکردہ اینکر پرنسز ہیں وہ صورتحال سے پوری طرح واقف ہیں اوران میں سے بعض موصوف کو بہت پسند بھی کرتے ہیں اورنظریاتی طور پر انکے قریب بھی ہیں کم از کم انکی جیسی ہی اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرنا چاہیے لیکن ان کی سی اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرنا تو موصوف کی گھٹّی میں ہی شامل نہیں مگر جناب نے حسب عادت اس پابندی کے خلاف آواز اُٹھانے والوں پر بھی طعنہ زنی کر دی۔جنا ب کو اصل تکلیف پاکستان کے اسلامی آئین سے ہے جس کا یہ وعدہ ہے کہ اس ملک میں صرف اللہ اور اللہ کے رسول کا قانون چلے گا۔ موصوف کو فحاشی پر اعتراض نہیں ۔ جناب تو غیر قانونی اقدامات کرنے والوں اورقرآن اور سنت کے تحت دی جانے والی اسلامی سزاؤں کے خلاف بولنے والوں کے وکیل بن گئے۔ جناب کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ مجھے تو ذوالفقار علی بھٹو سے محبت ہی اسی لیے ہے کہ انہوں نے اس ملک کو ایک اسلامی آئین دیا ۔ میری جدوجہد ہے کہ قرآن و سنت کے مطابق پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنایا جائے اور یہی پاکستان کے آئین کی منشاء ہے۔ اسلام سے شرمندہ شرمندہ رہنے والوں کے بس میں ہے تو آئین کو تبدیل کروا لیں مگر پاکستان میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے قرآن اور سنت کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں۔
تازہ ترین