یہ نوشتۂ دیوار ہے پڑھ سکے تو شاید کوئی جائے امان مل جائے۔ گزشتہ دو ہزار سال کی تاریخ صہیونیوں کیلئے ذلت و مسکنت کی تاریخ ہے۔ اس دوران اگر انہیں کبھی امن حاصل ہوا تو وہ مسلم سپین یا عثمانی خلافت کی مہربانی سے ممکن ہو سکا ورنہ ہر صدی میں کم از کم ایک دفعہ عیسائی بادشاہوں نے ان کا بے رحمی سے قتل عام کیا۔ ہر قتل کے ذمہ دار یہ خود تھے۔ انہوں نے اپنے محسنوں کے ساتھ غداری کی اور ان کے خلاف سازشوں میں شریک رہے اور ان کا آخری قتل عام نازی جرمنی میں ہٹلر کے ہاتھوں ہوا۔ یورپ کی عیسائی ریاستوں نے اس غدار اور سازشی قوم سے اپنی جان چھڑانے کیلئے مفتوحہ مسلمان فلسطین میں لا کر آباد کر دیا جہاں پر 1945ء میں ان کی کل آبادی نو فیصد سے زیادہ نہ تھی اور مسلمانوں کی تعداد نوے فیصد، آج 2017میں سب کچھ بدل گیا۔ مسلمانوں کی نوے فیصد آبادی صہیونیوں کے ہاتھوں قتل اور ملک بدر کر دی گئی۔ اب وہاں صرف سات فیصد فلسطینی باقی رہ گئے ہیں۔ یہودیوں کا ظلم و ستم ہے کہ رکنے میں نہیں آتا، چھ ماہ سے دس سال کے بچوں اور عورتوں کو اذیت دے کر قتل کرنا اور برسہا برس جیلوں میں ڈالے رکھنا ان کا عام وطیرہ ہے۔ یہی حالات جاری رہے جو گزشتہ ستر برس سے جاری ہیں تو یہ پہلی صدی ہو گی جب عیسائیوں کی بجائے صہیونیوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں بڑے مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آج تک ان کی ستم گری جاری رہنے کی وجہ امریکہ کی غیر مشروط حمایت اور یورپ کی مدد سے زیادہ ہمسایہ مسلمان ریاستوں کے سربراہوں کی منافقت ہے جنہوں نے اپنے اقتدار کیلئے اپنی ہی قوموں کو غلام بنا رکھا ہے انہیں فلسطینیوں کی مدد کیلئے پہنچنے کی اجازت نہیں۔ اگر ہمسایہ عرب ریاستوں نے ترکی، پاکستان اور ایران کی مدد سے ایک ایک ’’حزب اللہ‘‘ جیسی عسکری تنظیم کھڑی کی ہوتیں تو آج تک اسرائیل فنا کے گھاٹ اتر گیا ہوتا اور ان کی اپنی ریاستیں بھی محفوظ رہتیں۔ دیر ہو گئی فلسطینیوں نے ناقابل بیان دکھ سہہ لئے۔ لبنان میں حزب اللہ نے اسرائیل کے ناقابل شکست ہونے کا طلسم توڑ دیا۔ ایران کی ثابت قدمی، ترکی کے مجاہدانہ کردار کی وجہ سے مشرق وسطیٰ کی سیاسی روش تبدیل ہونے لگی ہے۔ فلسطینی عورتوں اور معصوم بچوں کی قربانیوں نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ ڈالا ہے۔ رواں مہینے (دسمبر) میں ’’نام نہاد‘‘ اکلوتی سپر پاور کی مکمل تائید کے باوجود اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور بعد ازاں جنرل اسمبلی میں جو کچھ دیکھنے میں آیا یہ سفارتی میدان میں امریکہ کو سبکی اور اسرائیل کو ذلت کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ آنے والے دنوں کی دھندلی سی تصویر ہے۔ دھند چھٹ جائے گی تو دنیا ایک بالکل بدلی ہوئی صورتحال کو دیکھے گی۔ یورپ پچھلی ایک دہائی سے آہستہ آہستہ اسرائیل کی صہیونی ریاست سے اپنا دامن بچانے لگا ہے اس نے دہشت گرد اسرائیل سے اپنے فاصلے بڑھا لئے ہیں۔ امریکہ فی الوقت اسرائیل کی محبت اور ناز برداری کے سبب سفارتی تنہائی اور بے عزتی کا سامنا کر رہا ہے لیکن جلد ہی سفارتی شکست جب مفادات کو نقصان کی سطح پر لے آئے گی تو ’’بلی تپتی زمین پر پائوں رکھنے کی بجائے زمین پر اسرائیلی بلونگڑے کو ڈال دیگی اور بلونگڑے کے جسم پر کھڑے ہوکر خود کو تپش سے بچانے میں ذرا بھی ہچکچانے کی نہیں‘‘۔
گالی دینے، لعنت کرنے، پتلا جلانے کیلئے ایک سمبل کی ضرورت ہے اور دنیا بھر کو یہ سمبل امریکی صدر ٹرمپ کی شکل میں میسر ہو گیا ہے۔ اب جی بھر کے گالی دیجئے، پتلے جلایئے ورنہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا فیصلہ مسٹر ٹرمپ کا نہیں امریکہ کا ہے۔ لگ بھگ دو عشرے قبل امریکی کانگریس نے اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم (بیت المقدس) منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔ امریکی ریاست کی پالیسی کو مختلف صدور نے مصلحتاً نافذ کرنے سے اجتناب کیا۔ گزشتہ انتخابی مہم کے دوران ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے کانگریس کے اس فیصلے کو ترپ کے پتے کے طور پر استعمال کیا۔ اس نے وعدہ کیا کہ اگر وہ صدر منتخب ہو جائے تو کسی مصلحت کو خاطر میں لائے بغیر کانگریس کے حکم پر عملدرآمد کریں گے اور یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت بنا دیا جائے گا۔ اس واضح اعلان کے نتیجے میں اسے یہودیوں اور انتہا پسند سفید فارم امریکیوں کی طرف سے خوب پذیرائی حاصل ہوئی اور وہ دنیا کی واحد سپر پاور کا سربراہ چن لیا گیا۔ چنانچہ انہوں نے حالیہ دورہ اسرائیل کے دوران اس فیصلے کو عملاً نافذ کرنے کا اعلان کر دیا۔ امریکہ کے اس یکطرفہ فیصلے کا اسرائیل کے سوا کسی قابل ذکر دوست اور اتحادی نے بھی ساتھ نہیں دیا۔ امریکہ کی طاقت سے بات منوانے، دھمکی سے کام نکلوانے اور لالچ دے کر حکومتوں کا سر جھکانے کی صلاحیت رفتہ رفتہ کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ جسے امریکہ کی لونڈی قرار دیا جاتا تھا آج وہ لونڈی ناکارہ اور بوڑھے آقا کی غلامی سے نکلنے کی کامیاب کوشش کرتی نظر آتی ہے۔ ویتنام کی جنگ نے امریکہ کی فوجی قوت کی قلعی کھول دی پھر بھی ایک پردہ سا رہ گیا تھا کہ کمیونسٹ دنیا ویتنام کے ساتھ تھی اور طویل فوجی کارروائی کی وجہ سے امریکی رائے عامہ نے بھی دبائو ڈالا اس لئے امریکہ کو اس محاذ سے پسپا ہونا پڑا لیکن افغانستان میں ایسی کوئی مجبوری نہ تھی اتحادی پورا ساتھ نبھا رہے تھے۔ آدھی سے زیادہ دنیا نے اپنی فوجیں اور جنگی ساز و سامان اور مال و دولت اور ذرائع رسل و رسائل سے مدد کی حتیٰ کہ حریف طاقتیں بھی کسی نہ کسی طرح امریکہ کی مددگار ہوئیں۔ نحیف و نزار حکومت اور اقتدار سے محروم مٹھی بھر طالبان نے اکلوتی عالمی طاقت کے چھکے چھڑا دیئے۔ طالبان کے ہاتھوں شکست اور عراق میں رسوائی کے بعد خالی ڈھول دور سے سہانا لگے لیکن نزدیک آنے پر یہ ڈھول نرا پول رہ گیا ہے۔ دشمن ہی نہیں نیٹو اور دوسرے اتحادی اس کی طاقت، امارت اور قیادت سے مایوس ہوگئے وہ سمجھ گئے ہیں کہ اس کی دولت مندی، فوجوں کی غیر معمولی صلاحیت اور جدید ٹیکنالوجی کا غلغلہ سب دھوکہ ہے۔ اتحادیوں نے تسلیم کرنا شروع کیا کہ مسلمانوں کے ساتھ ختم نہ ہونے والی کشیدگی ان کے مفاد میں نہیں لہٰذا مسلمان ریاستوں خصوصاً پاکستان، ایران، ترکی، انڈونیشیا امریکی فیصلے سے پیدا شدہ ردعمل کو مسلمان ملکوں کے درمیان امن اور مصالحت کیلئے استعمال کریں۔
جنگ عظیم دوئم کے بعد فلسطینیوں کو کمزور، عربوں کو بے بس اور مسلمانوں کو بے حس پا کر یورپ اور امریکہ نے زہر میں بجھا تیز دھار خنجر مسلمانوں کے سینے میں گاڑھ دیا۔ ستر برس ہونے کو آئے، آج اس خنجر کا زہر رفتہ رفتہ عالمی برادری کے جسم میں سرایت کرنے لگا ہے۔ ہلاکت خیزی کا تریاق دریافت کئے بغیر انسانی جسم محفوظ اور توانا نہیں رہ سکے گا۔
گزشتہ دو ہزار برس سے یہودی عیسائیوں سے اور عیسائی یہودیوں سے نفرت کرتے آئے ہیں جب یہودیوں کو طاقت حاصل تھی تو انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ماننے والوں پر ہر ستم روا رکھا اور ان کا قتل عام کرتے رہے اور جونہی سیاسی طاقت اور بادشاہت عیسائیوں کے حصے میں آئی تو انہوں نے یہودیوں کے ساتھ وہی کیا جو وہ عیسائیوں کے ساتھ کرتے آئے تھے۔ گزشتہ ڈیڑھ ہزار سال کی تاریخ کہتی ہے کہ یہودی جہاں بھی آباد ہوئے مقامیوں نے انہیں کھلے دل سے خوش آمدید نہیں کہا۔ آج دو سو ریاستوں کی دنیا میں امریکہ واحد مددگار رہ گیا ہے جو اسرائیل کی پشت پناہی جاری رکھے ہوئے ہے۔ جب تک امریکہ کو ہوش آئے گا یہ خونی درندہ اس کا خون چوس چکا ہوگا۔
جمعرات 21دسمبر کو جنرل اسمبلی میں جو کچھ پیش آیا وہ آنے والے دنوں کی ایک ہلکی سی جھلک ہے۔ اسرائیل کی قابل نفرت صہیونی ریاست یورپ کے بل پر وجود میں آئی اور امریکہ کی پشت پناہی سے اب تک قائم ہے اس کی سلامتی کی کوئی ٹھوس ضمانت نہیں۔ یہ تب تک اپنا وجود برقرار رکھے گی جب تک امریکہ اس کی پشت پر ہاتھ رکھے ہوئے ہے۔ مگر کب تک؟