• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے ہم وطنو! آپ کی توجہ کا طلب گار ہوں۔ ’’پاکستان ایک جھوٹا اور فریبی ملک ہے۔ فریب کاری سے ہم سے 33بلین ڈالر بٹور چکا ہے‘‘۔ صدر ٹرمپ کے ان چند فقروں نے دہلا کر رکھ دیا۔ حیف، ایسوں کی جہالت پر، امریکی صدر کی ذاتی اختراع جان بیٹھے۔ امریکی نظام کو قریب سے دیکھا، بھالا، پرکھا۔ اتنے مضبوط، مربوط، جامع، ریاست کے تمام اجزا پر حاوی، تمام ادارے اہلیت، ادارک، فہم و فراست کے ضامن۔ ایسے ادارے بنانا، تشکیل پانا، ترتیب دینا، انسانی ذہن کے بس میں شاید نہیں۔ پچھلی کئی دہائیوں سے انہی اداروں نے کرہ ارضی پر اَت مچا رکھی ہے۔ جھوٹ، فراڈ، ظلم، قتل، لوٹ مار نسلِ انسانی پر سفید چمڑی نے کئے، جرائم کی انمٹ تاریخ رقم ہوئی۔ جس برا عظم پر قدم رنجہ فرمایا، نسلیں(ریڈ انڈین، ابر جینو) ہڑپ کر گئے۔ جتنے لیڈر، سیاستدان، دانشور، آرٹسٹ امریکی CIA نے قتل کروائے، الامان و الحفیظ۔کئی سالوں سے ڈھنڈورا پیٹ رہا ہوں،ہونی نے ہو کر رہنا، امریکہ پاکستان کی اینٹ سے اینٹ اس لئے بجانے کے درپے ہے کہ چین کے سارے راستے مسدود رکھنا ہے۔
امریکہ افغانستان میںجو مقاصد لے کرآیا، نتائج برعکس نکلے۔ افغانستان میںآیا کیونکر ؟روس اور چین کو روکنا اور وسطی ایشیا کے وسائل قبضے میں لینا۔16سال سے ہر آنے والا دن سانحہ نائن الیون کو جھوٹا ثابت کرنے میں معاون ہے۔ کھوجیوں نے سراغ لگایا کہ اپنی کارستانی تھی کہ القاعدہ کے پاس استعداد نہ تھی۔امریکہ کا زندہ عجوبہ، نیویارک شہر11ستمبر2001قیامت کا منظر دے گیا۔ بلند ترین جڑواں ٹاورز مع تیسری بلڈنگ نمبر7 زمین بوس ہوئے۔ جڑواں ٹاور سے دو جہاز ٹکرائے جبکہ بلڈنگ نمبر7جو400فٹ دور، کئی گھنٹے بعد گری، وجوہات آج تک نا معلوم۔ بلڈنگ نمبر7کے انہدام نے ریاضی دانوں، ماہرین فزکس اورخصوصاً اسٹرکچرل انجینئرز کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ 1980بحیثیت طالب علم،ا سٹرکچرل انجینئرنگ میں ماسٹرڈگری کا طالب تھا۔ انہی دنوں اوکلا ہو ما شہر میں ایک شاندار 5اسٹار ہوٹل کی افتتاحی تقریب پر زور شور، گانا بجانا، ناچ دھمال، شراب و کباب، بدمستی عروج پر تھی۔ جوش و خروش کی انتہا پر ہوٹل کی چھت گر گئی، لگ بھگ400لوگ ہلاک ہوئے۔
میری یونیورسٹی، ’’ٹیکساس ٹیک‘‘ ایک دوسری ریاست میں، کوئی تعلق نہ تھا۔مگر نظر اندازنہ کیا، اتنے بڑے حادثہ پرا سٹرکچرل انجینئرنگ کے نامی گرامی اساتذہ اکٹھے ہوئے، ہم بھی وہاں موجودتھے۔ طے ہوا کہ مکمل تحقیق اور ریسرچ کرناہو گی۔ تہہ تک پہنچنا پڑے گا۔ وجوہات ڈھونڈنا ہو ںگی کہ مستقبل میں بچا جا سکے۔ بتانے کا مقصد، امریکی یونیورسٹیوںمیں ایسامعمول کی کارروائی، قومی حادثوں پر سر جوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ سانحہ نائن الیون نے دنیا کو تو ہلا یا ہی، امریکی انجینئرز اور محققین کی نیندیں اُڑا دیں۔ امریکی حکومت تو خیر کئی زاویوں سے تفتیش کی پابند تھی۔دو جامع رپورٹ تیار ہوئیں۔پہلی امریکی کانگریس اور ہزاروں ماہرین کی محنت شاقہ سے17جولائی2004میں جبکہ دوسری تحقیقی رپورٹ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اسٹینڈرڈ اینڈ ٹیکنالوجی (NIST) نے دسمبر2005میںپیش کی۔ NIST کی رپورٹ نے کمیشن رپورٹ کی توثیق ضرور کی، بہت سارے سوالوں کا جواب تشنہ طلب رہا۔ یونیورسٹیوں اوردوسرے تحقیقاتی اداروں نے بغیر کسی تعصب، جانبداری، پاسداری کے تحقیق اور جستجو میں سارے دروازے کھلے رکھے۔ درجنوں یونیورسٹیوں، تحقیقی انجینئرز کی تیار شدہ اکثر رپورٹس،2006 میںمنظر عام پر آئیں۔ سب نے متفقہ طور پر کمیشن رپورٹ اور NIST رپورٹ بارے اپنے تحفظات بتائے۔ جڑواں ٹاورز کا جہازوں کے ٹکرانے سے انہدام اور خصوصاً تیسرے ٹاور بلڈنگ نمبر7کابغیر کسی وجہ منہدم ہونا، کسی بھی انجینئرنگ اصول کے خانے میں فٹ نہیں بیٹھتا تھا۔
2006ہی سے شکاگو یونیورسٹی اور دوسری یونیورسٹیوں کے انجینئرز اور محققین نےنائن الیون رپورٹس اور NISTرپورٹس کو ناکافی قرار، بتائی وجوہات کو مسترد کر دیا۔چند سال پہلے پبلک ریسرچ یونیورسٹی آف الاسکا فیئربینکس(UAF)سول اینڈ ماحولیات انجینئرنگ نے گل مکا دی، شاندار تحقیقات 2011میں شائع ہوئیں۔ پبلک اور پرائیویٹ یونیورسٹیاں سب متفق کہ نائن الیون کے سرکاری موقف کی دال پوری کالی ہے، حقائق سے دور ہے۔ بلڈ نگ نمبر 7کے انہدام پر رائے متفقہ کہ باقاعدہ پلاننگ سے بارود کے ذریعے منہدم کی گئی۔ جڑواں بلڈنگ جن سے بوئنگ طیارے ٹکرائے، بلڈنگ کا اسٹرکچر ایسا کہ مکمل تباہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے تھے۔ چند سال پہلے انہیں کالموںمیں لکھا تھا کہ سانحہ الیون جھوٹ کا پلندہ، استعماری تسلط بڑھانے کے لئے امریکہ کو بہانہ درکار تھا۔جڑواں ٹاورز سے حاصل سیمپل کی کیمیکل تجزیاتی رپورٹ میں ایسے بارود کی موجودگی جو امریکی فوج کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہے۔
فروری1989جب آخری روسی فوجی افغانستان سے نکلا، امریکہ اکلوتی طاقت بن کر سامنے آیا۔ روس بکھر چکا تھا، رہی سہی کسر صدرگوربا چوف کے بعد آنے والے صدربورس ییلسن، 24گھنٹے نشے میں دھت،کے 8سالہ دور میں پوری ہو گئی۔دوسری طرف چین1966 سے 1978تک شدید معاشی پس ماندگی کی طرف چل پڑا۔ غربت بڑھ رہی تھی۔بیمار مردبننے کے قریب ہی کہ قسمت مہربان، ڈنگ ژائو پنگ نے صدر بنتے ہی بنیادی معاشی اسٹرکچر کو مضبوط بنیاد پر استوار کیا اور کیپٹل اکانومی کو دل کھول کرجگہ دی۔ بورس ییلسن کے اقتدار میں امریکہ کو روس میں ہمہ گیر، ہمہ وقت رسائی مل چکی تھی۔ جبکہ چین بے دست و پا،مفلوک الحالی میں تھا۔ آج کا چین ڈنگ ژائو پنگ کی رہنمائی اور انقلابی اقدامات کا مرہون منت ہے۔
غرضیکہ پوری دنیا سرنگوں، چین اور روس دوزانو امریکی استعمار اور بربریت کے سامنے، قیامت کے مناظر یکے بعد دیگرے رونما ہونے ہی تھے۔ 1993 میںطالبان حکومت امریکی اشیر بادہی سے تو قائم ہوئی کہ سینٹرل ایشیا کو باقاعدہ پنجہ استبداد میں رکھنے کی کوشش شروع ہو چکی تھی۔امریکہ نائن الیون کے بعد تو افغانستان میں کوانتا نامو بے اور پورتاریکوبنا چکاتھا۔ نیو ورلڈ آرڈرعملاً نافذ،پھلنا پھولنا تھا۔ چین اور روس کا ممکنہ احیا اگلے 50سال تک ممکن نہ تھا۔صدر بش نے یکم مئی 2002کو افغانستان میں باقاعدہ فتح کا اعلان کیا،سینٹرل ایشیا کے قدرتی ذخائر تیل، گیس مکمل قبضہ میں رکھ کر اگلا پڑائوعراق، شام، لیبیا کو ہتھیانا تھا، جو ہتھیا لئے گئے۔ یمن میں بغاوت، خانہ جنگی، افراتفری کے ذریعے ایران اور سعودی عرب کے وسائل کو کنڑول یا ناقابل استعمال رکھنا تھا۔ جنرل حمید گل کا تاریخی جملہ،9/11بہانہ، افغانستان پڑائو، پاکستان نشانہ کہ افراتفری، انارکی مطمح نظر۔ ہماری جنگ ایسے بنائی کہ دہشت گردی مع ڈرون اٹیک 15سال پاکستان منتقل کر دئیے گئے۔ پچھلے16 سال سے مملکت خداداد کی اینٹ سے اینٹ بجانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ لمبی کہانی، بات پرانی، 1988 کا ’’پروجیکٹ آف دی نیو امریکن سنچریـ‘‘، جامعیت اور مضبوطی میں رتی برابر شائبہ نہ تھاکہ اگلے100سال دنیا قدموں میںدیکھ رہے تھے۔ کتنی دفعہ لکھوں کہ چین کی انگڑائی اور روس کا سنبھل جانا،اللہ کی طرف سے نسل انسانی کو تحفہ ہے، اللہ کی اسکیم۔ پاکستان میں افراتفری، خانہ جنگی، جنگ کا ماحول تا کہ چین کے پاکستانی راستے مسدود کر کے ون بیلٹ روڈ کو ہر صورت روکنا اور اپنا اثر و رسوخ مستحکم کرنا ہے۔ چین اور روس کو روک کروسطی ایشیا، کاشغر سے نیل کے ساحلوں تک توانائی کے ذخائر کو اپنے استعمال میں رکھنا،بچے کھچے کو ناکارہ بنانا ہے۔
امریکہ کا کیا حشر ہونے کو، امریکہ دنیا کا کیا حشر کرنے کو؟ فیصلہ کی گھڑی آن پہنچی ہے۔عرصہ دراز سے انہی کالموں میں سیر حاصل بحث کر چکا ہوں، دنیا تیسری جنگ عظیم کے دہانے پر۔ ٹرمپ نے نئی بات کیا کہہ دی؟ ٹرمپ نے اپنے پاس سے کوئی بات نہیں کی۔حضور، یہ دہائیوں سے امریکی پالیسی کا تسلسل ہے۔ یقیناًناموافق یا نا مساعدحالات میں کچھ ردو بدل ممکن ہے، فیصلہ کن نکتہ جڑا رہنا ہے۔ ٹرمپ کی جگہ ہلیری ہوتی تو یہی ٹویٹ ملفوف الفاظ، ادب آداب سے ہوتا۔ درجنوں دفعہ لکھ چکاہوں، ـ’’امریکہ سی پیک بننے نہیں دے گا، چین بنا کر چھوڑے گا‘‘۔صدر ٹرمپ کو موردِ الزام ٹھہرانا، جیسے اسکی اختراع یا ایجاد جہالت یا بدنیتی اور کچھ نہیں۔ سالوں سے طے شدہ پالیسی ارضی سیاست کے اتار چڑھائو میں کچھ نہ کچھ ADJUST ضرور ہونی تھی، روبہ عمل ہو کر رہے گی وگرنہ امریکہ کو خطے سے بوریا بستر سنبھالنا ہے۔
اکتوبر2017 میں چیئرمین امریکہ سینٹ چیف آف اسٹاف جنرل جوزف ڈن فورڈکی سینٹ اور کانگریس بریفنگ بھی یہی کچھ تھی ’’پاکستان کی سرحدوںپر ہماری لڑاکا فوج تیار حالت میں، ہمہ وقت حملہ کے لئے تیارہے‘‘ کئی دفعہ دہرائی جا چکی۔تازہ بہ تازہ توثیق نائب صدرپینس کاپاکستان کو نوٹس پر رکھناہے۔ جنرل فورڈ، میک ماسٹر، ریکس ٹلرسن، میٹ ڈگلس سب یک زبان، صدر ٹرمپ نے کیا انوکھی بات کر دی؟
خدا کے واسطے،مسلم لیگ ن عمران خان کی فکر نہ کرے،خود اپنے انجام کو پہنچ جائے گا۔ انصافیے نواز شریف کا تعاقب چھوڑ دیں، کہ چند ہفتوں میں انصاف کا ڈنکا بجنے کو، ’’ان شاء اللہ سپریم کورٹ المشہور184(3)کے تحت PMLNکی صدارت سے معزول کرکے چھوڑیںگے ‘‘کہ نواز شریف ابھی تک سیاسی طور پر موثر کیوں۔
اے میرے عزیز ہم وطنو! آپکی توجہ کا طالب ہوں کہ خدارا سیاسی طور پر جو بھی پوزیشن لیں،یہ وقت مخالفین کو لتاڑنے اور اپنے اپنے جھوٹے فراڈئیے لیڈروں کو سپورٹ کرنے کا نہیں ہے۔ وطن کی سا لمیت سے بڑھ کر کچھ نہیں۔خدا کے واسطے جھوٹے نعرے، تکرار، رسمی بیان، منافقت سے اوپر آئیں، پاکستان1971سے زیادہ کمزور ترین، نحیف بیمار مرد بن چکاہے۔ سانسیں اکھڑ چکیں، ایسی خطرناک صورتحال کبھی وہم و گمان میں نہ تھی۔ متحدہ قوم ہوئی، تو کچھ نہیں بگڑے گا۔لڑائی مار کٹائی، افراط و تفریط، انجام کنندہ،کیا1971کی غلطی سے نہیں سیکھا؟لگتا ہے ملک کے موثر لوگ وطن دشمن ہی، وطن عزیز غنڈوں میں پھنس چکا۔ اے مالک تو ہی بچا، معجزہ دکھا۔

تازہ ترین