• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی دوست کی دعوت پر پاکستان اسپورٹس کمپلیکس کے لیاقت جمنازیم میں قائد اعظم بین الصوبائی گیمز کی اختتامی تقریب کیلئے میں بھی موجود تھا ، کسی دوسرے شہر سے آئے ہوئے میرے دوست نے بتایا کہ ان گیمز پر پندرہ سے اٹھا رہ کروڑ روپے کے اخراجات آئے ہیں، میں نے اپنے دوست سے سوال کیا کہ ان گیمز میں کیا خاص بات تھی تو دوست نے جو اب دیا کہ ان گیمز میں 19مختلف کھیلو ں کے مقا بلے منعقد ہو رہے ہیں اور پانچ روزہ گیمز میں تقریباً3500اتھلیٹس اور آفیشلز شرکت کررہے ہیں ، ان کھلاڑیوں کو رہائش اور کھانادینے کے ساتھ ساتھ ٹریک سوٹس اور شوز بھی دیئے گئے ہیں، میں نے اپنے دوست سے پھر سوا ل کیا کہ کیایہ گیمز کامیاب تھیں ؟تو دوست نے کہاکہ سوفیصد یہ گیمز کامیاب تھیں، میں نے اپنے دوست سے یہ پوچھا کہ وہ کس معیار کے تحت گیمز کو کامیاب کہہ رہاہے تو دوست نے جواب دیا کہ پاکستان کے چاروں صوبوں سندھ، بلوچستان، کے پی کے ، پنجاب کے علاوہ فاٹا اسلام آباد فیڈرل کیپٹل ، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کی ٹیموں کے کھلاڑیوں نے شرکت کی ۔کھیلوں کی افتتاحی تقریب میں سینیٹ میں قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی ، جبکہ اختتامی تقریب میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی خود تشریف لائے تھے ۔ اور جب کسی بھی سرکاری یا غیر سرکاری ایونٹ میں وزیر اعظم جیسی شخصیت بطور مہمان خصوصی آجائے تو وہ خوشی کا اظہار بھی کرے تو پھر اس ایونٹ کو کامیاب بلکہ سو فیصد کامیاب قرار دیا جاسکتا ہے ، چونکہ میں نے کھیلوں کے مقابلے نہیں دیکھے تھے محض قائد اعظم گیمز کی اختتامی تقریب میں شریک تھا اور مجھے اختتامی تقریب زیادہ جاندار نظر نہیں آئی۔اختتامی تقریب کے ختم ہونے کے بعد کچھ علاقوں کے لڑکے لڑکیوں اور اتھلیٹس نے مجھے پہچانتے ہوئے گھیر لیا اور میرے ساتھ سیلفیز اور گروپ تصاویر بنائیں تو میں نے لیاقت جمنازیم کے اندر جن کھلاڑیوں کو دور سے دیکھا تھا انہیں قریب سے بھی دیکھا، نوجوان لڑکے لڑکیوں کی باتوں اور چہروں سے مجھے محسوس ہوا کہ یہ لوگ گیمز کے انعقاد پر خوش ہیں جب اسی جگہ کھڑے ہوکر میں نے نوجوان لڑکے لڑکیوں سے کچھ گپ شپ اور سوال و جواب کئے تو معلوم ہوا کہ کچھ نوجوان لڑکے لڑکیاں ایسی بھی ہیں جو صرف اس گیمز میں شرکت کیلئے آگئے یا لائے گئے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ چلو اسلام آباد گھوم بھی آئیںگے کھیل سے واقفیت ہو یا نہ ہو ٹریک سوٹس اور شوز تو مل ہی جائیںگے لیکن ان ساری باتوں کے علاوہ میں نے محسوس کیا کہ قومی یکجہتی اور قائد اعظم کی یوم ولادت کے حوالے سے منعقدہ ان گیمز میں ایسی کوئی بات نظر نہ آئی ، وزیر اعظم کی تقریر سے لیکر بین الصوبائی رابطوں کے وفاقی وزیر کی تقاریر تک مجھے کسی نے متا ثر نہ کیا ۔کمپلیکس میں جا بجا گندگی، ٹوٹ پھوٹ اور ملبے کے ڈھیر اور کھلاڑیوں کی جانب سے جگہ جگہ پھینکے جانے والے کوڑے کی وجہ سے مجھے انداز ہوگیا کہ کھلاڑیوں کی نہ تربیت کی گئی ہے اور نہ ہی وہاں کوڑا دان موجود تھے کہ وہ استعمال شدہ اشیاء خوردونوش کو کسی ڈسٹ بن میں پھینکتے، پھر مجھے معلوم ہوا کہ مقابلوں میں شرکت تو تھی لیکن معیار نہ تھا، نوجوان کھلاڑیوں کو مقابلے کیلئے جمع تو کرلیا گیا تھالیکن ان کی تربیت کے کسی پہلو پر کوئی توجہ نہ دی گئی تھی، وزیر اعظم صاحب کورنگ برنگی اختتامی تقریب اور لچھے دار تقاریر سے یہ باور کرایا گیا کہ بہت اعلیٰ معیار کی گیمز منعقد کرائی گئیں بلکہ کھیلوں کے شعبہ میں انقلاب بپا کردیا گیا ہے ، لیکن حقیقت میں ایسا کچھ نظر نہیں آیا، اور اس پر جو بجٹ خرچ کیا گیا ہے وہ حقیقت کے برعکس نظر آتا ہے، تین ہزار سے چار ہزار کے درمیان کھلاڑیوں اور آفیشلز کو عمدہ رہائش، ٹریک سوٹس و شوز کے علاوہ آنے جانے کے اخرجات اور اختتامی اور افتتاحی تقریب پر بھی اگر بہت کھل کے خرچ کیا جائے تو یہ گیمز پانچ سے چھ کروڑ روپے کے بجٹ میں کرائی جاسکتی ہیں مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ پاکستان اولمپکس نے یہی گیمز 3کروڑ روپے میں منعقد کروانے کی پیشکش کی تھی ، لیکن ان گیمز کیلئے وفاقی حکومت اور پاکستان اسپورٹس بورڈ نے جو کثیر بجٹ استعمال کیا ہے یا طلب کیا ہے وہ بھی قومی خزانے کو لوٹنے کے مترادف ہے ۔مختصر یہ کہ کھیلو ں کے لئے کم وسا ئل کا رونا تو رویا جا تا ہے ،لیکن دستیا ب وسا ئل کو جس طرح لو ٹا یا ضا ئع کیا جا تا ہے اسکی مثا ل بھی نہیں ملتی۔

تازہ ترین