ان دنوں سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف بیان بازی اور اِن کے نام کے ساتھ تضحیک آمیز تاثرات کااستعمال پاکستانی سیاستدانوں اور تجزیہ کاروں کے لئے بظاہر سب سے آسان کام دکھائی دیتاہے ۔ یقین سے نہیں کہا جاسکتا لیکن وقتی شہرت کا حصول، شہرت میں اضافہ یا خاص حلقوں کی عارضی توجہ حاصل کرنااِس آسان مشق کے بنیادی مقاصد ہوسکتے ہیں۔سابق صدر کے خلاف یہ رویہ اختیار کرنا بھلا’’ اب‘‘ اتنا آسان کیوں ہے؟ ظاہر ہے اِن کے خلاف ’’اب ‘‘ کچھ بھی کہہ دینا کسی طور کوئی دقّت طلب کام نہیں رہا : اس میں کوئی خطرہ بھی نہیں ! بلکہ اس بہانے سابق فوجی آمر کے خلاف بھڑاس بھی نکالی جاسکتی ہے اور کسی ادارے کی جانب سے ’’اب‘‘ کسی رد عمل کا خطرہ بھی نہیں! شاید مشرف کے معاملے میں اداروں میں بھی عفو اور درگزر کا عنصر قابل قدر حد بڑھ گیا ہے۔
مشرف کے دور میں اقتدار اور عہدوں سے محروم یا جلا وطن رہنے والی شخصیات تو پہلے سے ان پر مختلف الزامات لگاتی آرہی آرہے ہیں لیکن انکے خلاف بیانات اور تضحیک آمیز روئیے کی تازہ لہر میں شدّت اور تواتر اب پہلے سے کہیں زیادہ ہے! خدشہ ہے کہیں نفرت کے اس اظہار کے ذریعے قوم کو ایک بار پھر لسٹ آف 72، صہیونی ایجنڈے، سامراجی عزائم ، ملک سے غداری اور جناح پور جیسے کسی نان ایشو (non-issue) میں نہ جھونک دیاجائے!
اِس مضمون کا مقصد پرویز مشرف کے ساتھ ہمدردی یا حمایت کا اظہار نہیں۔ اِن سے ہمدردی کرکے اب کسی کو کوئی دنیاوی یا روحانی فائدہ نہیں پہنچ سکتا اورشاید اسی لئے ان کے خلاف حالیہ مہم میں ’’کھلاپن‘،‘ ’’آزادی ‘‘ اور ’’بہادری‘‘ کے مظاہرے جا بجادیکھنے میں آرہے ہیں ۔ مضمون کا بنیادی مقصد ارادوں میں نیک نیّتی اور جذبوں میں سچائی کے فقدان کو زیر بحث لاناہے۔ مثال کے طور پر اگر پرویز مشرف بے نظیر کے قتل میں براہ راست ملوث ہیں توان کے خلاف صحیح وقت پر کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟
سال 2008کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی فتح اور پھرپرویز مشرف کے استعفے کے بعداقتدار میں شامل پارٹی رہ نما اِن پرالزامات تو لگاتے رہے لیکن قانون کے تحت سابق صدرکے خلا ف سنجیدہ چارہ جوئی شاید ان کے مینڈیٹ میں شامل ہی نہیںتھی۔ نون لیگ بھی 2013میں اقتدار سنبھالنے سے لیکر جنرل مشرف کے ملک چھوڑجانے تک ان مقدمات میں عملی دلچسپی لینے کے بجائے بھڑکتے بیانات اور طعنوں سے کام چلاتی رہی ! سعد رفیق کے ایک بیان سے واضح تھا کہ ان کی پارٹی بھی جمہوریت کے مقابلے میں زیادہ طاقتور عناصر سے جنگ کرنے کے بجائے ان سے جان چھڑانے میں ہی عافیت سمجھتی ہے ۔
اب یہ بات سمجھ سے بالا ترہے کہ اگر محترمہ کے قتل سے متعلق اِن کے چاہنے والو ں کی معلومات اس قدر پختہ تھیں تواقوام متحدہ کی ٹیم کے ذریعے تحقیقات کرانے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ اگرچہ اِس تحقیقاتی ٹیم کا مینڈیٹ کسی کو مجرم قراد دینے کے بجائے تمام امکانات پر روشنی ڈالنے تک محدود تھا لیکن رپورٹ میں مشرف انتظامیہ پر یہ ذمہ داری ضرور ڈالی گئی کہ محترمہ کو فراہم کردہ سیکورٹی ناکافی تھی ۔اِس میں کوئی شک بھی نہیں کہ مشرف حکومت بہتر اقدامات کے ذریعے بے نظیر بھٹو کو لاحق خطرات کم کرسکتی تھی لیکن اس معاملے میں بہت سے حقائق عموماً زیر بحث نہیں آتے ۔ محترمہ کو ان خطرات سے متعلق پہلے سے آگاہ کیا جاتا رہا لیکن جلسے، جلوسوں اور ریلیوں میں ان کی شرکت انتخابی سرگرمیوں کا لازمی حصہ تھی یعنی خطرے کا عنصراُن دنوں محترمہ کے شب و روز سے منسلک تھا ۔ اٹھارہ اکتوبر 2007کو آٹھ برس کے بعد ان کی تاریخی واپسی پراستقبالیہ ریلی میں خونزیز دھماکے مثال ہیں۔
دھماکوں کے کچھ دیر بعد ا ُس وقت کے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے ایک نیوز چینل پر کہا کہ ملک اور شہر میں جاری دہشت گردی کے تناظر میں محترمہ اور اُن کے قریبی ساتھیوں سے بار ہا درخواست کی گئی تھی کہ ریلی کی طوالت اور اس کا غیر محفوظ روٹ کسی نہ کسی سطح پر خطرے کا باعث بن سکتا ہے لہذا ریلی کے دوران اِن معاملات کو مستقل ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے ۔دھماکوں سے چند گھنٹے قبل دبئی سے محترمہ کے ساتھ سفر کرنے والے ایک صحافی دوست نے یاد دلایا کہ جہاز کراچی ائیر پورٹ پر دوپہرتقریبا ً 1:45منٹ پر اترا لیکن محترمہ کو ائیر پورٹ سے باہر آنے میں خاصا وقت لگا۔ ریلی سے متعلق تفصیلات اور سیکورٹی معاملات پر گفتگو اس تاخیر کی بنیادی وجہ تھی ۔ اس کے بعد گھنٹوں تک شاہ راہ فیصل پر ریلی کا انتہائی سست رفتاری سے آگے بڑھنا یقیناََ حملہ آوروں کے نقطہ نظر سے ایک سازگار صورتحال تھی ۔
یہ سچ ہے کہ مقبول رہ نمائوں کے جلوس ایسے ہی طویل اور پر ہجوم ہو ا کرتے ہیں : 1986میں محترمہ کی وطن واپسی کا منظر بھی زیادہ مختلف نہیں تھا۔ اگر کچھ مختلف تھا تو دہشت گردی کا وہ تسلسل جو 18اکتوبر کے خوفناک حملوں کے بعد 27دسمبر 2007کوآخر کاراِن کی شہادت کا سبب بنا۔ بہتر سیکورٹی کی فراہمی سے قطع نظر حملہ آور ، قتل کا منصوبہ بنانے والے عناصر اور سہولت کاروں کو بھول کر صرف ’’حکمران‘‘ کو ذمہ دار ٹھہرانا میر مرتضی بھٹو کے قتل میں اُس وقت کے’’ حکمران‘‘ کو مورد ِ الزام ٹھہرانے کے مترادف ہے ۔دنیا کو معلوم ہے کہ مرتضی بھٹو کے قتل کے وقت محترمہ خود ملک کی وزیر اعظم تھیں۔
پاکستان کی ا علیٰ عدلیہ میں قابل ذکر ساکھ کے مالک جج جسٹس ناصر اسلم زاہد کی سربراہی میں میر مرتضی بھٹو کے قتل کی تحقیقات پر مامور ٹریبونل نے اپنی رپورٹ میں نشاندہی کی تھی کہ اگرچہ قتل کی سازش کراچی پولیس کی دسترس سے بالا تر کسی سطح پر تیار کی گئی تھی لیکن پولیس اِس سانحے کو رونما ہونے سے روک سکتی تھی ۔ لہٰذا کسی معروف یا غیر معروف شہری کے تحفظ سے متعلق حکمرانوں پرعائد ذمہ داری کے حوالے سے دونوں حادثات کی نوعیت کم و بیش ایک ہے۔
رہی بات جنرل پرویز مشرف پر الزامات کی تو، مبینہ طور پر، ان کا سب سے بڑا اور بنیادی جرم یہ ہے کہ وہ ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹ کراقتدارمیں آئے۔ تین نومبر 2007کو ملک کا آئین معطل کرکے ایمر جنسی نافذ کرنے سمیت دیگر معاملات اس بنیادی جرم سے براہ راست جڑے ہیں۔ تھوڑی سی ہمت، تھوڑی سی سچائی اور تھوڑی سی جدوجہد کے ذریعے ان پر مقدمہ چلا یا جاسکتا تھا! لیکن اگر جنرل مشرف کے استعفے کے بعد بھی دو مواقع پر دو منتخب حکومتوں کے کرتا دھرتا ایسی ہمت، سچائی اور جدوجہد کا مظاہرہ کرنے کے بجائے آج سارا زور ان کی تضحیک اور لعن طعن پر دے رہے ہیں تو یہ صرف نیّت اور ارادوں میں خلل کا مستقل اور واضح اشارہ ہے ۔