اسلام آباد (انصار عباسی) سپریم کورٹ نے حدیبیہ پیپرز ملز کیس میں جنرل (ر) پرویز مشرف کا نام لئے بغیر ایک بار پھر قومی احتساب بیورو (نیب) کو خود اپنے قانون کے بارے میں یاد دلایا جس کے تحت تحقیقات میں رخنہ ڈالنے یا ناکام بنانے والوں کے لئے دس سال قید کی سزا ہے لیکن اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ نیب نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جنہوں نے شریف برادران کو جلاوطن کر کے ساری تحقیقات کو دائو پر لگا دیا۔ یہ بات سپریم کورٹ نے نیب قانون کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے حکم میں کہی۔ جو شخص یا شخصیات (مدعاعلیہ نمبر دو اور نمبر تین) نواز شریف اور شہباز شریف جلاوطن کئے گئے۔ سمجھا جائے گا ان سے مفاہمت کر لی گئی، قانونی عمل کو متاثر کیا یا دائو پر لگایا گیا۔ سپریم کورٹ کا اپنے فیصلے میں کہنا ہے کہ نیب نے ذمہ داران کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ اس کے علاوہ اس کیس پر ایک سابق چیئرمین نیب لیفٹیننٹ جنرل (ر) شاہد عزیز نے اپنی کتاب ’’یہ خاموشی کہاں تک‘‘ میں جنرل (ر) پرویز مشرف کے بارے میں تفصیلی بات کی ہے کہ کس طرح اپنے دور آمریت میں کرپشن کے مختلف بڑے مقدمات کو روکنے کے لئے دبائو ڈالتے رہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نیب کے سابق سربراہان اور نہ ہی موجودہ چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال میں پرویز مشرف کے خلاف کارروائی کی جرات ہوئی، جنہوں نے شکایات ملنے کے باوجود فوجی اراضی ان لوگوں میں بانٹی جو اس کے اہل نہیں تھے تاکہ ان سے فائدے حاصل کر سکیں۔ نیب جس کی تحقیقات کے لئے اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال اور نشان زدہ سیاستدانوں کے پیچھے پڑ جانے کی عادت ہے اس نے پرویز مشرف کی بھاری دولت سے چشم پوشی اختیار کی جب کہ سابق آمر نے خود اعتراف کیا تھا کہ سعودی عرب کے سابق بادشاہ سے انہوں نے رقوم وصول کیں لیکن اس کا ٹیکس گوشواروں میں کہیں ذکر نہیں کیا جب کہ وہ حالیہ برسوں تک پاکستان ہی میں تھے۔ نیب میں ایک سرکاری ذریعہ نے تاخیر ہی سے بتایا کہ پرویز مشرف کے خلاف شکایات پر کوئی کارروائی شروع نہیں کی گئی کیونکہ اس کی وجہ یہ رہی کہ نیب کے قانونی ونگ کے خیال میں نیب کا قانون آئینی اور قانونی پابندیوں کے باعث پرویز مشرف پر لاگو نہیں ہوتا۔ دی نیوز نے اس موضوع پر ایک خبر شائع کی اور ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ جب تک نیب اپنے موجودہ چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کے تحت ادارے کے قانونی ذہن کی متنازع تشریح کا ازسرنو جائزہ نہیں لیتے، پرویز مشرف کے خلاف کوئی تحقیقات نہیں کی جا سکتی۔ کہا جاتا ہے کہ نیب نے ماضی میں پرویز مشرف کے خلاف تمام تحقیقات کو دو وجوہ سے ختم کیا۔ اول یہ کہ آرمی چیف ہوتے ہوئے پرویز مشرف نے سیاستدانوں سمیت سویلین افراد کو جو فوجی اراضی بانٹی، نیب ان کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتی کیونکہ نیب قانون فوج اور عدلیہ جیسے اداروں کی جانب سے کرپشن یا اختیارات کے ناجائز استعمال کا احاطہ نہیں کرتا۔ دوم صدر پاکستان کی حیثیت سے پرویز مشرف کو آئین کے آرٹیکل۔248کے تحت صدارتی استثنیٰ حاصل رہا۔ گو کہ نیب کے قانون میں سرکاری عوامی عہدہ رکھنے والوں کی تعریف میں صدر کا دفتر بھی شامل ہے۔ نیب کے سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ ادارے کے قانونی ماہرین مشرف کے خلاف قانونی کارروائی روکنے کے لئے آرٹیکل۔248 کا حوالہ دیتے رہے ہیں۔ اسی رپورٹ میں ایک اور سرکاری ذریعہ نے یہ بھی الزام لگایا کہ بیورو میں مشرف نواز عناصر قانونی اور آئینی حد بندیوں کے نام پر ان کے خلاف ہر شکایت کا راستہ روکتے رہے۔ ذریعہ کا کہنا ہے کہ صدر کو استثنیٰ اپنے عہدے کی میعاد تک ہوتا ہے۔ نیب قانون وزیراعظم سمیت عوامی عہدے رکھنے والے دیگر عہدیداروں اور صدر و گورنر میں فرق کرتا ہے۔ عوامی عہدہ رکھنے والے کی تعریف میں کہا گیا ہے وہ شخص جو وزیراعظم، چیئرمین سینیٹ یا اسپیکر ہو۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ صدر اور گورنر کے خلاف بربنائے منصب کارروائی نہیں ہو سکتی۔ نیب میں کچھ لوگ موجودہ چیئرمین سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس معاملے پر نظرثانی کرتے ہوئے بلاامتیاز احتساب کو یقینی بنائیں گے لیکن وہ خود اپنے پیشروئوں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں، ان کی توجہ صرف سیاستدانوں کے خلاف کرپشن مہم پر مرکوز ہے۔