• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈیڑھ ماہ قبل اپنے کالم "پاکستان کی خارجہ پالیسی اور کالعدم تنظیمیں"میں کالعدم تنظیموں کے حوالے سے ہوشربا حقائق بیان کئے تھے۔چند شخصیات ریاست پر بوجھ بن جاتی ہیں ،جن کا دفاع کرنا اور نہیں اپنے ملک میں رکھنا ریاستی اداروں کے بس کی بات نہیں رہتی۔اس خاکسار نے نومبر میں شائع ہونے والے کالم میں جو حقائق بیان کئے تھے ،آج قارئین کی یادداشت کے لئے دوبارہ تحریر کررہا ہوں۔"پاکستان اپنا مقدمہ کمزور کررہا ہے۔دنیا پاکستان کی قربانیوں کو بھول رہی ہے۔کالعدم تنظیموں اور دہشت گردوں کی حمایت کرنے کا الزام شدت اختیار کررہا ہے۔پاکستان کی خارجہ پالیسی چند افراد تلے دبتی جارہی ہے۔تلور کی محتاج خارجہ پالیسی اب چند افراد کی محتاج ہوتی جارہی ہے۔پہلے حقانی نیٹ ورک کی حمایت کے الزام نے نئے امریکی صدر ٹرمپ کو ہم سے ناراض کیا ،اب رہی سہی کسر کہیں ایک ،دو کالعدم تنظیموں کے رہنما نہ پوری کردیں؟ پورے ملک کے مستقبل کو چند افراد کی خاطر خطرے میں ڈالا جارہا ہے۔مجھے یاد ہے کہ چند ماہ قبل ہمسایہ ملک چین کے سفیر نے بتایا کہ حافظ مسعود اظہر کے معاملے میں مزید دفاع کرنا ہمارے لئے ممکن نہیں۔اس خاکسار نے ہمسایہ ملک کے سفیر سے پوچھا کہ پھر آپ یہ بات پاکستانی حکام کو کیوں نہیں بتاتے۔چینی سفیر جذباتی ہو کر کہنے لگے کہ پاکستانی وزارت خارجہ کو تحریری طور پر بتایا گیا ہے۔چینی سفیر کی بات سن کر افسوس ہوا کہ ہمارے لوگ مخلص دوستوں کی بات کو بھی سنجیدہ نہیں لیتے۔
ہمسایہ ملک بھارت سے پاکستان کے تنازع کی بنیادی وجہ یہی چند افراد ہیں۔بھارت میں ہونے والے دہشت گردحملوں کا الزام انہی افراد پرلگتا رہا ہے۔مگر کچھ لوگ ان افراد کو اپنا اثاثہ قرار دیتے ہیں۔ہم سے افغان حکومت کے اختلافات کی بنیادی وجہ حقانی نیٹ ورک کےلوگ تھے اور افغانستان الزام عائد کرتا تھا کہ پاکستان تحریک طالبان پاکستان کے خلاف تو کارروائی کرتا ہے مگر حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتا ہے۔پاکستان مسلسل اس الزام کی تردید کرتا رہا مگر چند سال کی مسلسل مہم کے بعد افغان حکام پوری دنیا کو باور کرانے میں کامیاب ہوگئے کہ امریکی فورسز پر حملہ کرنے والے حقانی نیٹ ورک کی محفوظ پناہ گاہیں پاکستان میں موجود ہیں۔پاکستان کے لاکھ انکار کے باوجود دنیا نے پاکستان کا موقف تسلیم نہیں کیا اور ہمیشہ گڈ طالبان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جاتا رہا۔امریکہ کے نئے منتخب ہونے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی افغانستان ،پاکستان کے حوالے سے اپنے پہلے پالیسی بیان میں حقانی نیٹ ورک کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا مطالبہ کیا اوربالآخر حقانی نیٹ ورک کے خلاف بھی کارروائی کی گئی۔دس سال تک ایک موقف پر ڈٹے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا،بلکہ دنیا میں پاکستان کا تاثر متاثر ہوا۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جتنی قربانیاں پاکستان نے دی ہیں ،دنیا کے کسی ملک نے نہیں دیں۔افغانستان کے ویران پہاڑوں پر حملے ہوتے رہے مگر پاکستان کے ہنستے بستے شہر تباہ ہوئے۔اس قوم نے وہ وقت بھی دیکھا ہے کہ جب ایک دن میں کئی کئی خودکش دھماکے ہوتے تھے۔جس دن کوئی دھماکا نہیں ہوتا تھا ،اس دن خبر ہوتی تھی۔مگر ہمارے کمزور موقف اور بغیر کسی ٹھوس دلیل کے چند افراد کی حمایت نے پوری دنیا میں پاکستان کا چہرہ متاثر کیا۔اتنی قربانیوں کے بعد تو پاکستان دنیا کا مظلوم ترین ملک ہوتا اور آج پوری مغربی دنیا کو اپنے اشاروں پر چلا رہا ہوتا مگر چند نامعقول فیصلوں نے تمام قربانیوں پر پانی پھیر دیا۔
پاکستان کو حکمت سے کام لینا چاہئے۔جن چند افراد کو ہم چند سال بعد اپنے آپ سے دور کریں گے،انہیں آج ہی دور کردینا چاہئے۔وگرنہ نتائج بہت خوفناک ہونگے۔کیا ہم ایک یا دو افراد کے لئے ایٹمی جنگ کریں گے ؟ ایسا ہر گز نہیں ہے۔بلکہ ان افراد کا Baggage برداشت کرنا اب پاکستان کے بس کی بات نہیں ہے،بلکہ اب بڑا فیصلہ لیتے ہوئے دنیا کو مثبت پیغام دینا چاہئے۔ایک ایسا فیصلہ جس سے ہمسایہ ملک چین کی نظروں میں بھی آپکی اخلاقی حیثیت مضبوط ہو۔
میں نے تو ان افراد کو دور کرنے کے لئے چند سال کا کہا تھا مگر آج ڈیڑھ ماہ بعد ہی ہمیں ان افراد کو ریاست سے دور کرنا پڑ رہا ہے۔مرید کے سینٹرکو حکومتی تحویل میں لینے کی خبر تمام اخبارات کے صف اول پر شائع ہوئی۔کاش یہ سب کچھ ہم بہت پہلے کرچکے ہوتے۔حافظ مسعود اظہر یا حافظ سعید کی ذات سے کسی کو اختلاف نہیں ہے۔مگر ہم سب کو ریاست سے بہت پیار ہے۔بالا افراد کا موقف درست بھی مان لیا جائے تو کیا ہم ان افراد کے لئے دنیا کو اپنے آپ سے ناراض کرسکتے ہیں؟پاکستان کی معیشت اتنی مضبوط نہیں ہے کہ دنیا سے ٹکر لے کر تنہا چل سکے۔امریکہ یا روس تو دور کی بات ہے ،آج ہمارے اپنے ہمسایوں افغانستان،ایران اور بھارت سے تعلقات سب کے سامنے ہیں۔ہمسائے کبھی تبدیل نہیں ہوسکتے۔یہ جیسے بھی ہو ان سے تعلقات بہتر کرنے چاہئیں۔ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان سے متعلق متعصب رویہ سے انکار ممکن نہیں،مسلمانوں کے شدید خلاف ہے مگر ہم اپنی بہتر پالیسیوں سے اس تعصب کو کم کرسکتے تھے۔نوازشریف کے دنیا بھر کے سربراہان سے ذاتی تعلقات ہیں۔مگر ایسے حساس موقع پر انہیں بھی نکال دیا گیا۔انتہائی ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ اگر نوازشریف موجود ہوتے تو اپنے ذاتی اثر و رسوخ کو استعمال کرکے بھارت ،افغانستان اور سعودی عرب کے ذریعے ٹرمپ کا زہر کم کرسکتے تھے۔آج پھر لکھ رہا ہوں کہ امریکہ کے معاملے میں بالآخر ہمیں دو قدم پیچھے ہٹنا ہوگا۔دنیا بھر کے مستقبل سے کھیلنے والا امریکہ آج ہمیں نشانہ بنا رہا ہے۔
پاکستان کے بہتر مستقبل کے لئے ضروری ہے کہ حالیہ صورتحال کو انا اور ضد کے بجائے دانشمندی سے حل کرنا چاہئے۔پاکستان کا مستقبل دو افراد کا محتاج نہیں ہونا چاہئے۔اس ملک کو ہمارے آباؤ اجداد نے بہت مشکلوں اور آزمائشوں کے بعد حاصل کیا ہے۔متحدہ ہندوستان میں ہم اپنی ریاستیں چھوڑ کر آئے ہیں۔پاکستان کی تاریخ کا دوسرا بڑا لینڈ کلیم آباؤ اجداد کا تھااور بزرگ بتاتے ہیں کہ یہ کلیم متحدہ ہندوستان میں ہماری جائیدادوں کا تیس فیصد بھی نہیں تھا۔نواب لیاقت علی خان نے دادا ابو کو کہا تھا کہ Stop, Enough is Enoughریاست اب مزید دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔مگر ان سب آزمائشوں کے باوجود ہم نے پاکستان آنے کو ترجیح دی۔ہر مادی چیز کے مقابلے میں پاکستان کو چنا،زر،زمین اور زن کی قربانیاں تاریخ کا حصہ ہیں۔مگر پاکستان کا معاملہ آیا تو ہم نے صرف اس مٹی کے بہتر مستقبل کو چنا۔آج ان افراد کی بھی ذمہ داری ہے کہ ریاست کے پیچھے کھڑے ہوکر ریاستی اداروں کی مشکلات کم کریں،وگرنہ میں بہت آزمائشی وقت دیکھ رہا ہوں۔
نوٹ۔ کالم نگار کی اس رائے سے بہت سے لوگوں کو اختلاف ہو سکتا ہے۔ اگر اس حوالے سے کوئی رائے زنی کرنا چاہے تو ادارتی صفحات حاضر ہیں۔ (ادارہ).

تازہ ترین