اسلام آباد( طاہر خلیل) ماہرین عمرانیات کا اتفاق ہے کہ امن و امان کا قیام اور لوگوں کی جان و مال کا تحفظ کسی بھی ریاست کی اولین ذمے داری ہے۔ امن و امان کی کسی معاشرے میں کتنی اہمیت ہوتی ہے اس کا اندازہ اس تاریخی واقعے سے کیا جاسکتا ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں بیان کیاگیا جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ کی تعمیر کا فیصلہ کیا تو انہوں نے دعا کی جو قرآن مجید میں مذکور ہے کہ’’ اے اللہ اس شہر کو شہر امن بنا دے‘‘ ریاست میں شہری آزادیاں اسی وقت ممکن ہوسکتی ہیں جب لا اینڈ آرڈر بہتر ہوگا۔ دہشت گردی اور بدامنی نے حالیہ برسوں میں پوری دنیا میں پاکستان کا تشخص بدل کر رکھ دیا تھا اور دوبرس پہلے سانحہ قصور کی وجہ سے جس میں بچوں کے ساتھ جنسی زندگی کے واقعات نے عالمی میڈیا نے ہمارے معاشرے کی ایسی بھیانک تصویر پیش کی کہ بچوں کےصحت و تحفظ سے متعلق عالمی ادارے متحرک ہوگئے تھے۔اب قصور میں اغوا اور زیادتی کے بعد قتل کی گئی7 سالہ بچی زینب کے واقعہ نے پوری قوم کو مضمحل اور افسردہ کردیا ہے۔ اس کیس نے ایک بارپھر پاکستان کےتشخص پر کاری وار کیا ہے ،بچوں کے ساتھ زیادتی کے یہ خوفناک واقعات 20 کروڑ آبادی کے ایک ایسے ملک میں رونما ہورہے ہیں ۔جہاں مسلمان بڑی اکثریت میں ہیں ایسے واقعات سے دنیا کو یہ منفی پیغام گیا کہ یہاں بچے غیر محفوظ ہیں اور ایک حلقے کا یہ تاثر ہے کہ ہمارےملک میں جہاں جمہوریت ابھی نوخیز ہے،بچوں کے ساتھ درندگی کے پے درپے کیسز کے پس پردہ سیاسی مضمرات بھی ہوسکتے ہیں۔ اس حوالے سے بھی جے آئی ٹی کو معاملے کے حقائق کی کھوج لگانی چاہیے۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں اعداد و شمار کے مطابق پانچ برس میں کم و بیش 14 ہزار ایسے واقعات پیش آئے جن میں بچوں سے زیادتی ہوئی تھی ان رپورٹ ہونے والے کیسوں میں 70 فیصد ایسے تھے جن میں زیادتی کا شکار بچیاں ہوئیں۔ دہشت گردی صرف بم دھماکوں یا خودکش حملوں کانام نہیں بلکہ لوگوں کی عزت و ابرو پر حملہ آور ہونا بھی دہشت گردی ہے ،قصور گزشتہ ایک عشرے سے ایسے سنگین واقعات کا اماجگاہ بنا ہوا ہے۔بی بی سی کی ایک رپورٹ کئی پہلوئوں سے قابل توجہ ہی نہیں چشم کشا بھی ہے کہ پاکستان میں روزانہ 11 بچے جنسی زیادتی کا شکار بنتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار پاکستان میں بچوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والےایک غیر سرکاری ادارےساحل نے جاری کئے ۔