• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنرل پرویز مشرف سے ایک ملاقات...قاضی حسین احمد

میں وزیراعظم ہاؤس کے اسی میٹنگ روم میں اکیلا بیٹھا ہوا چیف آف آرمی اسٹاف اور ان دنوں چیف ایگزیکٹو پرویز مشرف کی آمد کا منتظر تھا جس میٹنگ روم میں اس سے قبل میں نے یہاں میاں نواز شریف کے ساتھ طویل ملاقاتیں کی تھیں۔ اس کمرے کے باہر کا دل کو لبھانے والا منظر میاں نواز شریف کا دلپسند منظر تھا۔ باہر لان میں خوبصورت پھول سلیقے سے اُگائے گئے تھے اور دور مارگلہ کی ہری بھری پہاڑیوں کا دلکش منظر آنکھوں کی ٹھنڈک کا باعث تھا۔ میرے دل میں آیا کہ پرویز مشرف کے ساتھ گفتگو کاآغاز میں قرآن کریم کے ان الفاظ سے کروں ”کتنے ہی باغ اور چشمے اور کھیت اور شاندار محل تھے جو وہ چھوڑ گئے ۔ کتنے ہی عیش کے سروسامان جن میں وہ مزے کررہے تھے ان کے پیچھے دھرے رہ گئے یہ ہوا ان کا انجام اور ہم نے دوسروں کو ان مزوں کا وارث بنادیا ۔ پھر نہ آسمان رویا نہ زمین اور ذرا سی مہلت بھی ان کو نہ دی گئی “۔(۴۴:۲۵تا۲۹)
میں نے ان کو کہا بھی کہ میں آپ سے پہلے میاں نواز شریف کے ساتھ اس کمرے میں طویل بیٹھک کرچکا ہوں ۔ یہ بہت عارضی جگہ ہے جس طرح وہ اسے چھوڑ گئے ہیں آپ نے بھی ایک دن ان کو چھوڑناہے لیکن یا تو وہ میرا مطلب سمجھے نہیں تھے یا شاید ان کے کان کسی نصیحت سننے والے کی نصیحت سننے کے لئے آمادہ نہیں تھے۔ انہوں نے بات سنی ان سنی کردی اور ہماری گفتگو آگے بڑھ گئی۔ یہ جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء کا ابتدائی دور تھا۔ ان کی ٹیم کے افراد جو جنرل احسان الحق اور جنرل جاوید پر مشتمل تھی مجھے یہ کہہ کر ملاقات کیلئے لائے تھے کہ جو بات میں ان سے کر رہا ہوں وہ بات خود جنرل پرویز مشرف کو براہ راست کہہ دوں۔ میں ان سے مسلسل یہ بات کر رہا تھا کہ فوجی اقتدار کو طول دینے کی بجائے وہ جلد از جلد اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے کردیں۔ یہ ملک کے لئے بھی بہتر ہے اور ان کی نیک نامی کا بھی باعث ہوگا۔ اس طرح کرنے سے وہ پاکستان کی بہتر خدمت کریں گے اور پاکستانی تاریخ میں ایک اچھا نام چھوڑ جائیں گے۔ اس سے قبل بھی مولانا شاہ احمد نورانی کی قیادت میں ہم ایم ایم اے کے ایک وفد کے طور پر آئے تھے اور ہم سب کی طرف سے مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم نے ایک یادداشت ان کے سامنے پڑھ کر سنائی تھی جس میں ہم نے انہیں ایل ایف او (Legal Framework Order)سے عدم اتفاق کرتے ہوئے اپنی تجاویز ان کے سامنے رکھی تھیں۔ اس کے باوجود انہوں نے اسی ایل ایف او کے تحت انتخابات کروائے اور اس کے بعد جب ان کی ٹیم کے ساتھ مذاکرات کے دوران ہم نے ان سے فوجی عہدہ ترک کرنے کا مطالبہ کیا تو ان کی ٹیم نے کہا کہ تم خود ان سے مل کر بات کرو ۔ملاقات کے لئے ابتدائی وقت ایک گھنٹہ طے ہواتھا لیکن یہ ملاقات ڈھائی گھنٹے تک چلتی رہی اور کئی موضوعات پر بات ہوئی ۔ میں نے جب یہ کہا کہ آپ نے فوجی افسران کو ہاؤسنگ اسکیموں اور پلاٹوں کے انعامات کے ذریعے کروڑ پتی بلکہ بعض صورتوں میں ارب پتی بنا کر فوج کی خدمت نہیں کی تو انہوں نے کہا کہ فوج میں اوسط صلاحیت کے (Mediocre)افسران تو میجر کی سطح پر پہنچ کر ریٹائرہوجاتے ہیں اور جو افسر جوہر قابل رکھتے ہیں وہ آگے بڑھتے ہیں اور ساتھ ساتھ ہم انہیں آگے بڑھنے کی ترغیب (Incentive)دیتے رہتے ہیں۔ میں نے عرض کی کہ ہمارے نوجوانوں کی سب سے بڑی ترغیب تو شہادت کی موت اور اللہ کے راستے میں جہاد ہے اور جہاد پر جاتے ہوئے ان میں سے اکثر کو زندہ واپس آنے کی توقع نہیں ہوتی شہادت ان کی آرزو رہتی ہے تو انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا اور فوراً کہنے لگے کہ میرے والد صاحب بھی سوشلسٹ تھے اور میں بھی دو کمروں میں رہنے کے لئے تیار ہوں ۔ میں نے عرض کی کہ ہم آپ سے دو کمروں میں رہنے کا مطالبہ نہیں کرتے ،ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ اپنے افسران کو جائز آمدنی میں قناعت کے ساتھ رہنے کا درس دیں اور خود اس کی مثال پیش کریں۔ پھر موضوع تبدیل کرکے انہوں نے اپنی پکی مسلمانیت اور اسلام دوستی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے کہاکہ میں ایف سی کالج لاہور کا طالب علم تھا وہاں ایک چرچ بھی تھا میں نے ایک رات غلیل لی اور چرچ کے شیشے کا نشانہ باندھ کر چرچ کا شیشہ توڑ دیا۔ میں نے کہا کہ میں نے تو کبھی نہ کسی کی عبادت گاہ کو توڑنے کی کوشش کی ہے نہ ہمیں اسلامی تعلیمات کے مطابق یہ کرنا چاہئے۔ ہم آپ سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ سے اسلام جو مطالبہ کرتا ہے آپ ان پر پورا اترنے کی کوشش کریں اور اگر آپ اقتدار بغیر کسی پس و پیش کے منتخب نمائندوں کے سپرد کردیں گے اور اپنی مرضی کے بزعم خود اصلاحات پر اصرار نہیں کریں گے تو آپ پاکستان کی تاریخ میں ایک اچھا نام چھوڑ جائیں گے۔
ڈھائی گھنٹے کی گفتگو میں ظاہر ہے کہ بہت سے دوسرے موضوعات پر بھی بات ہوئی ہوگی آخر میں وہ کہنے لگے کہ میرا اور آپ کا مدعا تو ایک ہی ہے لیکن اس تک پہنچنے کے راستے الگ الگ ہیں اور یوں یہ ملاقات اگرچہ نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئی لیکن خوشگوار ماحول میں اختتام پذیر ہوئی۔ جنرل احسان الحق ایک سنجیدہ اور ہوشیار جنرل ہیں انہوں نے بھانپ لیا کہ جنرل پرویز مشرف نے جو الٹی سیدھی باتیں کی ہیں ان سے میں نے اچھا تاثر نہیں لیا ہوگا اس لئے میٹنگ کے اختتام پر باہر نکلتے ہوئے انہوں نے دبی آواز میں خواہش ظاہر کی کہ میں پریس میں اس کاذکر نہ کروں۔ اس ملاقات کو اب دس سال سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے ۔ پرویز مشرف اس ملاقات سے نہ جانے کیوں مطمئن تھے کیونکہ مجھے فوج ہی کے ایک ذمہ دار افسر کی زبانی یہ روایت ملی ہے کہ ملاقات کے بعد انہوں نے جنرل عزیز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا”مولوی تم نے ہماری ملاقات نہیں کرائی ہماری قاضی صاحب سے بہت اچھی ملاقات رہی “دروغ برگردن راوی ۔ لیکن مجھے اس وقت حیرت ہوئی جب ایک پاکستانی صحافی نے حال ہی میں ان سے میرے بارے میں رائے پوچھی تو جنرل پرویز مشرف نے فرمایا کہ میں ان سے نہیں ملا حالانکہ کئی بالمشافہ ملاقاتوں اور مشترکہ تصاویر کے علاوہ غائبانہ بھی مسلسل تقاریر میں ان سے میں فوجی عہدہ چھوڑنے کا مطالبہ کرتا رہا اور یہ مطالبہ اس حد تک آگے بڑھا کہ اخبارات میں کارٹون بھی چھپے کہ میں ان کی وردی کھینچ رہا ہوں اور وہ اس سے چمٹے ہوئے ہیں اور یادش بخیر ہمارے دوست مولانا محمد خان شیرانی نے کہا کہ اگر یہ وردی پرویز مشرف کے بعد قاضی حسین احمد نے پہننی ہے تو ہم مل کر ان سے اتارکر قاضی صاحب کو پہنا دیتے ہیں اور اگر یہ انہی کی طرح کے ایک اور جنرل نے پہننی ہے تو اس سے بہتر ہے کہ یہی پہنے رہیں اور ہم ان کے ساتھ مفاہمت کرکے ان سے اپنا کوئی کام نکال لیں۔ اتنے تعلق کے باوجود اگر انہوں نے کہا کہ وہ مجھے نہیں جانتے تو میرا یہ حسن ظن ہے کہ وہ میرے خلاف کوئی منفی ریمارکس دینے سے گریز کرنا چاہتے ہیں جس پر میں ان کا شکرگزار ہوں لیکن اگر وہ میری بات مان لیتے تو اچھا نام چھوڑتے اور ملک بھی آج ان خطرات میں گھرا ہوا نہ ہوتا جن میں امریکہ کے سامنے ان کے بچھ جانے کی وجہ سے گھرا ہوا ہے۔اگرچہ آج بھی انہیں اصرار ہے کہ انہوں نے امریکی انتقام کا نشانہ بننے سے بچنے کیلئے درست پالیسی اختیار کی۔
جن دنوں وہ برسراقتدار آئے تھے تو میں ہوائی جہاز میں محترمہ عابدہ حسین کے ساتھ ہمسفر تھا انہوں نے بتایا کہ جاوید جبار میرے پاس آئے اور انہوں نے بتایا کہ پرویز مشرف میرا دوست ہے ،انہوں نے مجھے بلایا ہے ۔ آپ بتائیں کہ میں انہیں کیا مشورہ دوں ،انہوں نے جاویدجبار سے کہا کہ آپ پرویز مشرف سے کہیں کہ آپ نے ایک دن اس فوجی اقتدار کو چھوڑنا بھی ہے آپ ذہن میں یہ فیصلہ کرلیں کہ آپ نے ایوب خان کی طرح چھوڑنا ہے یا یحییٰ خان یا ضیاء الحق کی طرح۔ جاوید جبار نے انہیں بتایا کہ میں یہ کہوں گا تو خدشہ ہے کہ ہماری دوستی برقرار نہیں رہ سکے گی تو بیگم صاحبہ نے اسے بتایا کہ پھر تو آپ کوئی مفید مشورہ نہیں دے سکیں گے ۔ میرے بہت سارے دوست پرویز مشرف کی مارشل لاء کے بعد اس توقع پر بیٹھے تھے کہ انہیں کوئی اہم ذمہ داری ملنے والی ہے بلکہ ایک سابق جرنیل دوست نے تو مجھ سے مشورہ بھی لیا کہ اگر وہ مجھے اپنی مرضی کی ذمہ داری لینے کی پیشکش کریں تو مجھے کونسی ذمہ داری کا انتخاب کرنا چاہئے۔ میں نے جب ان سے کہا کہ آپ کو وہ ہم سے بھی جدا کر دیں گے اور آپ ان کے ساتھ چل بھی نہیں سکیں گے تو انہوں نے کہا کہ میں آپ کی رفاقت چھوڑنے کی بجائے ذمہ داری چھوڑ کر واپس آجاؤں گا۔ میرے اس دوست کو کچھ دنوں بعد بڑی مایوسی ہوئی جب انہیں ملاقات کے لئے وقت بھی نہیں ملا۔ ہمارے ملک کا المیہ یہی ہے کہ اقتدار چاہے کتنے ہی غلط راستے سے حاصل ہو دوسرے لوگ صاحبان اقتدار کو اچھا مشورہ دینے کی بجائے اس کے ساتھ اس ناجائز اقتدار میں شریک ہونے کے لئے بے چین ہوجاتے ہیں۔
تازہ ترین