• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سابق صدر پرویز مشرف کے ایک قریبی ساتھی احمد رضا قصوری بعض اوقات بڑے ہی معصومانہ انداز میں حیران کن باتیں کردیتے ہیں۔ اگلے روز انہوں نے بڑے ہی معصومانہ انداز میں ایک ایسی فرمائش کردی کہ میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔کہنے لگے کہ آپ جانتے ہیں کہ مشرف صاحب 23مارچ 2012ء کو وطن واپس آ رہے ہیں؟ میں نے جواب میں کہا کہ جی ہاں سنا تو یہی ہے کہ وہ واپس آنا چاہتے ہیں۔ کہنے لگے کہ وہ ضرور واپس آئیں گے ہم ان کے فقید المثال استقبال کی تیاریوں میں مصروف ہیں ہم یہ چاہتے ہیں کہ جس ہوائی جہاز میں وہ وطن واپس آئیں اس ہوائی جہاز میں آپ بھی ان کے ساتھ ہوں۔ یہ سن کر چند لمحوں کیلئے مجھ پر سکوت طاری ہوگیا پھر میں نے بڑے ادب سے محترم قصوری صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ جناب والا! پرویز مشرف صاحب نے تو اس بندہٴ ناچیز کو ملک دشمن قرار دے کر ان چند صحافیوں کی فہرست میں ڈال دیا تھا جن کا ٹی وی پر آنا ممنوع ہوگیا تھا لہٰذا مجھے آپ مشرف کے ہوائی جہاز میں کیوں بٹھانا چاہتے ہیں؟ قصوری صاحب نے کہا کہ چھوڑیئے پرانی باتوں کو ہمارا آپس میں صلاح مشورہ ہوچکا ہے۔ ہماری آپ سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے۔ مشرف دور میں جن صحافیوں پر پابندی لگی تھی ان میں سے بعض مشرف صاحب کو مل چکے ہیں اور ان کا انٹرویو بھی کرچکے ہیں۔ ویسے بھی مشرف صاحب نے اعتراف کرلیا ہے کہ میڈیا پر پابندیاں لگانا ایک غلطی تھی۔ انسان غلطیاں کرتے رہتے ہیں اور اپنی غلطیوں سے سیکھتے رہتے ہیں جیسے ہی مشرف صاحب لندن سے دبئی آئیں گے میں آپ کو ساتھ لے کر جاؤں گا اور مل بیٹھ کر سب گلے شکوے دور کریں گے آج پاکستان جس تباہ کن صورتحال کا شکار ہے اس صورتحال میں ذاتی اختلافات کو بھلا کر متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ قصوری صاحب نے ایک لمبی تقریر کی اور اس کے بعد اپنے موبائل فون پر سرگودھا، میانوالی اور بھکر سے بسوں کی بکنگ کرنے لگے۔ اس ایڈوانس بکنگ کا مطلب یہ تھا کہ وہ پرویز مشرف کو کراچی نہیں بلکہ لاہور یا اسلام آباد کے ایئر پورٹ پر اتارنا چاہتے ہیں۔
قصوری صاحب کی باتیں سن کر مجھے آرمی ہاؤس راولپنڈی میں پرویز مشرف کے ساتھ اپنی آخری ملاقات یاد آگئی۔ جون2007ء میں ہونے والی اس ملاقات کے دوران موصوف نے مجھ سمیت کچھ دیگر ٹی وی اینکرز سے کہا تھا کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ معذول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نہیں بلکہ لال مسجد ہے، میڈیا والے لال مسجد پر توجہ دیں۔ مشرف حکومت نے وکلاء تحریک سے توجہ ہٹانے کیلئے لال مسجد کے تنازعے کو حل نہیں کیا تھا اور آخر کار مسجد پر بمباری شروع کردی۔ جب میڈیا نے بمباری میں مارے جانے والے بچے بچیوں کی اصل تعداد کے بارے میں سوالات اٹھائے تو میڈیا کو دہشت گردوں کا ساتھی قرار دے کر پابندیوں کا شکار کردیا گیا۔ پرویز مشرف نے محض اپنے ذاتی اقتدار کو بچانے کیلئے پہلے چیف جسٹس آف پاکستان کے ساتھ زیادتی کی، پھر لال مسجد میں بے گناہوں کا خون بہایا، پھر این آر او پر دستخط کئے، پھر آئین توڑ دیا اور آئین توڑ کر ججوں کو نظر انداز کردیا گیا، میڈیا پر پابندیاں لگا دیں اور انتخابات میں دھاندلی کا منصوبہ بھی تیار کرلیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے انتخابی دھاندلیوں پر شور مچایا تو انہیں لیاقت باغ راولپنڈی میں شہید کردیا گیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت پرویز مشرف کے زوال کا آغاز تھا۔ اب قصوری صاحب کہتے ہیں کہ پرانی باتوں کو بھول جاؤ اور مشرف صاحب نے ایک انٹرویو میں کہہ دیا کہ وہ متحدہ قومی موومنٹ اور تحریک انصاف کے ساتھ مل کر انقلاب لانا چاہتے ہیں۔ ایم کیو ایم ابھی تک 12مئی2007ء کے سانحے کو بھگت رہی ہے۔ 12مئی کو کراچی میں قتل و غارت کا منصوبہ مشرف کے منظور نظر فوجی افسران نے تیار کیا تھا اور ایم کیو ایم کا کندھا استعمال کیا گیا ایم کیو ایم کو بعد میں سمجھ آئی کہ اس کے ساتھ تو ہاتھ کردیا گیا۔ اب مشرف صاحب ایک دفعہ پھر ایم کیو ایم کا کندھا استعمال کرنا چاہتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ عمران خان بھی ان کے ساتھ ہوں۔
مشرف صاحب کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ ہم جانتے ہیں سابق صدر کو پاکستان واپسی پر ایئر پورٹ سے گرفتار کرلیا جائے گا۔ مشرف صاحب جیل جانے کے لئے پاکستان واپس آرہے ہیں لیکن وہ جیل میں زیادہ عرصہ نہیں رہیں گے۔ ہم نے پوچھا کہ وہ کیسے؟ جواب ملا کہ بے نظیر قتل کیس میں ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے انہیں صرف اور صرف 31جولائی 2009ء کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں گرفتار کیا جاسکتا ہے جس کیلئے ضروری ہوگا کہ ان پر آئین کی دفعہ 6 کے تحت غداری کا مقدمہ چلایا جائے لیکن ایسی صورت میں مشرف صاحب عدالت کو بتائیں گے کہ انہوں نے اکیلے آئین نہیں توڑا بلکہ 3نومبر2007ء کو آئین توڑنے کے فیصلے میں موجودہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی سمیت متعدد حاضر سروس فوجی افسران شامل تھے۔ مشرف صاحب کو یقین ہے کہ حکومت ان کے خلاف غداری کا مقدمہ نہیں چلائے گی اور مشرف صاحب چند ماہ کے بعد رہا ہو کر ہیرو بن جائیں گے۔ پرویز مشرف کے ساتھیوں سے پوچھا جاتا ہے کہ اکبر بگٹی کے مقدمہ قتل کا کیا بنے گا؟ جواب ملتا ہے کہ اس میں بھی دیگر فوجی افسران شامل تھے لہٰذا اس مقدمے کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ دوسرے الفاظ میں پرویز مشرف پاکستان واپس آ کر ایک طرف تو جنرل اشفاق پرویز کیانی کو متنازع بنائیں گے، دوسری طرف اعلیٰ عدالتوں کو بے اختیار ثابت کریں گے اور تیسری طرف بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کو یہ کہنے کا موقع دیں گے کہ اگر پاکستان کا آئین توڑنا کوئی جرم نہیں تو پھر پاکستان توڑنا بھی کوئی جرم نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پرویز مشرف کس کی آشیر باد سے پاکستان واپس آ رہے ہیں؟ ان کی واپسی کا فائدہ کسے اور نقصان کسے ہوگا؟
میں ذاتی طور پر پرویز مشرف کی واپسی کے حق میں ہوں۔ ان کی واپسی پاکستان کی جمہوریت پسند سیاسی جماعتوں، پارلیمینٹ، عدلیہ، سول سوسائٹی اور میڈیا کا ایک امتحان ہوگا۔ ہم دیکھیں گے کہ وہ روشن خیال حلقے جو طالبان کو آئین اور قانون کا دشمن قرار دیتے ہیں ایک آئین شکن ڈکٹیٹر پر غداری کا مقدمہ چلانے کی حمایت کرتے ہیں یا اس کے سامنے بھیگی بلی بن کر امریکہ کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟ ہم دیکھیں گے کہ وہ غیرت مند علماء جو ہر دوسرے دن سڑکوں پر نکل کر امریکی پرچم نذر آتش کرتے ہیں اور افواج پاکستان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں وہ افواج پاکستان کے نام پر پاکستان میں امریکہ کو اڈے فراہم کرنے والے شخص کے بارے میں بھی کچھ بولیں گے یا چپ رہیں گے؟ ہم دیکھیں گے کہ پاکستانی میڈیا پر تاریخ کی بد ترین پابندیاں لگانے والا شخص جب پاکستان واپس آئے گا تو میڈیا اسے اس کے ناقابل معافی قومی جرائم یاد دلائے گا یا ہمارے اینکر ساتھی دبئی کے ایک ریٹرن ٹکٹ اور چند ہزار ڈالرز کی شاپنگ کے عوض خاموشی اختیار کرلیں گے؟

تازہ ترین