قصور سے تعلق رکھنے والی سات سالہ بچی، زینب کا انتہائی وحشیانہ اور بہیمانہ قتل اس وقت پورے قومی افق، بالخصوص پنجاب پر چھایا ہوا ہے۔ اس قتل نے ہر حساس پاکستانی کا دل خون کر دیا ہے۔ اس واقعہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اسکے ساتھ ہی مشتعل مظاہرین کی توڑ پھوڑ، پر تشدد مظاہروں اور پولیس کی فائرنگ سے تین افراد کا جاں بحق ہونا، اس سانحے کی شدت کو مزید بڑھا گیا۔ بلا شبہ اس طرح کے المیے جذبات کو بھڑکا دیتے ہیں اور رد عمل کو صبر و تحمل کے کناروں کے اندر رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن معاشرے کے سنجیدہ طبقوں، با شعور شہریوں اور بالخصوص میڈیا کو ایسا متوازن رویہ اپنانا چاہیے کہ کسی سانحے کی کوکھ سے مزید سانحے نہ جنم لینے لگیں۔ بچی سے زیادتی اور اسکے قتل کے ساتھ ساتھ پولیس کا رویہ، والدین کی ذمہ داریاں، معاشرے کا کردار، عدل و قانون کے تقاضے، مظاہرین کا رد عمل اوربہت سے دیگر سوالات بھی زیر بحث آرہے ہیں۔ دنیا بھر میںاس طرح کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔مغرب کے ترقی یافتہ ممالک میں تو ایسے انسانیت سوز واقعات کی شرح بہت ذیادہ ہے۔ لیکن وہاں اس طرح امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے نہ ہڑتالیں کی جاتی ہیں۔ نہ جلائو گھیرائو ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی سانحہ ، کئی سانحوں کا سبب بن جاتا ہے۔ البتہ قانون ضرور حرکت میں آتا ہے۔پولیس پوری مستعدی سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرتی ہے اور معاشرہ ہو یا میڈیا، اپنی پوری طاقت کے ساتھ قانون کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ وہاں انصاف کا عمل بھی تیز رفتار ہوتا ہے اور مجرم نہایت مختصر عرصے میں اپنے جرم کی سزا پا جاتا ہے۔
ہمارے ہاں بھی اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ قانون پوری طاقت سے حرکت میں آئے اور مجرم کو کسی تاخیر کے بغیر کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ اس طرح کے وحشیانہ جرم کا ارتکاب کرنے والے شخص کو ایسی عبرت ناک سزا ملنی چاہئے کہ ایک مثال قرار پائے۔ جرم سے نفرت اور مجرم کو نمونہ عبرت بنانے پر معاشرے کا اتفاق رائے اچھی علامت ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں ایک افسوس ناک روایت یہ بھی ہے کہ ہر مسئلے پر سیاست چمکانے کا کھیل شروع ہو جاتا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے ختم نبوت جیسے معاملے کی حساسیت کا خیال بھی نہیں رکھا جاتا۔ زینب کے المیے کو بھی سیاست کی نذر کیا جا رہا ہے۔ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ کچھ لوگوں کو المیے کا درد کم ہے اور اس المیے سے اپنے سیاسی مفادات نچوڑنے کی فکر زیادہ ہے۔ جو بھی ہے، پنجاب حکومت پر لازم ہے کہ وہ اس المناک واقعہ کو ایک چیلنج کے طور پر لے۔ نہ صرف درندہ صفت قاتل کو گرفتار کر کے جلد سے جلد کڑی سزا دلوائی جائے بلکہ آئندہ کیلئے ایسے واقعات کے سد باب کا بھی بھر پور انتظام کیا جائے۔
جس روز یہ سانحہ پیش آیا ، اس سے صرف ایک روز قبل چکوال کے حلقہ پی ۔پی 20 کے ضمنی انتخابات بھی ہوئے۔ یہ سیٹ مسلم لیگ (ن) کے چوہدری لیاقت علی کی وفات سے خالی ہوئی تھی۔ حکومت کی مدت اقتدار ختم ہونے سے صرف چار ماہ قبل صوبائی اسمبلی کی نشست کا الیکشن بظاہر بڑا غیر اہم سا لگتا ہے لیکن ملک کی موجودہ فضا اور حالات و واقعات نے اسے انتہائی اہم بنا دیا ۔ میڈیا اور سیاسی مبصرین بڑی توجہ سے جائزہ لے رہے تھے کہ عوامی رائے کا کیا رجحان سامنے آتا ہے۔ اس سوال کی اہمیت اس لئے بڑھ گئی تھی کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت سے علیحدگی، عدالت کی طرف سے انکی نااہلی، نیب کی طرف سے دائر ریفرنسوں پر کارروائی، اپوزیشن بالخصوص عمران خان کی طرف سے الزامات، میڈیا کے ایک حلقے کی طرف سے کردار کشی کی تند و تیز مہم اور پارٹی پر پڑنے والے دباو سے اندازہ یہ تھا اب حلقے میں مسلم لیگ (ن) کمزور پڑ گئی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ ان عوامل کی وجہ سے نواز شریف کی مقبولیت وہ نہیں رہی، جو کچھ عرصہ پہلے تک تھی۔ ان سیاسی قیاس آرائیوں کا ایک زاویہ یہ بھی تھا کہ عمران خان کے ہاتھوں نواز شریف کی نا اہلیت نے عمران خان کو بہت مضبوط کر دیا ہے۔ اسکے ساتھ ہی حنیف عباسی کی درخواست کا خارج ہوجانا اور عمران خا ن کا " صادق و امین" قرار پانا بھی پی ٹی آئی کے فائدے میں گیا ہے اور اسکی سیاسی قوت کئی گنا بڑھ گئی ہے۔
لیکن چکوال الیکشن کے نتائج سے ابھرنے والی تصویر نے ان مبصرین کے اندازوں پر پانی پھیر دیا۔ مسلم لیگ(ن) کے امیدوار سلطان حیدر علی خان نے 75934 ووٹ لے کر، تقریبا تیس ہزار ووٹوں کی برتری سے پی ٹی آئی کو شکست دی۔ 2013 کے انتخابات میں سلطان حیدر علی کے والد ، لیاقت علی نے، 62088 ووٹ لیے تھے ، حالانکہ اس وقت پولنگ کی شرح 62.48 فیصد رہی تھی ۔ جبکہ ضمنی الیکشن میں یہ شرح 12 فیصد کم یعنی 50.49 فیصد رہی۔ 2013 میں 156446 (ایک لاکھ چھپن ہزار چار سو چھیالیس) ووٹ پول ہوئے تھے، جبکہ 9 جنوری کے ضمنی انتخاب میں تقریبا سترہ ہزار ووٹ کم پول ہوئے یعنی 139308 ۔ اسکے باوجود مسلم لیگ (ن) کے ووٹوں میں تیرہ ہزار کا اضافہ ایک مختلف کہانی سنا رہا ہے۔ ان نتائج کا جائزہ لیتے ہوئے، یہ آسانی سے کہا جا سکتا ہے کہ نواز شریف کی نااہلی اور ہر طرح کے منفی پروپیگنڈے اور کرپشن کے پروپیگنڈے کے باوجود مسلم لیگ(ن) وہیں کی وہیں موجود ہے۔ بلکہ اسکے ووٹ بنک میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری بات " لبیک پارٹی" کے بارے میں ہے جس نے ان انتخابات میں سولہ ہزار سے زائد ووٹ تو لے لیے ، لیکن اندازہ اب یہ لگایا جا رہا ہے کہ اس نے مسلم لیگ (ن) لیگ کو کوئی زک نہیں پہنچائی۔ مبصرین اس بات کو بھی اہمیت سے رہے ہیں کہ چکوال جو فوجی جانبازوں کا گھر سمجھا جاتا ہے ، مسلم لیگ(ن) کا قلعہ ثابت ہوا۔ جسکا مطلب یہ ہے کہ کم از کم فوجی گھرانوں اورمسلم لیگ (ن) کے درمیان نہ تو کوئی خلیج ہے نہ دوری۔اگر چکوال کے انتخابات واقعی ایک کسوٹی یا پیمانہ ہیں تو دو ماہ قبل آنے والے رائے عامہ کے جائزے کی اہمیت بھی بڑھ جاتی ہے ، جس کے اعداد و شمار کم و بیش یہی تصویر پیش کر رہے تھے۔ اس سے یقیناََ نواز شریف کو حوصلہ ملے گا اور انکے مخالفین کو تشویش ہو گی۔
اسی دوران بلوچستان میں وزیر اعلیٰ ثنا اللہ زہری کا تختہ الٹ دیا گیا۔ اچھی بات یہ ہوئی کہ زہری صاحب نے اپنی شکست کو بھانپتے ہوئے استعفیٰ دے دیا۔ اور یوں ایک بڑا فساد ٹل گیا۔ اگر بلوچستان اسمبلی نیا قائد ایوان چن کر اگلے چار ماہ کیلئے زندہ رہتی ہے تو یہ جمہوریت کیلئے نیک شگون ہو گا۔ اور امکانی طور پر سینیٹ کے انتخابات بھی وقت پر ہو سکیں گے۔ اپوزیشن کیلئے یہ صورتحال زیادہ اچھی نہیں۔ پیپلز پارٹی چکوال کے الیکشن میں کہیں نظر نہیں آئی۔ 2013کے انتخابات میں بھی اسکے امیدوار نے صرف آٹھ ہزار ووٹ لیے تھے۔ لہٰذا اب وہ کم از کم پنجاب کی حد تک انتخاب سے زیادہ انتشار میں دلچسپی رکھتی ہے۔ کچھ یہی حال عمران خان کا ہے۔ جنہیں ایک بار پھر اپنی ہار نظر آنے لگی ہے۔ یہ ہے وہ صورتحال ، جس نے طاہر القادری کی دکان کی رونق بڑھا دی ہے۔ وہ خود الیکشن نہیں لڑ سکتے، کیونکہ کینیڈا کے شہری ہیں، لیکن تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی جیسی جماعتیں انکے قدموں میں جا بیٹھی ہیں۔ کیا اسے بھی مسلم لیگ (ن) کا کرشمہ سمجھا جائے ؟.