امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے جس دن سے جماعت اسلامی کی قیادت سنبھالی ہے، انہوں نے بڑی ثابت قدمی سے جماعت اسلامی کے نظریاتی موقف کو سیاسی سطح پر ابھارنے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان کئی دہائیوں سے سیاسی افراتفری کا شکار ہے، سابقہ ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کو طوالت دینے کے لیے پورے پاکستان کا مستقبل دائو پر لگا دیا۔ امریکہ کی وار ان ٹیرر میں شریک ہوکر پاکستان نے اتنی بڑی غلطی کی جس کا خمیازہ پتہ نہیں کب تک پاکستان کی آنے والی نسلیں بھگتیں گی، پرویز مشرف تو آرام سے بیرونی ممالک میں عیش و عشرت کی زندگی بسر کررہے ہیں لیکن پاکستان کی افواج اب بھی اسی پالیسی کے نتائج بھگت رہی ہیں، جماعت اسلامی پاکستان نے پرویزمشرف کی اس پالیسی کی مخالفت کی تھی لیکن اس وقت کی سیاسی اور ملٹری قیادت کو ڈالر نظر آرہے تھے لیکن ان ڈالروں کے عوض ہم نے امریکہ کا ساتھ تو دیا لیکن امریکہ نے فوراً اپنا دوستی کا ہاتھ بھارت کی طرف کردیا کیونکہ اس کو وہاں سے زیادہ ڈالر کمانے کی فکر ہے۔ بہرحال جماعت اسلامی پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ اس کو قاضی حسین احمد مرحوم کے بعد ایک ایسا لیڈر ملا ہے جو عوام کے درد کو سمجھتا ہے جس نے اسلام کو کتابوں سے نکال کر عملی زندگی میں لانے کی تگ و دو شروع کر رکھی ہے، یہ پاکستانی عوام کی بدقسمتی ہے کہ وہ ایسے لیڈروں کے پیچھے بھاگتے ہیں جو ان کے مسائل حل کرنے کے بجائے ان کو مزید الجھن میں ڈالتے ہیں، جو جھوٹ کی سیاست کے استاد ہیں، جو عوام کو روٹی، کپڑے کا صرف نعرہ دیتے ہیں، اصل میں ان کو فکر اپنی روٹی، کپڑے کی ہوتی ہے، جنہوں نے پاکستان کو اپنی جاگیر سمجھا ہوا ہے اور پاکستانی عوام کو مزارعے، خود ان کے علاج معالجے بیرون ممالک ہوتے ہیں ان کی اولادیں یورپ اور امریکہ میں پڑھتی ہیں اور پاکستان کے عوام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا تھا، اس کے مسائل کا حل بھی اسلامی نظام میں موجود ہے، اب یہ پاکستان کے عوام پر ہے کہ وہ آئندہ الیکشن میں سابقہ کرپٹ لوگوں کو ووٹ دے کر اسلام آباد کے تخت پر بٹھائیں گے یا کہ حکومت کی ذمہ داری ایک ایسے شخص کے سپرد کریں گے جس کی سچائی اور امانت داری کی گواہی پاکستان کی بڑی عدالت دے چکی ہے۔ ظاہر ہے کہ پاکستان کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو بابائے قوم قائداعظم کے بعد پاکستان کو کوئی مخلص اور امانت دار لیڈر نہیں ملا جو اس ملک کی بنیاد اسلامی اصولوں پر قائم کرتا ہے، جس کو اقتدار ملا اس نے سمجھا کہ وہ کسی کے آگے جواب دہ نہیں، اس نے کرسی اقتدار کو اپنی ملکیت سمجھا حالانکہ یہ اقتدار عارضی ہے اگر انسان اقتدار کے ملتے ہی اچھے کام کرجائے تو اس کو لوگ دعائیں دیتے ہیں اور اس سے اس کی آخرت سنور جاتی ہے اور جو اس کرسی کو اپنے اغراض و مقاصد کے لیے استعمال کرے اس پر تو ہزاروں اور لاکھوں روزانہ لعنتیں پڑتی ہیں لیکن ان بے شرم لیڈروں کو کیا ہے یہ تو اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں، ان کو اپنے کالے کرتوت نظر نہیں آتے، میاں نوازشریف کو جب عدالت نے کرپٹ قرار دے کر گھر بھیجا تو انہوں نے خوب کہا کہ میرا قصور کیا ہے؟ واقعتاً قصور نوازشریف یا زرداری کا نہیں، قصور پاکستانی عوام کا ہے جو کھرے اور کھوٹے میں ابھی تک تمیز کرنے کے اہل نہیں ہوئے۔