کراچی(ٹی وی رپورٹ)وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے جیو نیوز کے پروگرام ”جرگہ“ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم میں ہی ہوں اور اختیارات میرے پاس ہی ہیں، وفاقی کابینہ سوفیصد میری مرضی سے بنی ہے، تمام فیصلے پارلیمانی پارٹی اور کابینہ کے فورمز پر ہوتے ہیں، اگلے انتخابات جولائی میں وقت پر ہی ہوں گے،سینیٹ کے انتخابات کو کوئی خطر ہ نہیں ہے، سینیٹ انتخابات وقت پر ہی ہوں گے، تمام سیاسی جما عتیں چاہتی ہیں کہ ملک میں جمہوریت کا سفر چلتا رہے، بلو چستان میں جو کچھ ہوا اس سے اتفاق نہیں ہے، سازشوں پر زیادہ یقین نہیں رکھتا، بدقسمتی سے ملک میں جمہوریت کے خلاف سازشیں ہوتی رہی ہیں،میری جماعت مجھے اسمبلی تحلیل کرنے کا کہے گی تو کردوں گا، کسی کے دباؤ پر اسمبلی تحلیل نہیں کروں گا،شہباز شریف کے اگلے وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہونے کا فیصلہ پارٹی کرے گی، پارٹی فورمز کے اجلاسوں میں شہباز شریف کے وزیراعظم نامزد ہونے سے متعلق موضوع زیربحث نہیں آیا،سی پیک کے تزویراتی اور دفاعی مقاصد کی بات بھارتی پراپیگنڈہ ہے، نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ ڈائیلاگ اور انگیجمنٹ کا سلسلہ ہر سطح پر جاری ہے، امریکا سے تعلقات ختم نہیں کرنے چاہئیں،افغان طالبان ہمارے اثر میں نہیں،خودمختار ہیں، پاکستان کی نیوکلیئر صلاحیت ایک حقیقت ہے جس کا مظاہرہ بھی کرچکے ہیں، پاکستان امریکا سے کوئی خاص معاشی امداد نہیں لے رہا نہ ہی ماضی میں لی، فوجی امداد بھی برائے نام تھی جس میں زیادہ بڑا حصہ کولیشن سپورٹ فنڈ کا تھا، پاکستان میں حافظ سعید کے خلاف کوئی کیس نہیں ہے، میں نے کبھی عدلیہ کے فیصلوں پر سخت تبصرہ نہیں کیا، اٹھائیس جولائی کے فیصلے کی کوئی قانونی یا سیاسی نظیر نہیں تھی، پاکستانی عوام نے اٹھائیس جولائی کے فیصلے کو قبول نہیں کیا ،عدالتوں کا دائرہ اختیار فاٹا تک بڑھانے کے بل کی منظوری پر فخر ہے، ہم نے وہ کام کیا جو کسی حکومت نے نہیں کیا، اس بل پر مولانا فضل الرحمن بھی قائل ہیں، پی آئی اے پر مزید پیسے ضائع کرنے سے بہتر ہے پرائیویٹ ہاتھوں میں دید ی جائے۔ میزبان سلیم صافی کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ بطور وزیراعظم مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے، وزارت عظمیٰ بہت ذمہ داری کا کام ہے، وزیراعظم پر بھاری ذمہ داریاں اور مشکل فیصلے کرنا ہوتے ہیں، وزیراعظم بننے کے بعد نجی زندگی کی قربانی دینا پڑتی ہے، سیکیورٹی معاملات کی وجہ سے وزیراعظم قید والی کیفیت میں ہوتا ہے، مجھے غصہ تو نہیں آتا لیکن کچھ چیزوں پر زور دینا ضروری ہوتا ہے، ہماری سیاست میں روز نئی چیزیں سامنے آتی رہتی ہیں، کچھ چیزوں سے ملک کا نقصان ہورہا ہوتا ہے جس کا اندازہ وزیراعظم کو ہی ہوتا ہے جس کی وجہ سے کبھی جارحانہ رویہ اختیار کرنا پڑتا ہے، اسلام آباد میں اپنے گھر میں زیادہ آسانی محسوس کرتا ہوں اس لئے وزیراعظم ہاؤس منتقل نہیں ہوا، وزیراعظم ہاؤس میں رہائش کی جگہ بہت تھوڑی ہے ، زیادہ تر ریاست کے کاموں اور میٹنگوں وغیرہ میں استعمال ہوتا ہے۔ شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ پاکستانی عوام نے وزیراعظم نواز شریف کو منتخب کیا تھا، نواز شریف کے عدالتی فیصلے پر منصب چھوڑنے کے بعد ن لیگ میں کوئی وزیراعظم کا امیدوار نہیں تھا، اپنی تیس سالہ سیاست میں ایک ہی جماعت سے وابستہ رہا ہوں، پہلے دن سے میرے لیڈر نواز شریف ہیں، وزیراعظم میں ہی ہوں اور اختیارات میرے پاس ہی ہیں، نواز شریف نے نہ کبھی مجھے فون کیا نہ ہدایات دیں، تمام فیصلے پارلیمانی پارٹی اور کابینہ کے فورمز پر ہوتے ہیں، یہ تاثر درست نہیں کہ تمام فیصلے نواز شریف ڈکٹیٹ کرواتے ہیں، نواز شریف کبھی کسی کے کام میں مداخلت نہیں کرتے ہیں، نواز شریف اختیارات سونپ کر نتائج کی توقع رکھتے ہیں۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ وفاقی کابینہ سوفیصد میری مرضی سے بنی ہے، نواز شریف کے ساتھ مشاورت کے بعد کابینہ تشکیل دی، چوہدری نثار سے دوستی اور احترام کا رشتہ ہے، چوہدری نثار سے کابینہ میں شامل ہونے کی درخواست کی تھی، ان کا جواب تھا کابینہ سے باہر رہ کر آپ کی مدد کروں گا، چوہدری نثار میری مدد کرتے ہیں اور مشورہ بھی دیتے ہیں، چوہدری نثار کی ہر معاملہ پر اپنی رائے ہوتی ہے، کابینہ بن رہی تھی تو پرویز رشید کا نام زیربحث نہیں آیا تھا، پرویز رشید کا اپنی سوچ کی وجہ سے خیال تھا کہ شاید میں نہ حصہ لوں۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کے وزارت عظمیٰ کے اگلے امیدوار ہونے کا فیصلہ پارٹی کرے گی، پارٹی جب بھی موزوں سمجھے گی اگلے وزیراعظم کا انتخاب کرے گی، شہباز شریف کی ن لیگ کیلئے بہت خدمات ہیں، بطور وزیراعلیٰ پنجاب انہوں نے بھرپور کارکردگی دکھائی ہے، پارٹی فورمز کے اجلاسوں میں شہباز شریف کے وزیراعظم نامزد ہونے سے متعلق موضوع زیربحث نہیں آیا،ایسے فیصلے الیکشن کے مراحل میں یا الیکشن جیتنے کے بعد کیے جاتے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اگلے انتخابات جولائی میں وقت پر ہو گے، ملک اور جمہوریت کی ضرورت ہے کہ انتخابات وقت پر ہوں،سینیٹ کے انتخا با ت کو کوئی خطرہ نہیں ہے، سینیٹ انتخابات اور عام انتخابات وقت پر ہوں گے، تمام سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں ملک میں جمہوریت کا سفر چلتا رہے،سینیٹ بھی فعال ادارہ رہے اور پھر قومی اسمبلی کے الیکشن بھی وقت پر ہوں، میں سازشوں پر زیادہ یقین نہیں رکھتا ہوں، بدقسمتی سے ملک میں جمہوریت کے خلاف سازشیں ہوتی رہی ہیں،قومی اسمبلی کو ہٹانے کا واحد طریقہ تحریک عدم اعتماد لا کر اسمبلی تحلیل کرنا ہے، میری جماعت مجھے اسمبلی تحلیل کرنے کا کہے گی تو کردوں ، کسی کے دباؤ پر اسمبلی تحلیل نہیں کروں گا۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد جمہوری عمل کا حصہ ہے لیکن بلوچستان میں جو کچھ ہوا اس سے اتفاق نہیں ہے، بلوچستان میں ن لیگ ارکان کو شکایات تھیں تو اس کیلئے پارٹی فورم موجود تھا، پارٹی سے بغاوت کر کے تحریک عدم اعتماد لائی جائے گی تو اس شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھا جائے گا، تحریک عدم اعتماد کا حصہ بننے والے ن لیگی ارکان کو پارٹی own نہیں کرتی، ان ارکان کی ن لیگ سے وابستگی کا فیصلہ پارٹی ہی کرسکتی ہے۔وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ ختم نبوت حلف نامے کے معاملہ پر راجا ظفر الحق کمیٹی کی رپورٹ ابھی بن رہی ہے، ملک میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے سی پیک متاثر ہونے کا تاثر درست نہیں ہے، احسن اقبال کی بات کو تناظر سے ہٹ کر بیان کیا گیا ہے، وزیرداخلہ کا شاید یہ مطلب تھا کہ سیاسی عدم استحکام کا ترقیاتی منصوبوں پر اثر پڑتا ہے اس لئے سی پیک پر بھی اثر پڑے گا، پہلے دھرنے کی وجہ سے سی پیک شروع ہونے میں ایک سال تاخیر ہوئی، سی پیک سے متعلق کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں ہے، بھارت پہلے دن سے سی پیک کیخلاف پراپیگنڈہ کررہا ہے، سی پیک کے تزویراتی اور دفاعی مقاصد کی بات بھارتی پراپیگنڈہ ہے، چینی حکومت نے گوادر کو دفاعی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی کبھی خواہش ظاہر نہیں کی، گوادر کمرشل پورٹ ہے اور کمرشل مقاصد کیلئے استعمال ہورہا ہے، سی پیک پاکستان اور چین کے درمیان باہمی معاہدہ ہے، کسی ملک کو اس پر تحفظات نہیں ہونے چاہئیں۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ ڈائیلاگ اور انگیجمنٹ کا سلسلہ ہر سطح پر جاری ہے، امریکا کا وفد یہاں آیا تھا یہاں کا وفد بھی امریکا گیا تھا،ٹرمپ کو امریکی عوام نے صدر منتخب کیا ہے، ٹرمپ کی رسمی یا غیررسمی باتوں کو اسی پیرایے میں لیا جاتا ہے جس میں بات کی گئی ہو، ٹرمپ کی پاکستان سے متعلق بات میں حقیقت بہت کم تھی، امریکی صدر کے بیان کے بعد بھی امریکی افواج سے ڈائیلاگ جاری ہیں، پاکستان امریکا سے کوئی خاص معاشی امداد نہیں لے رہا نہ ہی ماضی میں لی، فوجی امداد بھی برائے نام تھی جس میں زیادہ بڑا حصہ کولیشن سپورٹ فنڈ کا تھا، کولیشن سپورٹ فنڈ امریکا کی فوجی سرگرمیوں میں پاکستان جو اخراجات کرتا ہے اس کی ادائیگی ہوتی ہے، ایسا کوئی عمل نہیں چاہتے جس کا دہشتگردی کیخلاف جنگ پر اثر ہو، امریکا کو ہمیشہ باور کرایا ہے کوئی ایسا یکطرفہ قدم نہ اٹھایا جائے جس سے دہشتگردی کیخلاف جنگ متاثر ہو، امریکا کو بتایا ہے کہ فوجی امداد میں تاخیر یا پابندیوں سے پاکستان کی دہشتگردی کا مقابلہ کرنے کی قوت متاثر ہوتی ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک خودمختار ملک ہے، سرحدو ں کا تحفظ پاکستانی حکومت اور افواج پر لازم ہے، امریکا نے کوئی ایڈونچر یا ڈرون حملہ کیا تو جو ایکشن ضروری ہوا کریں گے، پاکستان کی سرزمین سے اگر کسی ملک کو خطرہ ہے تو ہم ایکشن لینے کیلئے تیار ہیں، اگر کوئی بھی موثر انٹیلی جنس دی گئی تو اس پر کارروائی کریں گے، پاکستانی باعزت اور باوقار قوم ہیں، اگر کسی مشکل میں ڈالا گیا تو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے والے لوگ ہیں، اگر پاکستان کی عزت، خودمختاری اور آزادی کو خطرہ ہوا تو پوری دنیا سے جنگ کرنے کو تیار ہوسکتے ہیں۔وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ پاکستان سے زیادہ افغانستان میں امن کوئی نہیں چاہتا ہے، پاکستان نے آج بھی تیس لاکھ افغانیوں کو پناہ دی ہوئی ہے، افغان مہاجرین کیلئے وہ کچھ کیا جو دنیا میں کسی نے نہیں کیا، افغان مہاجرین نہ صرف پاکستان میں پناہ گزین ہیں بلکہ یہاں کاروبار بھی کرتے ہیں اور جائیدادیں بھی رکھتے ہیں، افغان مہاجرین کی تیسری نسل پاکستان میں پروان چڑھ رہی ہے، پاکستان نے افغانیوں کی ہر ممکن مدد کی لیکن آج پاکستانی فورسز پر افغانستان سے تخریب کار حملہ آور ہورہے ہیں، پاکستان کی قربانیوں کو دنیا اور افغان حکومت کو سمجھنا چاہئے، افغانستان کے مسائل جنگ سے حل نہیں ہوں گے، تمام افغانوں کو مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر اپنے مسائل حل کرنا ہوں گے، پاکستان اور امریکا صرف سہولت کاری کاکام کرسکتے ہیں۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ پاکستان افغان طالبان کا ذمہ دار نہیں ہے، افغان طالبان افغانستان کے شہری اور وہیں رہتے ہیں، دنیا افغان مسئلہ کا حل چاہتی ہے تو پہلے پاکستان میں موجود تیس لاکھ افغان مہاجرین کی ری سیٹلمنٹ کرنا ہوگی اس کے بعد ہی پاکستان سے کوئی سوال کیا جاسکتا ہے، آج کی حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کی سرحد پار کر کے پاکستان میں ٹارگٹس اور فورسز پر حملے کیے جارہے ہیں، امریکا کو ہمیشہ کہا ہے پاکستان میں دہشتگردوں کی پناہ گاہو ں سے متعلق کوئی معلومات ہیں تو ہم کارروائی کرنے کیلئے تیار ہیں، افغان حکومت کو ہر سطح پر مطمئن کیا گیا ہے، افغانستان سے پاکستان میں 29خودکش حملہ آور ہوتے ہیں تو اس کی ذمہ داری افغان حکومت پر ہوگی، افغانستان کو پاکستان سے مسائل ہیں تو دوطرفہ بات چیت سے ہی حل ہوسکتے ہیں۔