• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فلم انڈسٹری کی ترقی کے لئے پنجابی موسیقی بھی عروج کی منتظر

’لالی ووڈ‘ کہیں ،’ لاہور فلم انڈسٹری‘کہیںیا پھر ’پاکستان فلم انڈسٹری ‘اس کے عروج اور زوال کی کہانی اپنے آپ میں ایک تاریخ ہے۔یہاں اردو اور پنجابی ، دونوں زبانوں کی فلمیں بناکرتی تھیں ۔

ایک دور تھا جب سال بھر میں بننے والی اردوفلموں کے مقابلے میں پنجابی فلمیں زیادہ ہواکرتی تھیں ۔ حد تو یہ ہے کہ اردو فلموں پر زوال بھی پہلےآیا جبکہ پنجابی فلمیں ان کی مقابلے میں زیادہ دیر تک’اسٹینڈ‘ کرتی رہیں۔

اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ پنجاب کا فلم سرکٹ ملک کا سب سے بڑا سرکٹ تھا ۔اس سرکٹ میں فلمیں تو کامیاب ہوئیں ہی پنجابی موسیقی نے بھی سب کے دل جیتے ہوئے تھے۔ پنجابی فلمی گانوں نے جو شہرت پائی وہ بھی بہت دیرپا تھی بلکہ آج بھی پرانے پنجابی گانے ایسے ہی ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں جیسے پرانی پاکستان و بھارتی گانے سنے اور سنائے جاتے ہیں۔

پنجابی فلمی گانوں کا سنہری دور ، دورا رہا ہے ۔ میڈم نورجہاں جیسی عظیم پلے بیک سنگر کے گائے ہوئے پنجابی فلمی گانوں نے جو شہرت حاصل کی وہ آج تک لازوال ہے ۔پھر مسرت نذیر کے گانے بھلا کسے یاد نہ ہوں گے۔ ان گانوں کو پسند کرنے والے آبھی لاتعداد ہیں۔

فلموں کو زوال آیا تو موسیقی کا انداز بھی یکسر بدل گیا۔نئے دور میں فلمی موسیقی کے بجائے غیرفلمیں موسیقی پسند کی جانے لگی۔ پرانے گلوکاروں کی جگہ شیراز اپل،جواد احمد، ابرارالحق ،حدیقہ کیانی اور فخرےعالم جیسے نئے گلوکاروں نے لے لی۔

وقت یہاں بھی نہیں ٹھہرا اور بدلتے بدلتے فلمی پردے سے ہٹ کرکیسٹس، سی ڈیز اور سوشل میڈیا سائٹس تک سمٹتا چلا آیا۔ جواد احمد نے ملی نغمے بھی اردو میں گائے تو سیکورٹی فورسز سے اظہار یکجہتی کے لئے ملی نغمے بھی اسی زبان میں اپنے سننے والوں کو دیئے ۔

حدیقہ کیانی نے اپنا رنگ اپنے انداز سے جمایا ۔ انہوں نے ’بوے باری ‘ گائے ۔۔گو کہ بہت مشکل الفاظ کا مجموعہ تھا لیکن کہتے ہیں کہ موسیقی کی کوئی زبان، کوئی سرحد ، کوئی وطن نہیں ہوتا ۔۔حدیقہ نے وہ سچ ثابت کردکھایا اور وہ پنجابی گانے دیئے جو یہ زبان نہ جاننے والوں کے بھی ہونٹوں کے ’ترانے ‘ بن گئے۔

hadiqa

ابرار الحق بھی مشکل پسند ثابت ہوئے لیکن ’بلو‘ کے گھر جانے کا تڑکا انہیں صف میں سب سے آگے نکال کر لے گیا۔

فخر عالم پنجابی کے ساتھ انگیریزی کا ’بھگار‘ اور ریپر کا انداز بناکر اتنے کامیاب ہوئے کہ آج تک ان کی پہچان کامیابی کاعنصر لئے نظر آتی ہے۔

اس سے کچھ پہلے دور کی بات کریں تو عطااللہ عیسیٰ خیالوی نے اسے پنجابی اور سرائیگی گانوں کو آب حیات بخشا۔ ان کا انداز اور ان کی کلاس بے شک سب سے منفرد ہے لیکن انہوں نے موسیقی کو جو کچھ دیا وہ سب کے بس کی بات نہیں ۔

ataullah

پاکستان میں پچھلے کچھ سالوں سےجس طرح اردو فلموں کی بقا کے لئے مسلسل کام ہورہا ہے فلمیں بن رہی ہیں ، میرے خیال میں پنجابی موسیقی اور پنجابی فلموں کو بھی پھر سے زندگی بخشنے کے لئے شب و روز کام کی ضرورت ہے کیوں کہ یہ سرکٹ بھی فلم انڈسٹری کی بحالی ، ترقی اور ترویج میں بہت اہم کردار اداکرے گا ۔

 

تازہ ترین