کراچی (نیوز ڈیسک) حکام کا کہنا ہے کہ وہ پولیس کے خلاف ان الزامات کی تحقیقات کریں گے جن کے مطابق پولیس نے قصور میں ایک شخص کو بچی کے قتل کے غلط الزام میں ماورائے عدالت قتل کیا تھا۔یہ واقعہ گذشتہ برس فروری میں پیش آیا تھا۔یہ الزامات بی بی سی کے پروگرام نیوز نائٹ میں اس وقت سامنے آئے جب حال ہی میں صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں جنسی زیادتی کے بعد قتل کی جانے والی بچی زینب انصاری کے ڈی این اے سے معلوم ہوا کہ ان بچیوں کو مارنے والا شخص ایک ہی ہے۔پولیس نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ گذشتہ سال فروری میں مدثر نامی شخص گرفتاری کے دوران مزاحمت کی وجہ سے مارا گیا تھا۔زینب کیس میں پولیس کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ ملنے والا ڈی این اے وہی ہے جو قصور ہی میں دیگر سات بچیوں پر ہونے والے حملوں سے ملا تھا۔ان متاثرہ بچیوں میں پانچ سالہ ایمان فاطمہ بھی تھیں، جنھیں گذشتہ سال فروری میں قصور ہی میں اغوا کرنے کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔آج تک پولیس اور متاثرہ خاندان یہی سمجھتے رہے کہ یہ معاملہ پہلے ہی حل ہو چکا ہے۔بی بی سی سے خصوصی طور پر بات کرتے ہوئے مدثر کے گھر والوں کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں پولیس نے یہ جانتے ہوئے اسے مار دیا کہ ’وہ قاتل نہیں تھا کیونکہ وہ اصل مجرم کو تلاش نہیں کر پائے تھے‘۔ایمان فاطمہ کی لاش ملنے کے بعد مقامی رہائشیوں نے بظاہر حکام کی جانب سے کوئی قدم نہ اٹھانے پر احتجاج شروع کر دیا تھا۔مدثر کی والدہ جمیلہ بی بی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میں سب کچھ کھو بیٹھی ہوں۔ انھوں نے میرا بیٹا مار ڈالا۔‘جمیلہ بی بی نے روتے ہوئے کہا ’ہمارے پڑوس میں رہنے والوں میں سے کوئی ہمارے ساتھ بات تک نہیں کرتا تھا۔