زینب اور نقیب محسودکا خون رنگ لایا، ان میں سے کوئی بھی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس ملک میں بچیوں کے ساتھ زیادتیاں ہوتی رہی ہیں۔ ادھر کم توجہ دی گئی۔ نام نہاد پولیس مقابلوں میں بے شمار لوگ ماردئیے گئے۔ قانون اندھابنا رہا۔صرف قصور میں بارہ بچیاں ظلم کا شکار ہوئیں، کسی نے احتجاج نہیں کیا، پولیس کو کچھ نظر نہیں آیا۔ شور مچا ،اعلیٰ عدلیہ نے توجہ دی تو ایک ملزم گرفتار کرلیا گیا۔ نقیب کی ہلاکت پر پورے ملک میں احتجاج ہوا، ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا، مارے جانے والے کے لواحقین ڈرجاتے تھے، یاڈرا دھمکا کر چپ کرادئیے جاتے تھے۔ اس بار خون ناحق رنگ لایا،جعلی پولیس مقابلہ تھا، مرنے والے کا حلیہ بھی ایک عام سے آدمی کا نہیں تھا کہ جس کی داڑھی بے ترتیب ہو اور اٹنگا پاجامہ پہنے ہو۔ دہشت گرد کا الزام اس پر لگ نہیں سکا۔ تحقیقاتی ٹیم نے مقابلہ جعلی قرار دیا۔ رائو انوار جو اس کام کے ماہر تھے، قانون کی بالادستی کا دعویٰ کرتے تھے، کہا جاتا ہے فرار ہو گئے۔ اتنے اہم عہدے پر فائز ایک اہلکار کو زیب صرف یہ دیتا ہے کہ وہ قانون کو اپنی راہ لینے دے۔ یہ انہوں نے ماضی میں بھی کبھی نہیں کیا ، قانون اپنے ہاتھ میں رکھا، پولیس بھی خود، عدالت بھی خود اور جلاّ د بھی خود۔ اب قانون کے ہاتھوں سے فرار ہو کر خود قانون کی دھجیاں بکھیر دیں۔
نام نہاد پویس مقابلوں کی ایک طویل تاریخ ہے، اورمارے جانے والوں کی اتنی ہی طویل فہرست۔ سارا ریکارڈ بھی شاید ہی کسی کے پاس ہو۔ ربع صدی سے، جب یہ مقابلے شروع ہوئے تھے، کئی پولیس والوں نے از خود ، اور کسی کی شہ پر یہ ذمہ داری لے لی تھی کہ لوگوں کو گرفتار کرو اور نام نہاد مقابلوں میں جان سے مار دو۔ ان کے نزدیک مسئلہ کا بس یہی ایک حل تھا۔ کچھ لوگ کہتے تھے، اور اب بھی شاید ان کا موقف یہی ہو کہ عدالتیں ٹھیک فیصلہ نہیں کرتیں اس لئے ان ’’مجرموں‘‘ کوپولیس مقابلے میں ہلاک کردیا جائے۔ مقابلہ کوئی نہیں ہوتا، بس پولیس والے پہلے سے اٹھائے ہوئے لوگوں کو کسی جگہ لے جاتے اور ہلاک کردیتے۔ ایسا بھی ہوا کہ کچھ نام نہاد مقابلوں میں جو لوگ مارے گئے ان کے ہتھکڑیاں بھی لگی ہوئی تھیں۔
لوگوں کو جان سے مارنے کا یہ اختیار انہیں ریاست نے دیا۔ پولیس کو شہ ملی 1995-96 میں جب کراچی میں مہاجر قومی موومنٹ کے خلاف آپریشن جاری تھا، بہت سے لوگ پولیس مقابلوں میں ماردئیے گئے۔ آپریشن کے نگران پیپلز پارٹی کے وزیر داخلہ نصیراللہ با بر تھے، ان کے دست راست رحمان ملک، اور آس پاس کئی ایسے پولیس والوں کو ان کی اشیرباد حاصل تھی جو آئے دن لوگوں کو پکڑ کر پولیس مقابلہ میں ہلاک کردیتے تھے۔ رائو انوار بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے، بلکہ بہت آگے بڑھ کر یہ اور بہت سے کام کیا کرتے تھے۔ ان کا ریکارڈ سب سے زیادہ خراب ہے۔ ایسے بھی کئی لوگ مارے گئے جن کا کوئی جرم کبھی ثابت نہیں ہوا۔ آج بھی اگر ان مقابلوں کا ریکارڈ نکا لاجائے...کاش کوئی نکالے ...تو بہت سے حقائق سامنے آسکتے ہیں۔ ہم چند اخبار نویس اکثر ان نام نہاد مقابلوں کی تفتیش کرتے تھے، اکثر جعلی ہی ثابت ہوتے۔ وزیر داخلہ نصیراللہ بابر ان پولیس افسروں کی حمایت کیا کرتے تھے۔ روز ہی ان سے بحث ہوتی۔ کئی بار کہا کہ دہشت گردی کا حل ریاستی دہشت گردی نہیں ہے۔ بلکہ دہشت گردی اگر ایک غلط کام ہے تو ریاستی دہشت گردی اُس بھی برا کام۔ کسی نے کبھی سنا ہی نہیں۔
پولیس کا اپنا مزاج ہے۔ اگر کبھی تفصیل جمع ہو سکے تو اندازہ ہوگا کہ یہ کرتے کیا ہیں۔ ضیا ء الحق کا زمانہ تھا تو ان کا ہدف الذوالفقار تھی۔ آئے دن اس کے لوگ گرفتار کیے جاتے۔ دعویٰ یہ ہوتا کہ وہ دہشت گرد تھے، تربیت کے لئے بھارت جارہے تھے، ان کی کشتی روکی گئی تو پولیس مقابلہ ہوگیا، اتنے آدمی مرگئے۔ بعد میں پتہ چلتا ان میں سے اکثر کو اٹھاکر ماردیا گیاتھا۔ پھر ایم کیو ایم نشانہ بنی۔ روز ہی اس کے کارکن پکڑے جاتے، یہی کہا جاتا دہشت گرد تھے ، سنگین جرائم میں ملوث تھے۔ جو بھی الزام منہ میں آیا لگا دیا، پوچھنے والا کون تھا۔ کبھی کسی الزام کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ پھر طالبان آگئے۔ جس داڑھی والے کو دیکھا طالبان کہہ کر پکڑ لیا ا ورماردیا۔ بیچ بیچ میں اور بھی کئی تنظیموں کے خلاف اسی طرح کی کارروائیاں ہوتی رہیں، سپاہ صحابہ، سپاہ محمد، لیاری گینگ، جہادی۔ ایک سلسہ تھا جو جاری رہا، اور اب تک ہے۔ جب ایم کیو ایم کے لوگ مارے جارہے تھے، کسی نے مخالفت نہیں کی۔ کسی کو انصاف یاد آیا نہ اسلامی تعلیمات۔ انہی دنوں یوں بھی ہوا کہ فہیم کمانڈو کو جیل سے نکال کر ’’پوچھ گچھ‘‘ کے لئے عارضی ریمانڈ پر لایا گیا، اور صبح پولیس مقابلے میں ہلاک کردیا گیا۔ کہا یہ گیا کہ اسے ایک جگہ لے گئے تھے وہاں اس کے ساتھیوں نے اسے چھڑانے کی کوشش کی ، جس پر مقابلہ ہوا اور وہ مرگیا۔ حیرانی کی بات یہ تھی کہ کوئی پولیس والا یا چھڑانے والا مرا نہیں۔ فہیم ناظم آ باد نمبر چار کے ایک مکان کے فرسٹ فلور پر مارا گیا۔ ہم جب وہاں پہنچے تو خون ابھی خشک نہیں ہوا تھا۔ اب بھی میرے پاس گولیوں کے کچھ خول موجود ہیں جو میں نے خشک جگہ سے اٹھائے تھے۔ جس جگہ یہ گھر تھا، وہ اتنی پتلی گلی تھی کہ دو گاڑیوں کے بعد وہاں تیسری گا ڑی کی جگہ نہیں تھی۔ سامنے ایک ہائی روف کھڑی تھی، اسے بھی چھلنی کردیا گیا تھا۔ جیل سے کسی ملزم کو ریمانڈ پر لیتے وقت ایک دستاویز پر متعلقہ افسر کو یہ یقین دہانی کرانی پڑتی ہے کہ ملزم کو اسی حالت میں واپس کیا جائیگا۔ فہیم کے ساتھ مگر یہ نہیں ہوا۔ اسے نام نہاد مقابلے میں ماردیا گیا۔ کسی کا کوئی احتساب نہیں ہوا۔ تو کیا اس طرح دہشت گردی کا مسئلہ حل ہوگیا؟ ایسے ہی ایک پولیس مقابلے میں ان ہی دنوں میں وزیراعظم بے نظیر کے بھائی، مرتضیٰ بھٹو اور ان کے کئی ساتھیوں کو ہلاک کردیا گیا۔ بی بی جب رات کو اسلام آباد سے آئیں تو اندازہ ہوا کہ بھائی کی موت کا انہیں کتناغم ہے۔ ان کی حالت خراب تھی، وہ ننگے پائوں اسپتال کے اس کمرے میں گئیں جہاں مرتضیٰ کی لاش پڑی ہوئی تھی۔ ان کی آنکھیں روتے روتے سوج گئی تھیں۔ ظاہر ہے یہ ان کا ذاتی دکھ تھا۔ غم تو ہونا تھا، چاہے بھائی سے ان دنوں اختلاف ہی کیوں نہ رہا ہو۔طویل عرصہ گزرگیا آج تک اس مقد مہ کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ البتہ جو پولیس افسران اس واردات میں ملوث تھے سب کو نوازا بہت گیا۔ وجہ جو بھی رہی ہو، شبہ تو ہوتا ہے ان حالات میں۔ پولیس جن دوسروں کو ماررہی تھی اگر اسے روکا جاتا تو ہو سکتا تھامرتضیٰ اس انجام سے بچ جاتے، بی بی کو یہ غم نہ سہنا پڑتا۔ جو دوسرے مارے جا تے رہے، ان کے گھر والوں کو بھی ایسا ہی دکھ ہوا ہوگا۔
ذمہ داری حکومت کی ہے، ریاست کی ہے۔ پولیس مقابلوں کے خلاف باربار آواز اٹھائی گئی، کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ کچھ معاملات میں اعلیٰ عدالتوں نے احکامات جاری کئے، نتائج کیا نکلے، آج تک پتہ نہیں۔ گزشتہ اکتوبر میں اعلیٰ عدالت نے 65 پولیس مقابلوں کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔ اب تک پتہ نہیں چلا کہ کیا ہوا۔ اور بات صرف 65 مقابلوں کی نہیں، تمام مقابلوں کی ہے۔ کچھ مقابلے واقعی ہوئے ہوں گے، مگر اس کاکوئی ثبوت؟ اکثر غلط اقدام ہیں۔ نہیں ہونے چاہئیں تھے۔ ان کی بھی چھان بین کی جائے۔ جعلی پولیس مقابلوں سے کیا مسائل حل ہو گئے ؟ سارے دہشت گرد اس طرح ختم ہو جائیں گے؟ دہشت گردی سے جان چھوٹ جائے گی؟ جو کچھ کیا جا رہا ہے، کیا یہ کوئی مہذب طریقہ ہے؟ پہلے لوگوں کو گھروں سے اٹھائو، پھر پولیس مقابلہ کہہ کر ماردو۔ قانون کا احترام کرنے والے کسی ملک میں ایسا ہوتا ہے؟ مقدمہ چلائے بغیر، کسی عدالت میں جرم ثابت کئے بغیر، کیا کسی کو قتل کیا جا سکتا ہے؟ کیا دہشت گردی ریاستی دہشت گردی سے ختم ہو سکتی ہے؟
نقیب کے معاملے میں پہلی مرتبہ ایک ہلچل ہوئی ہے۔ عوام نے کچھ شعور کا ثبوت دیا۔ سوشل میڈیا بھی فعال ہے۔ یوں یہ معاملہ لوگوں کے سامنے آیا۔ اسی معاملہ کو اعلیٰ عدالت آگے بڑھائے، اس کے ساتھ دوسرے معاملات کا بھی جائزہ لے۔ دیکھے کتنے بے گناہ مارے گئے، کتنی مائوں کی گود اجاڑی گئی، کتنی سہاگنوں کو بیوہ کردیاگیا، کتنے بچے یتیم ہوئے۔ ان کا جواب لینا ریاست کا فرض ہے، معاشرے کی ذمہ داری ہے، اور سوچ سمجھ رکھنے والوں کا اخلاقی فریضہ کہ کوئی بے گناہ مارا نہ جائے، کوئی اور گود نہ اجڑے۔