• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسحاق ڈار کیخلاف تین گواہوں کے بیانات قلمبند، بینک اکائونٹس کی تفصیلات پیش

اسلام آباد(بلال عباسی) اسحاق ڈار کیخلاف تین گواہوں کے بیانات قلمبند ہوگئے، بینک اکائونٹس اور گاڑیوں کی تفصیلات بھی عدالت میں پیش کردی گئیں، جے آئی ٹی کے سربراہ کے سوا دیگر تمام گواہان کو 29 جنوری کو طلب کر لیا گیا ہے، تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں کے ریفرنس کی آئندہ سماعت پر جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کے سوا دیگر تمام گواہان کو 29جنوری کو طلب کرتے ہوئے نیب کو تمام ریکارڈ محفوظ رکھنے کا حکم دیا ہے، سماعت کے دوران استغاثہ کے گواہ نے اسحاق ڈار کا ماضی کی معروف اداکارہ دیبا سے جائیداد خریدنے کا انکشاف کیا ہے۔ جمعہ کو اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت کے دوران استغاثہ کے مزید 5 گواہوں کے بیانات قلمبند کر لیے گئے۔ استغاثہ کے گواہ موٹر رجسٹریشن اتھارٹی لاہور کے محمد نعیم نے کہا کہ طلبی کا نوٹس ملنے پر 22 اگست کو نیب لاہور میں پیش ہو کر اسحاق ڈار اور ان کی اہلیہ کے نام پر موجود گاڑیوں کی تفصیلات فراہم کیں، اسحاق ڈار کے نام پر موٹر رجسٹریشن اتھارٹی میں 3 گاڑیاں رجسٹرڈ ہوئیں، تاہم اسحاق ڈار نے 34 لاکھ سے زائد مالیت کی گاڑی اپنی بیوی کے نام پر منتقل کرا دی جبکہ ایل آر ایس 9700 نمبر کی گاڑی سیدہ زہرہ منصور کے نام پر منتقل کی گئی، دوسرے گواہ بینکنگ ایکسپرٹ ظفر اقبال مفتی نے اسحاق ڈار، ان کی اہلیہ اور کمپنیز کے اکاؤنٹس کی تفصیلات پر مشتمل رپورٹ عدالت میں پیش کی اور بتایا کہ اسحاق ڈار، ان کی اہلیہ اور کمپنیز کے مختلف بینکوں میں 15 اکاؤنٹس ہیں جن میں سے اسحاق ڈار اور ان کی اہلیہ کے نام پر 7 جبکہ کمپنیز کے نام پر 8 بینک اکاؤنٹس ہیں۔ تمام اکاؤنٹس میں مختلف ٹرانزکشنز کے ذریعے ایک ارب 55 کروڑ روپے سے زائد رقم نکلوائی گئی۔ گواہ نے مزید بتایا کہ اگست 2017 تک ان اکاؤنٹس میں ایک ارب 57 کروڑ سے زائد رقم موجود تھی۔ الائیڈ بینک پارلیمنٹ ہاؤس برانچ میں اسحاق ڈار کے اکاؤنٹ میں ایک کروڑ 7 لاکھ سے زائد، بینک الفلاح کے اکاؤنٹ میں 78 کروڑ 19 لاکھ اور حیبیب بینک کے اکاؤنٹ میں 58 لاکھ 83 ہزار سے زائد رقم موجود تھی۔ اسحاق ڈار کی اہلیہ کے حبیب میٹرو پولیٹن بینک کے اکاؤنٹ میں ایک کروڑ 74 لاکھ 91 ہزار روپے اور البرکہ بینک اکاؤنٹ میں ایک کروڑ 29 لاکھ 13 ہزار سے زائد رقم موجود تھی۔ گواہ ظفر اقبال نے مزید بتایا کہ تفتیشی افسر کی ہدایات پر اسحاق ڈار، ان کی اہلیہ اور کمپنیز کے اکاؤنٹس کی بینک کریڈٹ ان فلوز رپورٹ تیار کی۔ اکاؤنٹس کے حوالے سے معلومات سٹیٹ بینک کے زریعے حاصل کیں۔ تفتیشی افسر نے نیب کے آفیسر اقبال حسن اور عبید سائمن کی موجودگی میں بیان قلمبند کیا۔ استغاثہ کے تیسرے گواہ نادرا کے برطرف ڈائریکٹر قابوس عزیز نے بتایا کہ چیئرمین نادرا کی ہدایت پر وہ 21 اگست کو نیب لاہور میں پیش ہوئے اور نیب کو اسحاق ڈار کے فیملی ٹریل سے متعلق دستاویز دیں۔ اسحاق ڈار کی بیٹی صدیقہ عادل رانا کی نجی معلومات بھی نیب کو فراہم کیں۔ یہ دستاویزات نادرا کے ڈیٹا بیس سسٹم سے پرنٹ کئے گئے تھے۔ ان دستاویز کے کور لیٹر پر پی ایس ٹو چیئرمین کے دستخط بھی موجود ہیں۔ چوتھے گواہ ڈپٹی ڈائریکٹر الیکشن کمیشن سعید احمد خان نے بتایا کہ وہ 29 اگست کو نیب لاہور میں پیش ہوئے اور تفتیشی افسر کو اسحاق ڈار کی جائیداد کے حوالے سے ریکارڈ پیش کیا۔ گواہ نے 2003ء سے 2016ء تک اسحاق ڈار کی تمام جائیداد کی تفصیلات عدالت میں بھی پیش کیں۔ پانچویں گواہ مرزا فیض الرحمن نے عدالت کو بتایا کہ اسحاق ڈار نے 1988 میں بلاک ایچ گلبرگ تھری لاہور کا پلاٹ نمبر سات خریدا، وہ آج بھی اس پرپراٹی کے مالک ہیں، سیل ڈیل کے مطابق اس وقت اس کی قیمت 20 لاکھ 50 ہزار روپے تھی اور اسحاق ڈار نے یہ جائیداد ماضی کی معروف اداکارہ دیبا سے خریدی تھی جن کا اصل نام راحیلہ خانم تھا اور کاغذات میں وہی نام درج ہے۔ استغاثہ کے چھٹے گواہ ان لینڈ ریونیو لاہور کے افسر اشتیاق احمد کا بیان ریکارڈ ترتیب سے نہ ہونے کی وجہ سے مکمل نہ ہوسکا۔ سماعت کے دوران فاضل عدالت کے جج محمد بشیر نے نیب پراسیکیوٹر کو حکم دیا کہ تمام دستاویزات کو سنبھال کر رکھیں کیونکہ جب ملزم واپس آئے گا تو اس پر جرح بھی ہونی ہے.فاضل عدالت نے آئندہ سماعت پر مرکزی گواہ جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کو طلب کرنے کی بات کی تو نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ واجد ضیاء کے بیان سے متعلق تمام ریکارڈ سپریم کورٹ میں ہے وہاں سے منگوانے کیلئے سپریم کورٹ کو درخواست دینا پڑے گی جس پر عدالت نے سماعت 29 جنوری تک ملتوی کرتے ہوئے کیس کے مرکزی گواہ واجد ضیاء کے سواء دیگر تمام گواہان کو طلبی کے سمن جاری کر دیئے۔
تازہ ترین