اسلام آباد(تبصرہ:طارق بٹ)شاہد خاقان عباسی اور شہباز شریف نے تاحال وزیراعلیٰ بلوچستان کو مبارکباد کا پیغام نہیں بھیجاہے۔دریں اثناءبلوچستان کے مسائل حل کرنے کے لیے عبدالقدوس بزنجو کو وفاقی حکومت کے تعاون کی ضرورت ہوگی۔سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثنااللہ زہری کے خلاف ہونے والی بغاوت کے بعد سے وفاقی حکومت کا نو منتخب وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کے زیر انتظام بلوچستان انتظامیہ سے کسی قسم کا کوئی رابطہ نہیں ہے ۔عبدالقدوس بزنجو نے اپنے عہدے کا حلف 13جنوری کو اٹھایا تھا ، تاہم انہیں اب تک وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی جانب سے روایتی مبارک باد کا پیغام موصل نہیں ہوا ہے۔عبدالقدوس بزنجو عوامی سطح پر اس با ت کی شکایت بھی کرچکے ہیں کہ وزیر اعظم نے انہیں مبارک باد نہیں دی ہے۔تاہم، پیر کے روز وزیر اعظم کےسی پیک منصوبے کے جائزے کے حوالے سے متوقع دورہ گوادر میں ان کی دوبدو ملاقات ہوسکتی ہے۔نواب ثنااللہ زہری کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد کی شیڈول ووٹنگ سے ایک روز قبل بھی شاہد خاقان عباسی کوئٹہ گئے تھے تاکہ وہاں کے زمینی حقائق سے آگاہ ہوسکیں۔فی الحال اس بات کا علم نہیں ہے کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اور وزیرا علیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے بھی عبدالقدوس بزنجو کو مبارک باد دی ہے یا نہیں۔تاہم پی ٹی آئی بلوچستان میں ہونے والی تبدیلی سے لاتعلق رہی ہے کیوں کہ وہاں صوبائی اسمبلی میں ان کی نمائندگی نہیں ہے۔جب کہ پیپلز پارٹی اس تبدیلی سے مطمئن ہے۔یہ خیال کیا جارہا ہے کہ اس تبدیلی میں پیپلز پارٹی کا کچھ نہ کچھ کردار ضرور ہے ، حالاں کہ ان کی بھی بلوچستان اسمبلی میں کوئی نمائندگی نہیں ہے۔جہاں وفاقی حکومت وزیر اعلیٰ بلوچستان سے لاتعلق ہےکیوں کہ ان کا انتخاب ن لیگ کے منتخب وزیر اعلیٰ کو ہٹا کر عمل میں آیا ہے۔ق لیگ نے دل کی گہرائیوں سے عبدالقدوس بزنجو کو مبارک باد دی ہے ، کیوں کہ وہ ان کی جماعت سے ہی تعلق رکھتے ہیں ۔ق لیگ کے سینئر رہنماچوہدری پرویز الہٰی خصوصی طو ر پر کوئٹہ گئے اور ان سے اظہار یکجہتی کیا۔عبدالقدوس بزنجو نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی مختصر مدت میں بلوچستان کے بہت سے مسائل حل کریں گے ، جس میں انہیں وفاقی حکومت کے تعاون کی ضرورت ہوگی ، ان کے تعاون کے بغیر وہ جو دعویٰ کرچکے ہیں اس پر عمل نہیں کرسکیں گے۔استعفیٰ دینے کے بعد سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثنا اللہ زہری عوامی سطح پر نظر نہیں آئے ہیں۔بزنجو کے انتخاب کے موقع پر بھی وہ اسمبلی میں موجود نہیں تھے۔تاہم، عدم اعتماد کی تحریک اسمبلی میں لائے جانے کے بعد یہ بات رپورٹ ہوئی تھی کہ ان کے سیکریٹری کو کرپشن الزامات پر حراست میں لے لیا گیا تھا۔تاہم ان پر لگائے گئے الزامات منظرعام پر نہیں آئے۔غالباًیہ اقدام نواب ثنااللہ زہری کے لیے ایک پیغام تھا کہ وہ خاموشی سے اپنے گھر چلے جائیں۔ن لیگ بلوچستان اسمبلی کی سب سے بڑی جماعت تھی۔کسی بھی موقع پر صوبائی ارکان نے مرکزی قیادت کو یہ بھنک نہیں پڑنے دی کہ وہ نواب ثنا اللہ زہری سے ناراض ہیں۔ان کے اس اقدام نے ن لیگ صدر اور اعلیٰ قیادت کو حیرت میں ڈال دیا۔اسی وجہ سے نواز شریف بھی اس معاملے میں شامل نہیں ہوئے۔جس کے بعد ن لیگ نے بھی ان کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اگر ان ارکان اسمبلی کے خلاف کوئی اقدام کیا جاتا تو صوبائی اسمبلی کی تحلیل ہونے کی راہ بھی ہموار ہوسکتی تھی۔تحریک عدم اعتماد اصل میں جمعیت علماءاسلام(ف)، ق لیگ اور کچھ چھوٹے گروپس نے پیش کی تھی۔جسے ن لیگ کے باغی ارکان کی حمایت بھی حاصل تھی۔وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے بعد عبدالقدوس بزنجوبظاہر تنہا نظر آرہے ہیں۔اس کے پیچھے اصل مقصد یہی نظر آرہا ہے کہ بلوچستان اسمبلی کو منصوبہ ساز کی خواہش پر ہی تحلیل کیا جائے۔تاہم، عبدالقدوس بزنجو نے واضح طور پر کہا تھا کہ وہ اسمبلی تحلیل نہیں کریں گے ۔اگر اسمبلی برقرار رہتی ہے تو ن لیگ کو سب سے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ ان کی پوری پارلیمانی جماعت ٹوٹ جائے گی ، جس کے ساتھ ہی انہیں کم از کم چار سینیٹ سیٹیوں کا نقصان بھی اٹھانا پڑے گا ، جو اسے بلوچستان اسمبلی سے مارچ میں ملنے کی امید تھی۔چوں کہ بلوچستان اسمبلی کے ارکان کی وفاداریوں کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا ، اسی لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ کون سے سیاسی جماعت اس صوبے سے کتنے سینیٹرز حاصل کرسکےگی۔