• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رات بہت اندھیری ہے اور امید کا دیا کہیں دور ، بہت دور ٹمٹما رہا ہے۔
گزشتہ ساڑھے چار برس سے اس ملک کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ عبرت کی ایک مثال ہے۔ ان ساڑھے چار برسوں میں کبھی جمہوریت پر دھرنا داغ دیا گیا ، کبھی لانگ مارچ کا نعرہ لگا دیا گیا، کبھی تحریک نافرمانی کا اعلان ہوا اور اس صریحاََ غداری پر بھی انصاف کا در ساکت جامد رہا۔کبھی سڑکیں بند کی گئیں کبھی اسمبلی پر دھاوا بول دیا گیا۔ کبھی مذہب کا کارڈ کھیلا گیا ، کبھی کرپشن کے الزامات لگے تو کبھی غداری کا طعنہ دیا گیا۔ کبھی پرانے مقدمات کی فائلیں غیب سے برآمد ہوئیں ، کبھی پاناما اس قوم کا مقدر ہوا، کبھی جمہوری وزیراعظم کو ایک خود ساختہ جے آئی ٹی کے سہارے نکال باہر کیا گیا۔ ان ساڑھے چار برسوں میں میڈیا کے چند لوگ زہر اگلتے رہے۔ اپنی تعفن زدہ سوچ سے لوگوں کے ذہن آلودہ کرتے رہے، سرعام جمہوریت کی بے توقیری کرتے رہے، آمریت کو بلک بلک کر آواز دیتے رہے۔کبھی شکریئے کی مہم چلائی گئی۔ کبھی سڑکوں پر بینر لگوائے گئے۔ ان برسوں میں روپ بہروپ بدل بدل کر سازشیں ہوتی رہیں۔کبھی طاہر القادری کے جلال میں، کبھی شیخ رشید کے کمال میں ، کبھی خادم رضوی کی ہیبت میں، کبھی مصطفی کمال کے اقبال میں اور کبھی عمران خان کی ترنگ میں نظام کو لپیٹنے کی سرتوڑ کاوشیں ہوتی رہیں۔
یہ تماشا اس ملک میں ہو رہا ہے جہاں کی تاریخ ایسی ہی ہولناک مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ فاطمہ جناح ہوں یا مجیب، بھٹو ہوں یا جونیجو بے نظیر ہوں یا نواز شریف ۔سب اس سماج میں مجرم قرار پائے گئے۔ سب غدار کہلائے گئے۔ سب پر کفر کے فتوے لگے۔ سب کو حق حکومت سے محروم کیا گیا۔ سب کرپشن میں ملوث پائے گئے۔ سب کوحکومت میں اختیار کی سزا ملی۔اس بدنصیب ملک میں 70 برس بیت گئے ، اور عوام کو حق حاکمیت نصیب نہیں ہوا۔ ووٹ کی حرمت نہیں ہوئی۔ پارلیمنٹ کا تقدس نہیں ہوا۔ الیکشن کو حل نہیں قرار دیا گیا۔ جمہوری لیڈروں کو ہیرو تسلیم نہیں کیا گیا۔ ان کی تصویریں کبھی ٹرکوں کے پیچھے نقش نہیں ہوئیں۔ ان کے کارنامے کبھی نصاب کی کتابوں میں جگہ نہیں پا سکے ۔ ان کی قربانیاں کبھی بچوں کو نہیں رٹائی گئیں۔ ان کو کوئی تمغہ نہیں دیا گیا۔ عوامی محبت کا صلہ نہیں دیا گیا۔ ان کو مرد مومن کا خطاب نہیں دیا گیا۔ ان کو کبھی سیلوٹ نہیں کیا گیا۔ ان کے فیصلوں کو اٹل کبھی نہیں سمجھا گیا۔ لعنت ملامت صرف جمہوریت اور جمہور کے نام رہی ۔ خجالت اور ذلالت سب جمہوریت اور جمہور کے نام رہی۔ اس تماشے میں مان لینا چاہئے کہ سیاست دانوں سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں۔ ہوس اقتدار نے انکو بھی اسیربنائے رکھا ہے۔ انہوں نے بھی جمہوریت کے لئے جو کام کرنے تھے نہیں کئے۔ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچیں، ایک دوسرے پر الزام لگائے، ایک دوسرے کو عدالتوں میں گھسیٹا۔ جب اسمبلیاں بنیں تو قانون سازی سے اجتناب کیا، اقتدارکی تیسری پیڑھی یعنی بلدیاتی حکومتوں تک اختیارات منتقل نہیں کئے۔ یہ سب بڑے جرم ہیں لیکن آئین کو اپنے قدموں تلے روندنے سے بڑا جرم نہیں ہے۔ ہر شرپسند سیاستدان کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ اس کے ہوس اقتدار کو شہہ دے رہی ہوتی ہے۔ بھٹو ، بھٹو نہ ہوتے اگر انہیں ایوب خان کی اشیر باد حاصل نہ ہوتی، نواز شریف ، نواز شریف نہ ہوتے اگر انہیں ضیاء الحق کی تسلیم و رضاحاصل نہ ہوتی۔بے نظیر ڈکٹیٹروں سے سمجھوتہ نہ کرتیں تو کبھی وطن واپس نہ آتیں۔ اور عمران خان ، عمران خان نہ ہوتے اگر مشرف سے ملاقاتیں نہ ہوتیں، 2002 میںمیانوالی کی سیٹ پر فتح نصیب نہ ہوتی۔دھرنا نمبر ون کے اصل کردار ان کے سر میں وزیراعظم بننے کا خناس نہ ڈالتے۔ یہ تو سیاستدانوں کا ذکر ہے اس شہہ کے بغیر تو طاہر القادری ، طاہر القادری نہ ہوتے، خادم رضوی ، خادم رضوی نہ ہوتے۔مصطفی کمال ، مصطفی کمال نہ ہوتے۔
بات اگر صرف نواز شریف کی ہوتی تو جمہوریت پسند مستقبل کے خوش کن خواب دیکھ کر مطمئن ہو جاتے۔ بات ایک حکومت کی ہوتی تو لوگوں کو صبر آجاتا۔ بات صرف ایک وزیر اعظم کی ہوتی تو لوگ چپ کر جاتے مگر اب یہ بدنما تاریخ کئی دفعہ دہرائی جا چکی ہے۔ اب یہ ظلم کئی دفعہ ڈھایا جا چکا ہے۔ اب یہ قیامت بہت دفعہ بپا کی جا چکی ہے۔ اب لوگوں کو قرار نہیں آ رہا۔ اب صبر کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔ اب ضبط کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ اب تماشابے اثر ہو چکا ہے۔ اب زہر تریاق میں بدل رہا ہے۔ گلی گلی میں شور پڑ رہا ہے ۔ بات کھل چکی ہے۔ راز عیاں ہو گیا ہے۔ اب نفرت کا سبق ہم بہت پڑھ چکے ہیں۔ اب ہزیمت کا نتیجہ ہم بہت بھگت چکے ہیں۔لعنت ملامت ہم سہہ چکے ہیں۔ اب دور بدلنا چاہیے۔ اب رواج بدلنا چاہیے۔ اب فرسودہ روایات کو ٹوٹ جانا چاہیے۔ اب کچھ نیا ہونا چاہئے۔بہت ارمان تھا کہ ایک جمہوری حکومت نے جیسے کیسے اپنی مدت مکمل کر لی ہے۔ دوسرا دور پہلے سے بہتر ہوگا۔ پھر تسلسل قائم ہو گا۔ تیسرا دور مزید ترقی کی نوید لائے۔ ملک کے حالات بہترہوں گے۔ عوام کو کوئی سکھ چین ملے گا۔ لیکن جمہوریت کی راہ میں حائل رکاوٹیں سکھ کا سانس نہیں لینے دے رہیں۔ جیسے جیسے سینیٹ کے الیکشن قریب آ رہے ہیں یوں لگتا ہے۔ زمیں پھٹ جائے گی، آسمان ٹوٹ پڑے گا۔ اس ایک ماہ میں وہ سب کچھ ہو جائے گا جو اس سنگ میل تک پہنچنے سے روکے گا۔سڑکیں بلاک کی جائیں گی۔ دھرنے دیئے جائیں گے، شہروں میں آگ لگے گی۔ استعفوں کی دھمکیاں دی جائیں گی۔ اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کیا جائے گا۔ مذہب کی بنیاد پر نفرت کوابھارا جائے گا۔ فلاح کے ہر منصوبے کی راہ میں رکاٹ ڈالی جائے گی۔ قیمتوں میں اچانک اضافہ ہوگا۔ اشیائے صرف مارکیٹ سے گم ہو جائیں گی۔ ٹینکر ہڑتال کر دیںگے ۔ ینگ ڈاکٹر سڑکوں پر ا ٓجائیں گے۔ انصاف کا در اچانک ہرسوالی کے لئے چوپٹ کھل جائے گا۔ سنسنی خیز جھوٹی خبروں سے فساد پھیلایا جائے گا۔ نفسا نفسی کی صورت حال پیدا کی جائے گی۔ بے یقینی کے بادل اور گہرے ہو جائیںگے۔لگتا ہےیہ سب کچھ ہوگا اور یہ سب کچھ ہو بھی رہا ہے۔ لیکن اگر اس سب ہڑبونگ کے باوجود سینیٹ کے الیکشن ہو گئے تو پھر عام انتخابات بھی ہوں گے اور یہ ستر سال میں پہلی دفعہ عوام کی فتح ہو گی۔ ستر سال میں پہلی دفعہ عوام کے حق حاکمیت کی جیت ہو گی۔ جمہوریت ایک پیڑھی اور چڑھے گی۔ عوام کو اپنے طاقت ور ہونے کا کچھ احساس ہوگا ۔ لیکن ابھی سینیٹ کے الیکشن میں ایک مہینہ باقی ہے اور اس ملک میں تو ایک لمحے میں جمہوریت کی بساط لپیٹ دی جاتی ہے مہینہ تو بہت وقت ہے۔ ابھی صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے۔
رات بہت اندھیری ہے اور امید کا دیا کہیں دور ، بہت دور ٹمٹما رہا ہے۔

تازہ ترین