سکھر (بیورو رپورٹ) سکھر اور گرد و نواح میں درجنوں نجی کمپنیاں متعلقہ اداروں اور ماہرین کی تصدیق کے بغیر منرل واٹر فروخت کرنے میں مصروف ہیںرجسٹرڈ اور ان رجسٹرڈ کمپنیاں شہریوں کو جو پانی فروخت کررہی ہے وہ معیاری ہے یا نہیں، اس بات کی تصدیق کرائے بغیر شہریوں کو پانی فروخت کیا جارہا ہے۔ نجی کمپنیوں کی جانب سے لگائے جانیوالے پلانٹس کی چیکنگ اور پانی کے معیار کو چیک کرنے کے لئے انتظامیہ کی جانب سے آج تک کسی بھی قسم کی کارروائی عمل نہیں لائی جاسکی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے ملک کی 24منرل واٹر کمپنیوں کے پانی کی فروخت پر پابندی تو عائد کردی گئی ہے جو کہ خوش آئند بات ہے اور عوام نے اس پابندی کو سراہا ہے مگر سکھر و گرد و نواح میں نجی کمپنیاں انتظامیہ کی عدم توجہی و لاپروائی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے متعلقہ اداروں اور ماہرین سے تصدیق کرائے بغیر پانی فروخت کرنے میں مصروف ہیں۔ سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر میں میونسپل کارپوریشن انتظامیہ کی جانب سے شہریوں کو جو پانی فراہم کیا جاتا ہے وہ پینے کے قابل نہیں ہے، وہ پانی لوگ صرف کپڑے و برتن دھونے سمیت دیگر گھریلو کام کاج کے لئے استعمال کرتے ہیں اور پینے کے پانی کے لئے مختلف علاقوں میں نصب فلٹریشن پلانٹس، ہینڈ پمپوں اور پانی کی موٹروں سے پانی بھرکر لاتے ہیں، پینے کے صاف پانی کی اس ضرورت کے پیش نظر مختلف کمپنیوں نے صاف پانی کے پلانٹس لگا کر پانی کی فروخت کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ شہر کے مختلف علاقوں میں درجنوں کمپنیاں پلانٹس کے ذریعے پانی صاف کرکے شہریوں کو فروخت کررہی ہیں، جن میں سے متعدد کمپنیاں رجسٹرڈ بھی نہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ متعلقہ کمپنیوں کی جانب سے فراہم کئے جانیوالے پانی کے متعلق یہ تصدیق نہیں کی جاسکتی کہ وہ پانی معیاری ہے یا نہیں، متعدد کمپنیاں ایسی ہیں جن کی جانب سے پانی معیاری ہونے یا نہ ہونے کی تصدیق نہیں کرائی گئی حالانکہ اس حوالے سے میونسپل کارپوریشن میں شعبہ صحت بھی موجود ہے، پانی فروخت کرنے سے قبل میونسپل کارپوریشن کے شعبہ صحت کے افسران کی جانب سے پانی کے معیاری ہونے کی تصدیق کئے جانا ضروری ہے۔مگر نہ تو کمپنی انتظامیہ کسی بھی متعلقہ ادارے یا ماہر سے تصدیق کرانے کو ضروری سمجھ رہی ہے اور نہ ہی ضلعی و میونسپل کارپوریشن انتظامیہ ان کیخلاف کسی بھی قسم کی کوئی کارروائی عمل میں لارہی ہے۔ نجی کمپنیوں کی جانب سے واٹر ورکس کی پائپ لائنوں یا پھر بورنگ کے ذریعے زیر زمین پانی حاصل کرکے اسے پلانٹس کے ذریعے صاف کرنے کے بعد فروخت کیا جارہا ہے۔ متعدد بار اس بات کی نشاندہی کی جاچکی ہیں کہ سکھر سمیت گرد و نواح میں زیر زمین بورنگ کے پانی میں آرسینک (سنکھیا) کی مقدار ضرورت سے زیادہ ہے اور فلٹریشن پلانٹس ایک خاص حد تک پانی کو آرسینک (سنکھیا) سے پاک کرتے ہیں، اس لئے یہ ضروری ہے کہ شہریوں کو فروخت کئے جانیوالے پانی کی تصدیق کرائی جائے کہ اس میں آرسینک (سنکھیا) موجود ہے یا نہیں۔ اس حوالے سے شہری و عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ شہریوں کو صاف پانی کی فراہمی یقینی بنانا میونسپل کارپوریشن انتظامیہ کی ذمہ داری ہے، اگر میونسپل کارپوریشن اپنی یہ ذمہ داری احسن انداز سے انجام دے تو پھر شہریوں کو ایسے تمام معاملات سے نجات مل سکتی ہے مگر میونسپل انتظامیہ ایک طویل عرصے سے شہریوں کو پینے کا صاف پانی فراہم نہیں کرسکی ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نجی کمپنیوں نے پانی صاف کرنے کے پلانٹس لگاکر پانی فروخت کرنا شروع کردیا ہے، متعدد کمپنیاں غیر رجسٹرڈ ہیں اور ان کمپنیوں کی جانب سے فراہم کئے جانیوالے پانی کے متعلق تصدیق بھی نہیں کرائی گئی ہے، ایسی کمپنیوں کیخلاف کارروائی نہ کئے جانا متعلقہ اداروں کے افسران کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے، عام شہری ٹیکنیکل باتوں سے لاعلم ہے اور انہیں اس بات کا اتنا احساس نہیں کہ وہ جو پانی خرید کر استعمال کررہے ہیں وہ مکمل طور پر معیاری ہے یا نہیں، لہذا انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس حوالے سے کارروائی عمل میں لائے، انہوں نے کمشنر سکھر ڈویژن ڈاکٹر محمد عثمان چاچڑ و دیگر بالا حکام سے اپیل کی کہ شہریوں کو پانی فروخت کرنیوالی کمپنیوں کے پانی کے پلانٹس چیک کئے جائیں، پانی کا جائزہ لیا جائے، جو کمپنیاں معیار پر پورا نہیں اترتی انہیں فوری طور پر بند کرایا جائے اور کمپنیوں کی انتظامیہ کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ پہلے متعلقہ اداروں یا ماہرین سے پانی کی تصدیق کرائیں اس کے بعد پانی فروخت کریں تاکہ شہریوں کو معیاری و صاف پانی کی فراہمی یقینی بنائی جاسکے۔