• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت کو اسلام دشمنی اور مسلمانوں کیخلاف نفرت کا سرعام اظہار کرنے کیلئے ایک نیا ولن مل گیا ہے. حال ہی میں بالی ووڈ کی نئی ریلیز ہونے والی فلم 'پدماوت کی وجہ سے چودھویں صدی کے سلطان علائوالدین خلجی اچانک زبان زد عام ہوگئے جن کو فلم میں ایک خونخوار بادشاہ کے روپ میں دکھایا گیا ہے جو ہندو راجواڑے چتوڑ پر صرف اس وجہ سے چڑھائی کر دیتے ہیں کہ وہ وہاں کی ملکہ رانی پدماوتی یا پدمنی کے مبینہ لا مثال حسن پر اس حد تک فریفتہ ہیں کہ وہ اس کو حاصل کرنے کیلئے کچھ بھی کرگزرنے کو تیار ہوتے ہیں. فلم میں خلجی کا یہ روپ بھارت میں موجود مسلم دشمن فضا سے نہ صرف میل کھاتا ہے بلکہ اسطرح کی کردار سازی ہندو انتہا پسندوں کی منشا کے عین مطابق ہے جو اسلام اور مسلمان دشمن فضا پیدا کرکے ہمیشہ اپنے ووٹوں میں اضافہ کرتے آئے ہیں. بھارتی راجدھانی دہلی میں واقع جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے مقتدر تاریخ دان پروفیسر آدیتہ مکھرجی نے ایک انٹرویو میں الجزیرہ کو بتایا کہ فلم کی کردار سازی سے "مجروح جذبات کی پرورش مقصود ہے جسکا واضح مقصد سیاست گری ہے".
عوام کیلئے جاری فلم کے ٹریلر میں خلجی کو ایک سرکش اور ڈرائؤنے وحشی کی صورت میں دکھایا گیا ہے جو لمبے بے ہنگم بالوں اور بے سلیقہ داڑھی کے ساتھ اونی ساخت کے کھردرے لباس میں اور بھی خوفناک نظر آتے ہیں. سلطان کے کمرے کو بھی اندر سے تاریک اور ہولناک دکھایا گیا ہے جیسے یہ کسی بادشاہ کی نہیں بلکہ ہالی ووڈ فلموں میں اکثر دکھائی جانے والی بحری قزاقوں کی رہائش گاہ ہو. اس منظر نگاری کے برعکس دہلی کے سلاطین کے محلات نفیس عمارتوں پر مشتمل تھے جن کی دیواریں خوبصورت نقش و نگار اور جواہرات سے مزین تھیں. انکے ملبوسات نفیس مخمل اور ابریشم پر مشتمل تھے جن پر دل موہ لینے والے بیل بوٹوں کی کشیدہ کاری ہوتی تھی. یہ سلاطین شائستہ اور مہذب تھے جن کے کھانے مختلف النوع اور لذیذ تھے اور یہ کہ انکے آداب خورد و نوش حد درجہ شائستہ تھے۔مگر فلم کے ایک سین میں سلطان خلجی کو وحشیوں کی طرح گوشت کے ٹکڑے پر ٹوٹ پڑتے دکھایا گیا ہے حالانکہ اس طرح کے واقعات کا حقیقت سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے. ایک بھارتی مبصر کے مطابق اس سین میں سلطان خلجی کو ماقبل تاریخ کا انسان دکھایا گیا ہے. کردار میں مزید دہشت پیدا کرنے کیلئے سلطان کو ہسٹریائی انداز میں ہنستے ہوئے دکھایا گیا ہے جیسا کہ بالی ووڈ فلموں میں ڈاکوؤں کو دکھایا جاتا ہے تاکہ ان کے کردار کو اور بھی زیادہ خوفناک دکھایا جاسکے. سلطان کی حملہ آور فوج کو سبز ہلالی پرچموں کی معیت میں دکھایا گیا ہے جو پاکستانی قومی پرچم کے ساتھ حیرت انگیز طور پر مماثل ہے. حالانکہ دہلی سلطنت کا جھنڈا گہرے سبز رنگ کا تھا جس کے بائیں طرف ایک عمودی سیاہ لکیر تھی اور جس پر ہلال کا کوئی وجود نہیں تھا۔فلم میں سلطان خلجی کی کردار نگاری نہ صرف جھوٹی ہے بلکہ تاریخی لحاظ سے اسکی مرکزی کہانی بھی گمراہ کن اور مصنوعی ہے. کہانی کی مرکزی کردار رانی پدماوتی ایک من گھڑت کردار ہے جس کا تاریخ میں کوئی وجود نہیں. ممتاز تاریخ دان پروفیسر مکھرجی کے مطابق رانی پدماوتی ایک شاعر کے تخیل کی پروردہ ہے جس کے بارے میں کسی قسم کی تاریخی شہادت موجود نہیں ہے. فلم کے ڈائریکٹر سنجے لیلا بھنسالی کا دعویٰ ہے کہ کہانی چودھویں صدی کے صوفی شاعر ملک محمّد جائسی کی رزمیہ 'پدماؤت پر مبنی ہے. مگر بھارت کے نامور دانشور اور کئی ایوارڈ یافتہ تاریخی کتابوں کے مصنف اور فکشن رائٹر اماریش مشرا اس دعوے کو سختی سے رد کرتے ہیں. مشرا جو خود بھی بالی ووڈ کیساتھ منسلک ہیں اور فلم بلیٹ راجہ کے مصنف ہیں کےمطابق جائسی کا خلجی ایک شریف النفس کردار ہے جو کسی فریبی وہم کا شکار ہے جبکہ بھنسالی نے خلجی کو ایک بےرحم اور خونخوار مسلمان کے روپ میں دکھایا ہے. مستند تاریخی حوالوں کی روشنی میں مشرا خلجی کو بھارت کا وہ پہلا حکمران قرار دیتے ہیں جنھوں نے ملک کو جدید خطوط پر استوار کیا. انھوں نے زرعی زمینوں کی پیمائش کےساتھ ساتھ حکومت اور کسانوں کے درمیان بلا توسط روابط قائم کئے اور ماپ طول کا معیاری نظام بنایا۔
اماریش مشرا کے مطابق فلم کا خلجی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک انگریز ملازم جیمز ٹوڈ کے خاکے پر مبنی ہے. مشرا ٹوڈ کو ایک بہروپیا نوآبادکار قرار دیتے ہیں جن کا بنیادی مقصد ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان منافرت پھیلانا تھا. ٹوڈ نے خلجی اور پدماوت کی خیالی کہانی کو اپنی کتاب ' میں ایک مستند تاریخی واقعے کی صورت بیان کیا ہے. کتاب کی اشاعت کے فوراََ بعد ان کو کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ایک تبصرہ نگار کےمطابق "مصنف نے رزمیوں اور جذباتی گیتوں پر نامناسب حد تک تکیہ کیا ہے". خود اپنی کتاب کی تمہید میں ٹوڈ لکھتے ہیں: "شعراء کا مقام مغربی ہندوستان کے تاریخ دانوں میں نہایت اہم ہے". لگ بھگ ایک صدی بعد انگریز مفکر ولیم کروک نے کتاب کو از سرنو مدون کیا. انھوں نے ٹوڈ کو تربیت یافتہ اسکالر کے برعکس ایک اتائی قراردیا جو کھلم کھلا ہندو راجپوتوں کی طرفداری کرنے میں کافی بدنام تھے. کروک کے بموجب ٹوڈ کی بیشتر غلطیوں کی وجہ انکا برہمن پنڈتوں پر حد سے زیادہ انحصار تھا. مصنف کی علمی کم مائیگی کی بنا پر انکے کام کو کسی قسم کی تحسین نہیں مل سکی۔
اماریش مشرا پدماوت کو ملک دشمن اور مسلمان مخالف فلم قرار دیتے ہیں جو ہندو شدت پسندوں کے نظریات کی ترجمانی کرتی ہے. انھوں نے مجھے بتایا کہ اصل مسئلہ خلجی کو ایک برے مسلمان کی شکل میں پیش کرنا ہے جس کے مقابل راجپوتوں کو اچھے ہندوؤں کی حیثیت میں دکھایا گیا ہے. وہ فلم ڈائریکٹر بھنسالی پر ہندو شدت پسند نظریات کی ترویج کا الزام لگاتے ہوئے کہتے ہیں : "سنگھ پریوار کے شدت پسند بھنسالی کی کردار سازی سے کافی خوش ہیں کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ اس سے مسلمان مخالف جذبات کو تقویت ملے گی". مشرا اس سلسلے میں بھی متفکر ہیں کہ فلم کیخلاف پر تشدد مظاہرے کسی بھی وقت مسلم کش فسادات میں تبدیل کئے جاسکتے ہیں. پروفیسر مکھرجی بھی یہ اعتراف کرتے ہیں کہ فلم کی کہانی کو لیکر ایک مسلم مخالف بیانیہ تشکیل دیا جارہا ہے جس میں مسلمانوں کو مجرم کے طور پر پیش کیا جارہا ہے. بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس نے فلم کے بارے میں ایک حالیہ تبصرے میں لکھا: "فلم کسی بلند تخیل سے ماورا ہے اور بھنسالی کی برے مسلمان اور اچھے ہندو کی کردار سازی اتنی واضح ہے کہ اس سلسلے میں کوئی بات چھپی نہیں رہتی کہ وہ کس قسم کی سیاست کیساتھ قرب کے متمنی ہیں"۔
پس نوشت:
ہندو شدت پسند جماعت 'کرنی سینا جو فلم پر مکمل پابندی کی حامی ہے اور فلمسازوں کے درمیان ثالث کی حیثیت سے کام کرنے والے سریش چوہانکے کو فلم ایک خصوصی نمائش کے دوران دکھائی گئی. اسکے فورا بعد چوہانکے نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ فلم میں خلجی کا نقشہ اور کردار سازی اطمینان بخش ہے. انھوں نے اس کامیابی کا سہرا راجپوتوں کی جدوجہد کو قرار دیا. حیرت انگیز طور پر پدماوت کےبارے میں پاکستانی سنسر بورڈ کے خیالات ہندو شدت پسند گروہوں سے کافی ملتے ہیں. بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس کے مطابق بورڈ نے فلم کو پاکستان میں نمائش کیلئے پاس کردیا ہے. اخبار نے پاکستانی سنسر بورڈ کے اعلیٰ اہلکار مبشر حسن کا حوالہ دیا جنھوں نے کہا کہ ’’فلم کسی کانٹ چھانٹ کے بغیر نمائش کیلئے موزوں ہے‘‘۔

تازہ ترین