شاعر نے تو کہا تھا
خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے
لیکن میرے آج کے کالم میں صورتحال اس سے مختلف ہے۔ مولانا فضل الرحمن سے ہم میڈیا والے بہت لبرٹی لیتے رہتے ہیں۔ کالموں میں ان سے چھیڑ چھاڑ ہوتی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا پر ان کے کارٹون چلتے ہیں لیکن مولانا نے کبھی ان باتوں کا برا نہیں مانا چنانچہ آج ان سے گلہ نہیں بلکہ ان کی مدح کرنے کو جی چاہ رہا ہے۔ نہ صرف یہ کہ مولانا ان سب شرارتوں اور شوخیوں کو خود نظر انداز کرتے ہیں بلکہ ان کی جماعت کے کسی فرد نے بھی اس کے جواب میں کبھی کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ مجھے صرف ایک ردعمل یاد ہے۔ میں نے مولانا کے بارے میں ایک کالم لکھا اور میں تسلیم کرتا ہوں کہ اس کالم میں میرا ہاتھ خاصا بھاری ہو گیا تھا یہ چیز خود میرے مزاج کے بھی خلاف ہے، چنانچہ کالم کی اشاعت پر ایک احتجاج تو خود میرے ضمیر نے کیا اور دوسرا احتجاج مولانا اجمل خاں اور ان ہی کے فرزندِ ارجمند مولانا امجد خاں کی طرف سے ایک ٹیلی فون کال کی صورت میں موصول ہوا اور وہ بھی اس لئے کہ اس خاندان کے ساتھ ہمارے دیرینہ قلبی تعلقات ہیں۔ مولانا اجمل خاں میرے والد ماجد کے دوست تھے اور یوں مولانا امجد کا پیار بھرا احتجاج بھی جماعتی نہیں ذاتی نوعیت کا تھا!
مولانا فضل الرحمن کو سیاست اور دین کا علم وراثت میں ملا ہے۔ پاکستان کے کچھ علاقوں میں مولانا کا ووٹ بینک خاصا معقول ہے، چنانچہ ایک طرف سیاسی طاقت ہو، دوسری طرف دین کے حوالے سے تقدس کا جامہ بھی زیب تن ہو تو اختلاف کرنے والوں یا شوخ و شنگ جملوں اور کارٹونوں کے جواب میں اس دو دھاری تلوار سے کام لیا جا سکتا ہے۔ مولانا اور ان کے پیروکاروں کے لئے بہت آسان ہے کہ وہ مولانا پر کسے جملے کو دین پر حملہ قرار دیں اور پھر اس کے بعد ان کے پیروکار اخبارات اور چینلز پر چڑھ دوڑیں لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا، نہ صرف یہ کہ ایسا کبھی نہیں ہوا بلکہ جب کبھی مولانا سے ملاقات ہوتی ہے اور یہ ملاقات ONCE IN A BLUE MOON ہوتی ہے تو اتنی کشادہ دلی اور خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ ملتے ہیں کہ مجھے ان کے بارے میں اپنے کالموں کے طنز و مزاح پر مبنی جملے زہر لگنے لگتے ہیں۔ مجھے یہ تو علم نہیں کہ مولانا فضل الرحمن کو دینی علوم پر کس درجہ دسترس حاصل ہے۔ یہ فیصلہ تو علماء ہی کر سکتے ہیں لیکن سیاست کا شناور ان کے مقابلے کا شاید کوئی اور نہیں انسان کو ”سوشل اینیمل“ کہا جاتا ہے اور یوں مولانا اگر اجازت دیں تو انہیں ”پولیٹیکل اینیمل“ قرار دیا جا سکتا ہے۔ مولانا کو میں ایک سیاسی گرو سمجھتا ہوں۔ وہ کمزور سے کمزور موقف کا دفاع اس خوبصورتی سے کرتے ہیں کہ سوال کرنے والا سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ کہیں اس کا سوال غلط تو نہیں تھا؟ ایک ٹی وی پروگرام میں ایک اینکر نے ان سے نہایت سخت سوال کیا۔ ان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو وہ غصے سے لال پیلا ہو جاتا۔ وہ اگر صبر سے بھی کام لیتا تو اس کے پیروکار سوال کرنے والے پر گالیوں کی بوچھاڑ کر دیتے لیکن آفرین ہے مولانا پر اور ان کے چاہنے والوں پر کہ مولانا کے معمولی سے ردِ عمل کے علاوہ اور کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
مولانا فضل الرحمن کے علاوہ دوسری سیاسی جماعتوں کے منجھے ہوئے سیاستدان بھی خاصے صبر و تحمل سے کام لیتے ہیں۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، اے این پی اور اب کچھ عرصے سے ایم کیو ایم میں بھی برداشت کا مادہ نظر آ رہا ہے لیکن مولانا فضل الرحمن کے مقابلے میں اگر کسی اور سیاست دان کو لایا جا سکتا ہے تو وہ چودھری شجاعت حسین ہیں۔ ان کی کیسی کیسی پیروڈیز نہیں کی جاتیں۔ مگر مجال ہے کبھی ان کے ماتھے پر شکن نظر آئے۔ دراصل چودھری شجاعت حسین بھی مولانا فضل الرحمن کی طرح سیاست کے اسکول کے ہیڈ ماسٹر ہیں چنانچہ وہ جانتے ہیں کہ اگر کسی بات پر چڑا جائے تو وہ مستقل ”چھیڑ“ بن جاتی ہے اور یوں چودھری صاحب ہر بات ہر وقت ”مٹی پاؤ“ کے اصول پر عمل کرتے نظر آتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ ہمارے پاکستان کی سیاست میں جہاں بہت سی ”بدعتوں“ نے جنم لے لیا وہاں برداشت کے معاملے میں ہماری سیاست کافی بہتر کردار کی حامل ہے۔ ٹی وی پر جو سیاستدان آپس میں لڑتے جھگڑتے نظر آتے ہیں وہ پروگرام ختم ہوتے ہی باہم شیر و شکر ہو جاتے ہیں۔ کاش ایک دن ایسا بھی آئے کہ یہ سب لوگ ایک قومی ایجنڈے پر متفق ہو جائیں جس پر ہر آنے والی حکومت عمل کرنے کی پابند ہو اور یوں پالیسیوں کا تسلسل جاری رہے تاکہ قائد کا پاکستان اپنی اصلی اور نکھری ہوئی صورت میں ہمارے سامنے آ سکے!