گزشتہ دنوں میں دبئی (متحدہ عرب امارات) جنرل (ر) پرویز مشرف کے انٹرویو کے سلسلے میں گیا ہوا تھا۔ جنرل (ر) پرویز مشرف دبئی میں آتے جاتے رہتے ہیں، دبئی میں ان کے ساتھ ملاقات کئی لحاظ سے اہمیت کی حامل تھی۔ ایک تو یہ کہ انہوں نے پاکستان آنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ میاں نوازشریف ان کے خلاف عدالتوں میں بھی جاسکتے ہیں اور ہوسکتا ہے سری لنکا سے پاکستان واپس آنے کے دوران جو کچھ بھی جنرل (ر) پرویز مشرف کے ساتھ ہوا تھا اس کا بھی ازسرنو جائزہ لیا جائے گا تاہم جنرل صاحب ان سب کا مقابلہ کرنے کے لئے ذہنی طور پر تیار ہیں۔انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ ایک خاص قسم کے تعصب کے پردے میں ان کے ساتھ اخباروں میں بہت کچھ اچھالا جائے گا لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ پاکستانی قوم صوبائیت اور فرقہ پرست کے طور پر اتنا ڈوب چکی ہے کہ خود اس کا ایک آزاد وجود خطرے میں پڑگیا ہے۔ چنانچہ جب وہ جنوری کے مہینے (مارچ نہیں) میں پاکستان آئیں گے تو ان کے دشمنوں کی ایک نئے انداز سے صف بندی ہوگی جو اس ملک کی بربادی اور تباہی کا بھی موجب بن سکتی ہے لیکن وہ مقابلہ کریں گے اور ان کو کرنا چاہئے تاکہ عوام کو یہ معلوم ہوسکے کہ موجودہ جمہوری دور میں وہ زیادہ سکھی ہیں اور محفوظ ہیں یا پھر جنرل صاحب کے زمانے میں۔ چنانچہ میں نے ان سے پہلا سوال میمو گیٹ سے متعلق کیا انہوں نے کہا کہ اس کی مکمل تحقیقات ہونی چاہئے کیونکہ یہ معاملہ پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری کے حوالے سے انتہائی اہم ہے، میرا خیال ہے کہ پاکستان کا امریکہ میں سفیر (اب سابق) حسین حقانی اس میں ہر لحاظ سے شامل ہے، یہ شخص انتہائی ambitious ہے اور اپنے ذاتی مفاد ات اور مقاصد کیلئے سب کچھ کرسکتا ہے۔ اس نے آصف زرداری کو خوش رکھنے اور اپنی سفارت کو برقرار رکھنے کیلئے یہ سازش تیار کی ہے جس میں صدر صاحب کو بھی بری الذمہ نہیں قرار دیا جاسکتا۔ دراصل پاکستان سے جن ممالک کے سیاسی و معاشی تعلقات اچھے نہیں ہیں، ان کا مقصد صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ پاکستان کی فوج کو متنازع بنادیا جائے اور اس کو ا تنا کمزور کردیا جائے کہ وہ پاکستان کے دفاع کے قابل نہ رہ سکے۔ اس کے علاوہ ہمارے نیوکلیئر اثاثے ہیں یہ اثاثے پاکستان کی سالمیت سے جڑے ہوئے ہیں۔ اگر پاکستان کے پاس ایٹمی ہتھیار نہیں ہوتے تو بھارت کبھی کا پاکستان کو مزید ٹکڑے ٹکڑے کردیتا۔ میمو گیٹ میں باضابطہ طور پر ان اثاثوں پر قبضے کی بات کی گئی ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں کہ کیا موجودہ حکومت جو جمہوریت کے نام پر اقتدار پر براجمان ہوئی ہے، اس کی کارکردگی کو کس طرح دیکھتے ہیں؟ جنرل صاحب مسکرائے اور کہنے لگے کہ پاکستان کے عوام سے پوچھ لیں، وہ کیا کہہ رہے ہیں؟ وہ کس مصیبت میں گرفتار ہوچکے ہیں؟ اخبارات میں کوئی لکھنے والا حکومت کی تعریف نہیں کررہا ہے۔ ہر ادارہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، کیا یہ حکومت ہے؟ بلکہ حکومت کا وجود کہیں بھی نہیں ہے۔ اب تو بے حسی کا یہ عالم ہے کہ عوامی احتجاج پر حکومت کی طرف سے کوئی ردعمل نہیں ہوتا ، میرے دور میں ایسا نہیں تھا میری حکومت بھی نمائندہ حکومت تھی۔ ہم نے معاشی شعبے میں ایسا کام کیا ہے کہ لوگ اب موجودہ افراتفری کے عالم میں ہم ہی کو یاد کررہے ہیں۔ تعلیم کے شعبے میں پاکستان کی تاریخ میں اتنا پیسہ کبھی مختص نہیں کیا گیا جو میرے دور میں کیا گیا۔ سیکڑوں باصلاحیت نوجوانوں کو دنیا کی معروف یونیورسٹیوں میں حکومت کے خرچ پر مزید اعلیٰ تعلیم کیلئے بھیجا گیا ہے۔ اس سے پہلے اعلیٰ تعلیم کے سلسلے میں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ تو کیا پھر اس کو حکومت کو فارغ کردیا جائے؟ میں نے پوچھا۔ یہ پارلیمنٹ کا کام ہے اور ان سیاستدانوں کا جو پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے ہیں، ہر قسم کی کرپشن میں ملوث ہیں۔ اگر عوام اور خواص دونوں اس صورتحال سے مطمئن ہیں تو پھر ملک کا خدا ہی حافظ ہے۔ امریکہ سے پاکستان کے تعلقات بگڑ چکے ہیں، آپ ان بگڑے ہوئے تعلقات پر کیا تبصرہ کریں گے؟ آپ نے صحیح نشان دہی کی ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات اچھے نہیں ہیں، امریکہ موجودہ کمزور حکومت کو دباؤ میں رکھ کر مزید فائدے اٹھانا چاہتا ہے، جو کہ نہیں ہونا چاہئے اگر امریکہ کے دہشت گردی کو روکنے کے حوالے سے کچھ مفادات ہیں تو پاکستان کے بھی ہیں! پاکستان اپنی خودمختاری اور بقاء کی خاطر وہ کچھ نہیں کرے گا جو امریکہ چاہتا ہے مثلاً امریکہ کا یہ الزام کہ پاکستان حقانی گروپ کے ساتھ ملکر افغانستان کے اندر نیٹو اور امریکی فوج کے خلاف حملے کرارہا ہے، یہ لغو اور بے بنیاد بات ہے۔ حقانی گروپ مشرقی افغانستان میں قیام پذیر ہے، وہ شمالی وزیرستان میں نہیں ہے اور نہ ہی اس کے پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے ساتھ تعلقات ہیں۔ حقانی گروپ طالبان شوریٰ کی ہدایت پر کام کرتا ہے، پاکستان کی ہدایت پر نہیں۔ امریکہ سے میں نے بہت پہلے کہا تھا کہ آپ طالبان کو فوجی طاقت سے ختم نہیں کرسکتے، اس کا سیاسی حل تلاش کرنا چاہئے، جو اب امریکہ کررہا ہے لیکن جب تک کرزئی افغانستان کا صدر رہے گا، طالبان کے ساتھ مذاکرات کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ طالبان امریکہ اور کرزئی کے خلاف بیک وقت جنگ کررہے ہیں۔ فی الحال اس جنگ کے مکمل خاتمے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل ایران پر حملہ کرسکتا ہے اور اس کا نیوکلیئر پروگرام تباہ کرسکتا ہے؟ مجھے اخبارات کے ذریعے اسرائیل کے ایران کے خلاف عزائم کا پتہ چلتا رہتا ہے۔ اسرائیل ازخود یہ خطرناک کام نہیں کرے گا، اگر اس کو امریکہ کی حمایت حاصل نہ ہو۔ فی الحال امریکہ یہ فرنٹ نہیں کھولنا چاہتا تاہم اگر اسرائیل نے ایسا کردیا تو یہ پورا خطہ ایک بھیانک جنگ میں ملوث ہوسکتا ہے جس کے براہ راست اثرات پاکستان پر بھی پڑسکتے ہیں۔ ایرانی ایک نڈر اور بہادر قوم ہے، وہ اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، روس، چین، لبنان اور شام ایران کے دوست ہیں۔ وہ جنگ کی صورت میں ایران کا ساتھ دیں گے۔ بہرحال ایران کے ساتھ مذاکرات کا دروازہ نہیں بند ہونا چاہئے۔