اسلام آباد (نمائندہ جنگ) پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاس میں انکشاف کیا گیا ہے بجلی کے لائن لاسز کی وجہ سے ملک کو 213 ارب روپے کے نقصان کا سامنا ہے،، سب سے زیادہ لائن لاسز پیسکو میں 32.6فیصد ہیں اور بجلی چوری میں سکھر الیکٹرک پاور کمپنی سب سے آگے ہے ،پبلک اکائونٹس کمیٹی نے وزارت توانائی (پاور ڈویژن) سے سردی اور گرمی میں لائن لاسز اور بجلی چوری سے متعلق رپورٹ طلب کر لی،بدھ کے روز خورشید شاہ کی زیر صدارت پی اے سے کے اجلاس میں سیکرٹری پاور ڈویژن اور پیپکو حکام نے بجلی کے ترسیلی نقصانات اور چوری پر بریفنگ دی۔ پی اے سی کو بتایا گیا کہ ملک میں بجلی کے صارفین کی تعداد 2 کروڑ 62 لاکھ ہے ،جن میں سے گھریلو صارفین کی تعداد 86 فیصد ہے جو 50 فیصد بجلی استعمال کرتے ہیں، کمرشل صارفین کی تعداد 11 فیصد اور بجلی کا استعمال ساڑھے سات فیصد ہے۔ ایک اعشاریہ 3 فیصد صنعتی صارفین 24 فیصد بجلی استعمال کر رہے ہیں،۔ پیپکو حکام نے بریفنگ میں بتایا کہ ملک میں بجلی کے مجموعی ترسیلی نقصانات 213 ارب روپے سے زائد ہیں۔ اسوقت سب سےزیادہ نقصانات پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی میں 32 اعشاریہ 6 فیصد ہیں، پیسکو میں اسوقت بجلی چوری 11 اعشاریہ 65 فیصد ہے۔ سکھر الیکٹرک پاور کمپنی میں نقصانات 37 اعشاریہ 9 فیصد اور بجلی چوری 18 اعشاریہ 57 فیصد ہے۔ حیدرآباد الیکٹرک سپلائی کمپنی کے نقصانات 30 اعشاریہ 6 فیصد بجلی چوری 12 اعشاریہ 14 فیصد ہے۔ کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی کے مجموعی نقصانات 23 اعشاریہ 1 فیصد اور بجلی چوری 1 اعشاریہ 8 فیصد ،لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی کے لائن لاسز 13.8فیصد جس میں سے 1.1ٹرانسمیشن لاسز اور 12فیصد ٹرانسمیشن اینڈ ٹیکنیکل لاسز ہیں، پیپکو حکام نے بتایا کہ پیسکو کے لائن لاسز 48 ارب روپے میپکو میں 30 ارب، لیسکو میں 34 ارب روپے کے نقصانات ہیں۔حیسکو میں مجموعی نقصانات 19 ارب 69 کروڑ روپے جبکہ سکھر الیکٹرک پاور کمپنی کے نقصانات 20 ارب 41 کروڑ روپے ہیں۔ اجلاس کے دوران چیئرمین پی اے سی خورشید شاہ نے کہا کہ تکنیکی نقصانات کا بوجھ عوام پر کیوں ڈالا جاتا ہے، ادارے اپنی نا اہلی کا بوجھ عوام پر نہ ڈالیں، 15 سال میں یہ نقصانات کم کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔این این آئی کے مطابق شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ محکمہ کی نااہلی کی قیمت صارفین ادا کررہے ہیں۔ خورشید احمد شاہ نے کہاکہ پی اے سی نے عوام کے مفادات کا تحفظ یقینی بنانا ہے۔ سال میں 500 ارب کے نقصانات دکھاتے ہیں، یہ رقم عوام ادا کرتے ہیں جبکہ یہ نقصانات واپڈا کی نااہلی کی وجہ سے ہو رہے ہیں،اےپی پی کے مطابق پی اے سی نے ملک کی تمام تقسیم کار کمپنیوں سے گھریلو صارفین کی طرف سے بجلی چوری کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ 66 کے وی کے فرسودہ گرڈ اسٹیشنوں کو ایک سال میں ختم کیاجائے۔ پورے ملک میں 220 کے وی اور 500 کے وی کے گرد اسٹیشن ہونے چاہئیں۔ نیٹ میٹرنگ کے حوالے سے ایم ڈی پیپکو مصدق احمد خان نے بتایا کہ لوگوں میں اس حوالے سے ابھی شعور نہیں ہے۔ بعض مشکلات کی وجہ سے یہ سکیم مقبول نہیں ہو سکی۔ اب حکومت نے سارے فریم ورک پر نظر ثانی کر دی ہے۔ چین کے پینل کا معیار ٹھیک نہیں تھا۔ اب فیصلہ ہوا ہے کہ پورے ملک میں نیٹ میٹر متبادل توانائی بورڈ کے پری کوالیفائیڈ وینڈر ہی لگا سکیں گے۔ ڈسٹری بیوشن کمپنی کے اندر نیٹ میٹرنگ کے حوالے سے اس ڈی اوز تعینات کردیئے گئے ہیں۔ اگر وینڈر کسی صارف کو غیر معیاری نیٹ ورک لگا کے دے گا تو اس کی بینک گارنٹی ضبط ہو جائے گی اور وہ بلیک لسٹ ہو جائے گا۔نئے فریم ورک کے تحت اس کام کے لئے 30دن کا وقت مقرر کیاگیا ہے۔ نیٹ میٹرنگ کے لئے ملک بھر سے جمع ہونے والی درخواستوں کی آن لائن ٹریکنگ ہوگی۔ انہوں نے کہاکہ ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے سمارٹ میٹرنگ کے لئے ایک ارب کا قرضہ منظور ہوا تھا اور یہ میٹر 10سال میں لگنے تھے۔ یہ میٹر صرف ایک تہائی ملازمین کے لئے لگے تھے۔ یہ منصوبہ ختم کردیا گیا۔ اب حکومت اے ایم آئی سٹیم لگانے کے لئے نجی شعبے کے ذریعے منصوبہ بندی کررہی ہے۔