جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومت کے باغی مخدوم جاوید ہاشمی کو مقدمہ بغاوت میں پچیس سال قید بامشقت کی سزا ہوئی تو مسلم لیگ کے قائمقام صدرا ور مخدوم رشید کے سپوت کی عبوری مقبولیت آسمانو ں کو چھونے لگی، دوست دشمن سب نے ہاشمی کی بہادری کی تعریف کی اور حکومت کی سنگدلی و حماقت پر نفرین بھیجی۔ ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے اور یوں محسوس ہوا کہ موثر احتجاجی تحریک فوجی آمریت کی بنیادیں ہلا دے گی مگر اچانک بریک سی لگ گئی۔ ایک مسلم لیگی ر کن اسمبلی (بخدا خواجہ سعد رفیق نہیں) سے پوچھا برادر! ماجرا کیا ہے؟ ادھر ادھر دیکھ کر افسردہ لہجے میں بولے ”فون آگیا تھا جاوید ہاشمی کو ہیرو بنانے کی ضرورت نہیں۔ یہ ایسٹبلشمنٹ کی چال لگتی ہے“۔
میاں نواز شریف نے جدہ روانگی سے قبل راجہ ظفر الحق اور دیگر کئی سینئر تجربہ کار اور وفادار ساتھیوں کی موجوگی میں جاوید ہاشمی کو قائمقام صدر نامزد کیا تو مجھے حیرت ہوئی ، کابینہ کے رکن کے طور پر ہاشمی وزیراعظم کے پانچ پیاروں میں شامل نہ تھے اور علیحدگی میں چند منٹ ملاقات کے لئے ترستے تھے۔ ہاشمی صاحب کے بہنوئی برادرم اقبال ہاشمی سے پوچھا کہ ”میاں صاحب اچانک ہاشمی صاحب پر مہربان کیوں ہوں گئے“ جواب دلچسپ تھا ”ہاشمی سے زیادہ سادہ لوح پارٹی میں کوئی دوسرا کہاں؟ جو بھاگ دوڑ کرے گا، مار کھائے، جیل جائے اور امانت میں خیانت نہیں کرے گا“۔
اڈیالہ جیل میں مخدوم یوسف رضا گیلانی اور جاوید ہاشمی اکٹھے تھے جب بھی ملاقات کے لئے جانے کا موقع ملا گیلانی صاحب کو ملنے والوں کا تانتا بندھا دیکھا۔ ہاشمی صاحب کے بارے میں احکامات تھے کہ کوئی ملنے نہ پائے، یہ احکامات اکیلے جنرل پرویز کی طرف سے نہیں شریف برادران کے یار نما وفاقی قائدین کی طرف سے بھی جاری ہوئے تھے۔ ایک بار اڈیالہ جیل میں دوران ملاقات ہاشمی صاحب کی صاحبزادیوں آمنہ ہاشمی اور جویریہ ہاشمی نے میری اہلیہ سے کہا ”مسلم لیگی قائدین اور کارکن ابو کو اڈیالہ جیل بھیج کر بھول گئے ہیں“ میمونہ ہاشمی، زاہد بہار ہاشمی اور مختار شاہ مرحوم طارق عزیز کو ساتھ لے کر جیل اور کچہری کے دھکے کھاتے رہے۔ کوٹ لکھپت جیل میں بھی یہی حال تھا، خواجہ سعد رفیق، زعیم قادری، ڈاکٹر اسد اشرف، ناصر اقبال خان، خواجہ عامر رضا اور جاوید لطیف ملا کرتے کسی اور مقامی مسلم لیگی کو کم ہی توفیق ہوئی ، کھانا البتہ میاں صاحب کے گھر سے آیا کرتا تھا ۔
یوسف رضا گیلانی کو اڈیالہ جیل میں رہنے کا صلہ پارٹی اور آصف علی زرداری نے وزارت عظمیٰ کے اعلیٰ منصب کی صورت میں دیا۔ امریکہ اور فوجی جرنیل کی خواہشات اور دباؤ کے باوجود محترمہ بے نظیر بھٹو نے وطن واپسی اور جمہوری جدوجہد کا فیصلہ کیا، مسلم لیگ (ق) کی بجائے مسلم لیگ (ن) سے تجدید تعلقات کو ترجیح دی اور امریکہ و ایسٹبلشمنٹ کی بجائے عوام پر انحصار کیا تو انہیں بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔ زندہ رہتیں تو وزارت عظمیٰ کی بجائے کوئی دوسرا بڑا منصب یوسف رضا گیلانی کو سونپا جاتا مگر جاوید ہاشمی کوٹ لکھپت جیل سے چھوٹے تو ”چھٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا“ کی کیفیت تھی۔ رہائی پر ان کے استقبالی جلوس کو بھی پسند نہ کیا گیا۔ پتہ چلا کہ اب پارٹی کو باغیوں کی نہیں چودھری نثار علی خان اور اسحق ڈار جیسے مصلحت پسندوں اور مصالحت کاروں کی ضرورت ہے جو مسلم لیگ (ن) اور ایسٹبلشمنٹ کے مابین پل کا کردار ادا کرسکیں۔
یوسف رضا گیلانی کی پہلی کابینہ میں شمولیت کے مرحلہ پر مسلم لیگ کی فہرست میں جاوید ہاشمی کا نام درج نہ تھا۔ وضعدار اور خودار جاوید ہاشمی نے احتجاج کرنے کی بجائے یہ بیان دے کر اپنا اور قیادت کا بھرم رکھ لیا کہ وہ ایک فوجی جرنیل سے حلف نہیں لیں گے، کسی کو کیا بتائے کہ پانچ سالہ قید وبند کے صلے میں وہ چند روزہ وزارت کے حقدار نہیں۔ بعد ازاں انہیں پارلیمانی اور اپوزیشن لیڈرکے قابل بھی نہ سمجھا گیا حالانکہ سپیکر فہمیدہ مرزا نے یہ سوچ کر مسلم لیگ کے قائمقام صدر ہی مسلم لیگ ن کے پارلیمانی ہوں گے انہیں ابتدائی خطاب کی دعوت بھی دے ڈالی تھی۔
پرویز مشرف کی رخصتی پر صدارتی امیدوار کی نامزدگی کا مرحلہ آیا تو چودھری شجاعت حسین نے پیشکش کی کہ آصف علی زرداری کے مقابلے میں میاں نواز شریف خود سامنے آئیں یا جاوید ہاشمی کو امیدوار نامزد کریں۔ سینٹ، قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں ہمارے سارے ووٹ ان کے ہوئے۔ چودھری شجاعت حسین آج تک حیران ہیں کہ میاں صاحب نے یقینی کامیابی کی یہ فراخدلانہ پیشکش کیوں قبول نہ کی ۔ مخالفین کا دعویٰ ہے کہ میاں صاحب دس سالہ پابندی کی وجہ سے خود امیدوار بن نہیں سکتے تھے اور جاوید ہاشمی کواس قابل نہ سمجھا۔ کچھ آصف علی زرداری کی تازہ تازہ دوستی کا پاس لحاظ بھی تھا ورنہ ان کے کاغذات نامزدگی جسٹس (ر) سعید الزمان صدیقی سے ضرور چیلنج کرائے جاتے۔
جاوید ہاشمی نے تحریک انصاف میں شمولیت کا فیصلہ کرکے مسلم لیگ (ن) کو ادھ موا کر دیا ہے۔ مسلم لیگی لیڈر لاکھ کہیں کہ ایک شخص کے جانے سے فرق نہیں پڑتا مگر جاوید ہاشمی ایک شخص نہیں ایک تحریک، ایک انجمن، ایک ادارہ اور جمہوری جدوجہد، جرأت، بہادری کا ا ستعارہ ہے۔ سیاسی ساکھ اور اعتبار کا پہاڑ، آخری روز بیگم کلثوم نواز نے انہیں منانے کی جو کوشش کی وہ شلجموں سے مٹی جھاڑنے کے مترادف تھی۔ مومنہ ہاشمی کی شادی میں شریف برادران کے علاوہ بیگم کلثوم نواز نے شرکت نہ کرکے دیرینہ تعلقات اور وضعداری کی حقیقت عیاں کر دی تھی جس کے بعد ہاشمی کو کوئی خوش فہمی لاحق نہیں رہی۔
ایک ایک کرکے لوگ جانے لگے تو مسلم لیگ کے پاس خوشامدیوں، مفاد پرستوں اور ”جھولی چکوں“کے سوا کچھ نہیں بچے گا۔دس اوور کے میچ میں عمران خان نے وننگ چھکا لگایا ہے، چالیس سال تک سول اور فوجی آمریتوں سے لڑنے، مقدمہ بغاوت کا مقابلہ کرنے والے جاویدہاشمی کی تحریک انصاف میں شرکت نے اس پارٹی اور عمران خان پر لگنے والا یہ الزام ختم کر دیا کہ اس کی بااثر سیاستدانوں میں مقبولیت، ایسٹبلشمنٹ کی اختراع اور مرہون منت ہے۔مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادت بسم اللہ کے گنبد میں بند رہی اور اپنے اپنے دل شکستہ، ازردہ اور زخم خوردہ لیڈروں، کارکنوں کی دلجوئی نہ کر پائی تو سارے باغی عمران خان کے اردگرد نظر آئیں گے۔پرجوش نوجوان، زور دارانہ فلک شگاف نعرے، والہانہ پذیرائی، تبدیلی کے دعوے اور دل کھول کر بات کرنے کی آزادی! جاوید ہاشمی کو اور کیا چاہئے یہ تو ایک ایسا ٹانک ہے جو چند دنوں میں اسے پھر سے جوان کردے گا۔