• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دبئی میں 7 ہزار سے زائد پاکستانیوں کی 1100 ارب کی جائیدادیں

Over 7000 Pakistanis Illegally Purchased Properties Worth Rs11 Trillion In Dubai

جیو نیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے پروگرام کے میزبان شاہزیب خانزادہ نے دبئی میں پاکستانیوں کی جائیداد اور اثاثوں کے حوالے سے اپنا تجزیہ اور تحقیقاتی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہزاروں پاکستانیوں نے دبئی میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے، کروڑوں روپے کی جائیدادیں ہیں، بینک اکاؤنٹس میں کروڑوں روپے موجود ہیں لیکن متعلقہ ادارے ان باتوں سے بے خبر ہیں، کوئی کارروائی نہیں کی گئیں، جو تحقیقات ہوئی ہیں وہ بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ 7000؍ ہزار سے زائد پاکستانیوں کی 1100؍ ارب روپے کی دبئی میں جائیدادیں ہیں، ان میں سیاست دان، ریٹائرڈ جرنیل، سابق ججز، بیوروکریٹس، کاروباری افراد اور دیگر افراد شامل ہیں۔ پروگرام میں نمائندہ خصوصی جیو نیوز زاہد گشکوری نے کہا کہ 1200؍ لوگوں کو دبئی میں جائیدادوں کے متعلق سوالات بھیجے، اکثریت نے کوئی جواب نہیں دیا، کچھ نے دھمکیاں دیں، غریب ترین کسان کے نام پر بھی جائیدادیں خریدی گئی ہیں۔

پروگرام میں وزیراعظم کے مشیر برائے امور خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے بتایا کہ موجودہ حکومت میں ہی ایک ایمنسٹی اسکیم متعارف کرائی جا رہی ہے جس کے ذریعے لوگوں کو اپنی جائیداد ریگولرائز کرنے کا موقع دیا جا ئے گا۔

پروگرام میں شامل ماہر ٹیکس امور شبر زیدی نے بتایا کہ پاکستانیوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ بیرون ممالک اپنی جائیدادیں ظاہر کریں کیونکہ بین الاقوامی سطح پر جو قوانین آنے والے ہیں ان سے خود کو محفوظ رکھ سکیں۔

شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ دبئی میں جائیدادوں کے حوالے سے ہم نے خصوصی تحقیقات کیں تو حیران کن حقائق سامنے آئے، چار دن پہلے ہی چیف جسٹس نے پاکستانیوں کے بیرون ملک بینک اکاؤنٹس اور اثاثوں کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے اسٹیٹ بینک، ایف بی آر اور سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج آف کمیشن پاکستان سے تمام ریکارڈ طلب کرلیا۔

شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ گزشتہ جمعرات کو سپریم کورٹ میں غیرقانونی پلاٹس کو رہائشی پلاٹس میں تبدیل کرنے کے کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تھے کہ بیرون ملک موجود پاکستانیوں کی غیرملکی رقوم ملکی اثاثہ ہیں جسے واپس لانا ہے، بادی النظر میں یہ رقم غیرقانونی طریقے سے کمائی اور باہر بھیجی گئی، اکثر پاکستانیوں کے ملک سے باہر بینک اکاؤنٹس ہیں اور بیرون ملک رقوم بھیجے جانے سے ملک میں عدم توازن پیدا ہوا، چیف جسٹس نے قومی اداروں سے تفصیلات طلب کرلی ہیں، گزشتہ کئی ماہ سے دبئی میں پاکستانیوں کی جائیدادوں کے معاملہ پر قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی ذیلی کمیٹی نے متعدد مرتبہ متعلقہ اداروں سے تفصیلات طلب کیں لیکن اداروں نے اس حوالے سے لاعلمی ظاہر کی، ایف آئی اے کے پاس صرف 100؍ افراد کی فہرست ہے جنہوں نے دبئی میں جائیدادیں حاصل کیں لیکن ہماری تحقیقات کے مطابق دبئی میں جائیدادیں لینے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔

گزشتہ کئی برسوں میں اربوں روپے خاموشی سے بیرون ملک منتقل ہوئے، ملکی قوانین موجود ہیں، اداروں کے علم میں لائے بغیر دولت بیرون ملک منتقلی غیرقانونی اور مشکوک ہے، قوانین کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے پیسے دھڑا دھڑ دبئی منتقل کیے جارہے ہیں اور وہاں سرمایہ کاری ہورہی ہے اور قیمتی جائیدادیں خریدی جارہی ہیں لیکن جن اداروں کو کارروائی کرنا ہے وہ لاعلم دکھائی دیتے ہیں، پاکستان سے دبئی منتقل ہونے والی رقم 11؍ کھرب (1100؍ ارب) روپے سے بھی زیادہ ہے، ہماری تحقیقات کے مطابق کچھ برسوں میں 1100؍ ارب روپے پاکستان سے دبئی منتقل کیے گئے لیکن یہ رقم اس سے بھی 4؍ گنا زیادہ ہوسکتی ہے، ہمارے پاس موجود دستاویزی ثبوتوں کے مطابق تقریباً 7؍ ہزار پاکستانیوں نے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دبئی میں جائیدادیں خریدیں، یہ تعداد اس سے بھی زیادہ ہے، ان لوگوں میں سیاستدان،اداکار، وکلاء، ڈاکٹرز، چند میڈیا مالکان، ریٹائرڈ جرنیلز، ریٹائرڈ ججز، بیوروکریٹس، کاروباری اور بینکار بھی شامل ہیں۔

پاکستانی قوانین کو نظرانداز کرتے ہوئے پیسہ بیرون ملک منتقل ہوتا رہا اور ادارے خاموشی سے یہ سب کچھ دیکھتے رہے، اسٹیٹ بینک، ایف بی آر اور ایف آئی اے مکمل طور پر لاعلم ہیں، ایسا نہیں کہ قانون موجود نہیں ہے، قانون ہے مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہورہا، بیرونی اثاثہ جات ظاہر کرنے کے ریگولیشن ایکٹ کی کھلی خلاف ورزی کی گئی، ہم نے جب اس حوالے سے اسٹیٹ بینک سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ کسی ایک پاکستانی نے بھی 1990ء کے بعد بیرون ملک سرمایہ کاری یا جائیداد خریدنے سے متعلق آگاہ نہیں کیا، حالانکہ قانون کے مطابق اسٹیٹ بینک کو بتانا ضروری ہے، ایف بی آر کا کہنا ہے کہ دبئی میں مہنگی جائیدادیں خریدنے والے 95؍ فیصد پاکستانیوں نے اپنے ٹیکس ریٹرنز میں ان جائیدادوں کو ظاہر نہیں کیا۔

ایف آئی اے اور اسٹیٹ بینک کے پاس کوئی ریکارڈ ہے اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی جامع تحقیقات ہوئی ہے، یہ معاملہ اس لئے بھی اہم ہے کہ ہمارے پاس موجود فہرست میں کئی سیاستدان بھی شامل ہیں، سیاستدانوں کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ ایف بی آر اور الیکشن کمیشن کو اپنے تمام اندرون ملک و بیرون ملک اثاثوں سے آگاہ کریں، اگر انہوں نے کچھ بھی چھپایا تو وہ سیاست کیلئے نا اہل ہوسکتے ہیں۔

ہمارے سامنے ایسے حقائق بھی آئے کہ لوگوں نے اپنے ملازم کے نام پر جائیدادیں خرید رکھی ہیں، تحقیق کی تو پتا چلا کہ اس ملازم کے بینک اکاؤنٹ میں پیسے ہی نہیں، اس کے ذرائع آمدن ہی نہیں، کس کا ملازم ہے یہ تحقیق کی تو کچھ اور حقائق سامنے آئے، ہم نے نہ صرف پاکستان میں موجود متعلقہ اداروں سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی بلکہ متحدہ عرب امارات کے اداروں سے بھی تفصیلات حاصل کیں، دو ماہ کی مسلسل تحقیقات اور چار ماہ اس پر کام کرنے کے بعد کچھ چونکا دینے والے حقائق سامنے آئے ہیں، جو اعداد و شمار سامنے آئے وہ حیران کن ہیں۔

ادارے سات ہزار افراد کی جانب سے منتقل کردہ رقوم کے حوالے سے لا علم ہیں، ان افراد کی فہرست موجود ہے، خدشہ ہے کہ کہیں یہ پیسہ حوالہ یا ہنڈی کر کے تو دبئی نہیں پہنچایا گیا، کہیں کرپشن کا پیسہ تو دبئی کی جائیدادوں کی خرید و فروخت میں استعمال نہیں ہورہا۔کیونکہ دبئی مشرق وسطیٰ کا وہ واحد ملک ہے جسے ٹیکس ہیون سمجھا جاتا ہے یعنی یہاں ٹیکس سے بچنے کیلئے سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔

شاہزیب خانزادہ نے بتایا کہ ہمارے پاس موجود خصوصی دستاویزات کے مطابق118 ؍ ممالک کے 34؍ ہزار امیر ترین افراد نے 15؍ سال کے دوران دبئی میں جائیدادیں خریدیں، دبئی میں جائیدادیں بنانے والوں میں پاکستانی تیسرے نمبر پر ہیں، پاکستانیوں نے اس معاملہ میں امریکا، برطانیہ اور دیگر امیر ممالک کے سرمایہ کاروں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، صرف مقامی افراد اور بھارتی پاکستانیوں سے آگے ہیں۔

ہم نے دبئی جاکر ان جائیدادوں کی مالیت کا تعین بھی کیا، ہمیں پتا چلا کہ 2002ء سے اب تک پانچ ہزار جائیدادیں پاکستانیوں نے اپنے نام سے خریدیں جبکہ 2؍ ہزار پاکستانیوں نے اپنے فرنٹ مین کے نام پر جائیدادیں لیں، 780؍ پاکستانی دہری شہریت رکھتے ہیں یا پھر مستقل پاکستان سے باہر مقیم ہیں، باقی 6؍ ہزار سے زائد افراد پاکستان میں ہی رہتے ہیں اور ممکنہ طور پر انہوں نے پاکستان سے ہی دبئی پیسے منتقل کیے، پاکستانیوں نے تقریباً 967؍ ولاز یا رہائشی عمارتیں مختلف علاقوں میں خردیں، 75؍ قیمتی ترین فلیٹس ایمریٹس ہلز میں لیے، 165؍ جائیدادیں ڈسکوری گارڈنز میں،167 ؍ فلیٹس جمیرا آئی لینڈ میں، 123؍ گھر جمیرا پارک میں، 245؍ فلیٹس جمیرا ولیج میں،10 ؍ جائیدادیں پام دیرا میں، 160؍ جائیدادیں پام جبل علی،25 ؍ جائیدادیں پام جمیرا شورلائن میں جبکہ234 ؍ جائیدادیں انٹرنیشنل سٹی اور 230 ؍ جائیدادیں سلیکون ویلی میں خریدی گئیں۔ برج خلیفہ دبئی ڈائون ٹائون اور ان کے ارد گرد کے علاقوں میں بھی پاکستانیوں نے جائیدادیں خریدیں۔ دبئی کے یہ تمام علاقے مہنگے ترین ہیں، تحقیقات کے مطابق دبئی کی ان جائیدادوں کی مالیت 10؍ لاکھ درہم سے ڈیڑھ کروڑ درہم یعنی تین کروڑ پاکستانی روپے سے 45؍ کروڑ پاکستانی روپے تک ہے، 700؍ جائیدادیں ایسی ہیں جن میں ہر ایک جائیداد کی قیمت ڈیڑھ کروڑ درہم یعنی 45 ؍ کروڑ پاکستانی روپے سے زائد ہے، 2800؍ جائیدادیں ایسی ہیں جن میں ہر ایک کی مالیت تقریباً ایک کرڑو درہم یعنی 30؍ کروڑ روپے سے زائد ہے،3500 ؍ جائیدادیں ایسی ہیں جن کی قیمت 10؍ لاکھ درہم یعنی تین کروڑ روپوں سے زائد ہے۔ شاہزیب خانزادہ نے مزید بتایا کہ ان تمام پاکستانیوں کے نام اور جائیدادوں کی تفصیلات ہمارے پاس موجود ہیں،

ہم ان میں سے 1200؍ سے زائد پاکستانیوں سے خود اربطہ بھی کرچکے ہیں، ہم نے انہیں لکھا تا کہ پتا چل سکے کہ پیسے کی منتقلی کیسے ہوئی، یہ جائیدادیں پاکستان میں ظاہر کی گئیں یا نہیں، ہم نے ان 1200؍ افراد کے سامنے 3؍ سوال رکھے، پہلا سوال: کیا دبئی میں آپ کی یا آپ کے خاندان کے کسی فرد کی جائیداد ہے؟ دوسرا سوال: کیا ایف بی آر یا الیکشن کمیشن کو آپ کی اس جائیداد کا علم ہے؟ تیسرا سوال: کیا آپ کو ایف بی آر یا اسٹیٹ بینک سے کوئی نوٹس ملا ہے؟ ہم نے یہ سوالات 1200؍ افراد کو واٹس ایپ میسیجز کیے، ای میلز اور ٹیلیفون کالز کیں، اب تک صرف 25؍ افراد نے ہمیں جواب دیتے ہوئے ہماری معلومات کی تصدیق کی، کچھ نے موقف اختیار کیا کہ وہ یہ جائیدادیں فروخت کرچکے ہیں جبکہ کچھ نے ان جائیدادوں کی ملکیت کو تسلیم کیا البتہ کچھ افراد ناراض بھی ہوئے اور دھمکیاں بھی دیں، ہم نے اپنی تحقیقات کا دائرہ مزید وسیع کیا۔

دبئی میں پاکستانی سفارتخانے، دبئی حکومت، دبئی لینڈ ڈپارٹمنٹ اور پاکستان میں موجود ریگولیٹرز سے بھی رابطہ کیا لیکن وہاں سے بھی جواب کا انتظار ہے، ہمارے پاس موجود دستاویزات کے مطابق ایف آئی اے نے 27؍ اگست 2015ء کو دبئی میں پاکستانی ہائی کمیشن اور دبئی وزارت خارجہ سے رابطہ کیا اور دبئی میں پاکستانیوں کی جائیدادوں کی تفصیلات طلب کیں لیکن ابھی تک انہیں بھی کوئی جواب نہیں ملا، البتہ اسٹیٹ بینک نے 23؍ ستمبر 2015ء کو ایف آئی اے کو جواب دیا کہ 1990ء کے بعد سے کسی بھی پاکستانی نے کوئی منقولہ یا غیرمنقولہ جائیداد سے آگاہ نہیں کیا۔

ہماری تحقیقات کے مطابق بعض حکومتی اداروں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے تحقیقات آگے نہیں بڑھ سکیں، ہم نے اسٹیٹ بینک، ایف بی آر اور ایف آئی اے کے عہدیداروں سے ریکارڈ پر لائے بغیر ملاقاتیں کیں جس سے معلوم ہوا کہ دبئی میں جائیدادیں خریدنے کیلئے کھربوں روپے کی رقم کا بڑا حصہ حوالہ اور ہنڈی کے ذریعہ ملک سے بھیجا گیا، دبئی بھیجی جانے والی رقم کا بڑا حصہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کی شق 192, 192/A اور اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ملک سے باہر بھیجا گیا۔

شاہزیب خانزادہ نے مزید بتایا کہ ہماری تحقیقات کے مطابق تقریباً 24؍ ارکان پارلیمنٹ کی بھی دبئی میں جائیدادیں ہیں، ان میں کچھ نے یہ جائیدادیں ایف بی آرمیں ظاہر کر رکھی ہیں لیکن الیکشن کمیشن کوا ٓگاہ نہیں کیا، کچھ نے یہ جائیدادیں ایف بی آر کو بتائیں اور نہ ہی الیکشن کمیشن کو بتائیں، کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے ایف بی آر اور الیکشن کمیشن کو بھی ظاہر کیں لیکن ان کا پیسوں کی منتقلی کا ریکارڈ اداروں کے پاس موجود نہیں کہ انہوں نے پیسہ کیسے پاکستان سے باہر منتقل کیا۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ اہم بات یہ ہے کہ حکومت ایک گرینڈ ایمنسٹی اسکیم لانے جارہی ہے جو نہ صرف بیرون ملک بلکہ اندرون ملک غیرظاہر کردہ اثاثوں کو سامنے لانے کی اہم کوشش ہوگی۔

شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ توقع کی جارہی ہے کہ اندرون ملک و بیرون ملک غیرظاہر اثاثے ظاہر ہونے سے نہ صرف بلیک مارکیٹ ختم ہوگی بلکہ حکومت کو آئندہ پالیسی سازی کیلئے بھی اہم اعداد و شمار مل سکیں گے، چند ماہ میں ایک بین الاقوامی معاہدہ بھی فعال ہوجائے گا جس کے تحت کئی ممالک اپنے ملک میں غیرملکیوں کے اکاؤنٹس اور اثاثوں کی تفصیلات بتانے کے پابند ہوں گے یعنی اگر حکومت پاکستان کسی دوسرے ملک سے وہاں پاکستانیوں کے اثاثوں اور اکاؤنٹس کی تفصیلات طلب کرے گی تو وہ پاکستان کو مل جائیں گی جس سے حکومت پاکستان کو لوگوں کو پکڑنے میں آسانی ہوگی، اس معاہدہ سے پاکستان جان سکے گا کہ دبئی میں کتنے پاکستانیوں کے بینک اکاؤنٹس ہیں اور ان کے کتنے اثاثے ہیں۔

اس کے علاوہ صرف دبئی میں ہی نہیں لندن میں بھی پاکستانیوں کی جائیدادیں ہیں جہاں برطانوی حکومت نے نیا آرڈر غیرواضح دولت کا قانون نافذ کردیا ہے جس کے تحت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو غیرمعمولی اختیارات حاصل ہوں گے، وہ برطانیہ میں کالے دھن سے بنائی گئی جائیدادوں کے خلاف بھرپور کریک ڈاؤن کرسکیں گے، برطانوی ادارے 50؍ ہزار پاؤنڈ سے زائد رقم کے اثاثوں کی تحقیقات کرسکیں گے، اگر آمدنی سے زیادہ اثاثے ہوئے تو وہ ضبط کرلیے جائیں گے، اگر کوئی وضاحت نہیں کرسکا کہ اس نے اثاثہ کیسے بنایا تو اسے ضبط کرلیا جائے گا، اس آرڈر کے مطابق اب ریاست کے بجائے اثاثوں کا مالک اپنی آمدنی کا ثبوت پیش کرنے کا پابند ہوگا، جائیداد کے مالک کو اپنے پیسے کی وضاحت کرنا ہوگی۔

اس حوالے سے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے ایک فہرست بھی تیار کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ برطانیہ میں700 ؍ ارب روپے مالیت کے اثاثوں پر ناقابل وضاحت دولت آرڈر کے تحت تحقیقات کی جائیں گی جس میں ایوین فیلڈ اپارٹمنٹس بھی شامل ہیں جن کی ملکیت شریف خاندان کے پاس ہے، البتہ یہ کب سے شریف خاندان کے پاس ہے اس حوالے سے تنازع ہے، اب اگر لندن میں تحقیقات ہوں گی تو کیا شریف خاندان یہی بتائے گا کہ ہمارے دادا کی دبئی میں مل تھی، وہ انہوں نے بیچی قطریوں کو پیسے دیئے، قطریوں نے ان پیسوں میں سے 2006ء میں ایڈجسٹمنٹ کردی اور وہ آف شور کمپنیز نیلسن اور نیسکول جس کے تحت یہ فلیٹس موجود تھے وہ ہمارے پاس آگئے،

اگریہ وضاحت کریں گے تو کیا برطانوی حکام مان لیں گے، کیا برطانوی حکام قطری شہزادے سے پوچھیں گے، کیا قطری شہزادہ ان کو جوابدہ ہوگا، وہ وہاں جا کر یا اسکائپ پر انٹرویو کر کے بتائے گا، ثبوت دینے میں کامیاب ہوگا یا نہیں ہوگا، اگر قطری شہزادہ وہاں پر ثبوت دینے میں کامیاب ہوگیا اور برطانوی حکومت نے مان لیا تو کیا پاکستان میں شریف خاندان کا کیس مضبوط ہوجائے گا اور اگر برطانوی حکام نے وضاحت قبول نہ کی کیا پاکستان میں شریف خاندان کا کیس بہت کمزور ہوجائے گا، یہ سارا معاملہ شریف خاندان کیلئے مشکل پیدا کرسکتا ہے۔ شاہزیب نے کہا کہ ایمنسٹی اسکیم متعارف کرائی جانے والی ہے، 7000؍ پاکستانیوں کے نام ہمارے پاس موجود ہیں، حکومت اس پر کیا کرسکتی ہے، کیا معاملہ ہوگا۔

نمائندہ خصوصی جیو نیوز زاہد گشکوری کی گفتگو نمائندہ خصوصی جیو نیوز زاہد گشکوری نے کہا کہ دبئی میں جائیدادوں کے حوالے سے ہم نے 1200؍ لوگوں کو پیغامات بھیجے لیکن اکثریت نے کوئی جواب نہیں دیا۔

کچھ لوگوں نے ہمیں دھمکی آمیز کالز بھی کیں کہ یہ ہماری ذاتی معلومات ہیں اگر آپ نے یہ پبلک کیں تو اس کے بہت نتائج ہوں گے، ہمارے پاس موجود فہرست میں ایک آدمی نے برج خلیفہ میں دو فلیٹس لیے جب ہم نے تحقیقات کیں تو ہمیں معلوم ہوا کہ وہ شخص اسلام آباد میں چھوٹا سا بیوٹی پارلر چلارہا ہے، ایک ایسا شخص بھی ہے جس کی دبئی کے ڈائون ٹاؤن علاقے میں 21؍ جائیدادیں ہیں، تحقیقات سے معلوم ہوا کہ یہ شخص ایک غریب ترین کسان ہے جس کے نام پر یہ جائیدادیں لی گئی ہیں۔

تازہ ترین