• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایم کیو ایم اوورسیز کے کئی اہم رہنمائوں نے لندن سے راہ جدا کرلی

لندن (مرتضیٰ علی شاہ) متحدہ قومی موومنٹ لندن کے بہت سے اہم رہنمائوں نے کم وبیش ایک سال سے ایم کیو ایم لندن سے کنارہ کشی اختیار کر رکھی ہے اور وہ پارٹی کی کسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے رہے، ایم کیو ایم لندن کو چھوڑ جانے یا خاموشی سے کنارہ کشی اختیار کرنے والے اہم رہنمائوں میں محمد انور، انبساط ملک، طارق میر اور واسع جلیل کے نام شامل ہیں جو طویل عرصے سے ایم کیو ایم لندن کی سرگرمیوں سے الگ ہوچکے ہیں اطلاعات کے مطابق الطاف حسین اور پارٹی کے بعض دیگر رہنمائوں کے تعلقات 22اگست کے واقعے سے قبل ہی کشیدہ تھے جب کہ بعض رہنمائوں نے سیاسی طور پر انڈر گرائونڈ ہونے کا فیصلہ کیا۔ رابطہ کمیٹی کے ایک رکن انبساط ملک ایک سال سے ایم کیو ایم لندن آفس میں نظر نہیں آئے، اور ان کے قریبی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ وہ ایم کیو ایم چھوڑ چکے ہیں۔ محمد انور 22اگست کی تقریر سے پہلے تک الطاف حسین کے آگے پیچھے ہوتے تھے لیکن اب وہ بالکل ہی منظر سے غائب ہیں۔ طارق میر کبھی کبھی لندن سیکریٹریٹ آتے جاتے تھے لیکن 3ماہ قبل پارٹی کی قیادت سے اختلاف کے بعد سے وہ اب دفتر میں نظر نہیں آئے، واسع جلیل پارٹی قیادت سے اختلاف کے بعد نیویارک چلے گئے، حیدر عباس رضوی کئی ماہ سے کینیڈا میں ہیں لیکن انھوں نے 22اگست کی تقریر کے بعد لندن میں پارٹی سے مکمل قطع تعلق کر رکھا ہے اور حال ہی میں پاکستان میں ایم کیو ایم کے رہنمائوں کے درمیان مصالحت کیلئے منظر عام پر آئے تھے۔ یہ وہ رہنما ہیں جو گزشتہ5سال کے دوران جب الطاف حسین منی لانڈرنگ کے حوالے سے پولیس سے ضمانت کیلئے کوشاں تھے ان کے ساتھ ساتھ تھے۔ اس وقت پاکستان میں ایم کیو ایم کی قیادت کرنے والے رہنما عام طور پرلندن میں بھی قیام کرتے تھے اور لندن سیٹ اپ کی مدد کرتے تھے یہ وہ دور تھا جب ایم کیو ایم انٹرنیشنل سیکریٹریٹ ایک فیکٹری کی طرح دن رات کام کرتا تھا اور اس پارٹی کو ایک موثر پارٹی بنانے کیلئے سخت محنت کرنے والے اس کیلئے کام کرتے تھے۔ طارق میر دو سال سے زیادہ عرصے سے ایم کیو ایم لندن کے مالی امور دیکھتے تھے، مشکل وقت میں طارق جاوید بھی لندن آفس میں تھے، محمد انور بھی الطاف حسین کے بااعتماد حامی اور طویل عرصے تک مشیر رہے، واسع جلیل اور انبساط ملک پاکستان اور پوری دنیا میں کارکنوں کے ساتھ رابطے میں تھے، یہ لوگ اس کڑے وقت الطاف حسین کے ساتھ کھڑے رہے جب وہ لندن میں مقدمات کا سامنا کر رہے تھے، باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ الطاف حسین کے ساتھ ان اہم رہنمائوں کے تعلقات اس وقت خراب ہوئے جب الطاف حسین نے پارٹی کے تمام امور ندیم نصرت کے سپرد کرے، بہت سے لوگوں کا اعتراض یہ تھا کہ ندیم نصرت نے 2001میں خود امریکہ میں مستقل طور پر رہائش اختیار کرکے اور خواجہ سہیل منصور، ارشد ووہرا، بابر غوری، رئوف صدیقی، وسیم اختر اور احمد علی جیسے دولت مند لوگوں کو پارٹی کی صف اول میں جگہ دے کر پارٹی کو بالکل ہی تباہ کر دیا تھا۔ اگرچہ یہ اختلافات موجود تھے لیکن الطاف حسین نے سب کو سنبھالا ہوا تھا یہاں تک کہ22 اگست کی خودکش تقریر کے بعد پاکستان کی پوری قیادت نے الطاف حسین سے اختلاف کا اعلان کیا یہاں تک کہ انھوں نے سندھ اسمبلی سے بغاوت کے حوالے سے بل منظور کرانے میں بھی مدد کی۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے بیرون ملک رہنے والے ایم کیو ایم کے رہنمائوں اور کارکنوں نے خاموشی سے اپنی راہیں جدا کرلیں۔ کیونکہ اس کے بعد ان کیلئے پاکستان کے خلاف الطاف حسین کی باتوں کا دفاع کرنا ناممکن ہوچکا تھا۔ الطاف حسین کے خلاف منی لانڈرنگ کی تفتیش کے دوران انبساط ملک گرفتار کیا گیا، انہیں چارج کیا گیا اگرچہ یہ کارروائی ان کے مکان کے مارگیج کے حوالے سے تھی لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ انبساط ملک کو الطاف حسین کے خلاف منی لانڈرنگ کے مقدمے کے حوالے سے گرفتار کیا گیا تھا لیکن پولیس کی پوچھ گچھ کے دوران انبساط ملک نے پارٹی قائد کے خلاف ایک لفظ نہیں کہا اور یہ بھی نہیں بتایا کہ انٹرنیشنل سیکریٹریٹ کے مالی معاملات کس طرح چلائے جاتے ہیں۔ وہ لندن سے چلے گئے اور انھوں نے پارٹی سے مکمل علیحدگی اختیار کرلی ہے اور اب ایم کیو ایم لندن کی نئی قیادت مصطفیٰ عزیز آبادی، ندیم احسان، قاسم علی رضا، سلیم دانش اور سفیان یوسف پر مشتمل رہ گئی ہے۔
تازہ ترین