نوابزادہ نصراللہ خان (مرحوم) ہماری سیاسی تاریخ کا یادگار کردار تھے، پاکستان میں اتحادی سیاست کی طلسماتی شخصیت جو آگ اور پانی کے ملاپ کا غیریقینی کارنامہ بھی کر گزرتی۔ ان کی سیاسی زندگی کھلی کتاب کی مانند تھی پھر بھی سیاسی تاریخ کے کتنے ہی راز تھے جو ان کے سینے میں محفوظ تھے۔ آپ بیتی لکھنے کی درخواست کی جاتی تو وہ ہنس کے ٹال دیتے، ”اپنا تو سارا کاروبار ہی اتحادی سیاست کا ہے۔ کتاب لکھوں گا تو بعض دوستوں کے متعلق ناگفتہ باتیں بھی لکھنا پڑیں گی اور یہ چیز اتحاد کی بجائے فساد کا باعث بن جائیگی۔“ نوابزادہ صاحب سیاسی روزنامچہ بڑی باقاعدگی سے لکھتے لیکن اسے کسی کے ہاتھ نہ لگنے دیتے، میں اپنی تسبیح روز و شب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد اللہ نے کسی کو توفیق دی تو وہ ان ڈائریوں سے استفادہ کر لے گا۔ کتنے ہی سیاسی رازوں سے بھرپور یہ ڈائریاں کہاں گئیں؟ یہ برسہا برس تک نوابزادہ صاحب کے سیکرٹری کی خدمات انجام دینے والے جمشید ملک کے پاس ہیں یا عظیم رہنما کی ناخلف اولاد نے ان ڈائریوں کو بھی 32 نکلسن روڈ کا کاٹھ کباڑ سمجھ کر ضائع کر دیا۔آزادی کے بعد صوبہ سرحد کے پہلے وزیراعلیٰ خان عبدالقیوم خان نے وزارت اعلیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد جو پہلا کام کیا وہ اپنی کتاب Gold & Guns کی ضبطی کا حکم تھا۔ کانگریس سے وابستگی کے ایام میں لکھی گئی اس کتاب کا بیشتر حصہ قائداعظم اور مسلم لیگ کیخلاف ہرزہ سرائی پر مشتمل تھا۔ مسلم لیگ میں شمولیت کے بعد یہ کتاب ان کیلئے وبالِ جان بن گئی کہ مخالفین اسکے حوالے دیکر انہیں زِچ کرتے۔ پاکستان کے چوتھے فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کی کتاب ”ان دی لائن آف فائر“ کی کچھ سطور بھی اس کیلئے باعث آزار ہوگئیں۔ کتاب کے 23ویں باب ”Manhunt“ میں موصوف نے بڑے فخر کیساتھ یہ ذکر کیا کہ ہم نے القاعدہ سے وابستہ 672 افراد پکڑے اور ان میں سے 369 کو امریکیوں کے سپرد کرکے کئی ملین ڈالر انعام میں پائے۔ (کیا بدقسمت عافیہ صدیقی بھی ان میں تھی؟) اخبار نویس یہ بات لے اڑے، ان کا استفسار تھا کہ یہ کئی ملین ڈالر کس کس کھاتے میں جمع ہوئے؟ کتاب کے اردو ترجمے ”سب سے پہلے پاکستان“ میں یہ سطور حذف کردی گئیں۔ چند ماہ قبل یہ حادثہ بیگم کلثوم سیف اللہ پر بھی گزرا۔ صوبہ سرحد (خیبرپختونخوا) کے نامور سیاسی خانوادے کی یہ بزرگ خاتون عرصہ ہوا عملی سیاست سے ریٹائر ہو چکیں۔ گزشتہ دنوں اِدھر اُن کی آپ بیتی منظر عام پر آئی، اُدھر کئی چیزوں سے ان کا اعلان لاتعلقی سامنے آگیا۔نوازشریف اور مسلم لیگ سے جاوید ہاشمی کی 23 سال سے زائد سیاسی رفاقت کا خاتمہ فریقین کیلئے بوجھل دل کا معاملہ تھا۔ لیکن اس مرحلے پر دونوں کا رویہ باوقار اور روایتی وضع داری کا حامل تھا۔ ہاشمی صاحب کا کہنا تھا کہ انہیں میاں برادران سے کوئی ذاتی شکایت نہیں، بس اتنی سی بات ہے کہ وہ مسلم لیگ کی نسبت تحریک انصاف میں اپنے لئے زیادہ بھرپور سیاسی کردار دیکھتے ہیں۔ اُدھر مسلم لیگ کی قیادت جاویدہاشمی کو برے وقت کا اچھا ساتھی قرار دے رہی تھی۔ میاں صاحب کو البتہ گلہ تھا کہ وہ جاتے ہوئے کم از کم الوداع ہی کہہ جاتے۔ 1993ء میں شاہ محمود قریشی نے بعض مقامی سیاسی و انتخابی مسائل کے باعث مسلم لیگ سے پیپلزپارٹی میں جانے کا فیصلہ کیا تو باقاعدہ ماڈل ٹاؤن گئے، میاں صاحب کو اپنے مسائل سے آگاہ کیا اور پرجوش مصافحے اور بھرپور معانقے کے ساتھ رخصت ہوگئے۔ گزشتہ سال پیپلزپارٹی سے 17 سالہ وابستگی کے خاتمے پر ایک بار پھر نوازشریف اور ان کی مسلم لیگ ہی ان کا انتخاب تھے اس کیلئے جملہ معاملات بھی تقریباً طے پاگئے۔ جاویدہاشمی نے بھی مسلم لیگ میں اپنے دیرینہ انتخابی حریف کی شمولیت کیلئے ”این او سی“ دے دیا تھا لیکن پھر شاہ محمود قریشی 30 اکتوبر کے مینارِپاکستان کے سونامی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہے لیکن تحریک انصاف میں شمولیت سے4 روز قبل انہوں نے جاتی عمرہ جا کر میاں صاحب کو اپنے نئے فیصلے کے حوالے سے اعتماد میں لینا ضروری سمجھا۔ بدقسمتی سے جاوید ہاشمی اس وضع داری کو زیادہ دیر تک نبھا نہ سکے۔ اب شاید ہی کوئی تقریب یا پریس کانفرنس ہو جس میں وہ نوازشریف کی ملامت کا کوئی پہلو نہ نکال لاتے ہوں۔ گزشتہ روز ”جیو“ کے پروگرام ”جیوشان سے“ میں وہ نوازشریف کو سیاست دان ماننے سے ہی انکاری ہوگئے، ”وہ سب کچھ ہے، سیاست دان نہیں۔“ گزشتہ بائیس، تیئس سال میں میاں صاحب کی تعریف میں ان کی کتنی ہی تقاریر تو ہوا میں تحلیل ہو چکیں لیکن ”ہاں میں باغی ہوں“ میں انہوں نے اپنے لیڈر (اب سابق) کی مدح و توصیف میں جو کچھ لکھا، کیا وہ اس سے بھی اظہار لاتعلقی کردیں گے؟ کتاب کے چوتھے اور پانچویں باب کا بیشتر حصہ میاں نوازشریف سے ان کے تعلقات پر مشتمل ہے۔ مختلف صفحات سے کچھ سطور ملاحظہ ہوں: ”میرے ساتھی انکے وزیراعلیٰ بننے پر ناک بھوں چڑھاتے، میں نے ان سے کہا جو نوازشریف کو underestimate کرتے ہیں ان کی سیاسی بصیرت کا ماتم کرنا چاہئے… 1990ء میں نوازشریف وزیراعظم ہوگئے۔ میں اس بات کا مداح تھا کہ انہوں نے مسلم لیگ کو ڈرائنگ روم سے نکال کر عام آدمی کی پارٹی بنا دیا۔ اسٹیبلشمنٹ خوفزدہ ہوگئی اور صدر اسحاق کی سرپرستی میں وزیراعظم کے گرد گھیرا تنگ کر دیا۔ انہوں نے پارلیمنٹ کی بالادستی کی جو جنگ لڑی اس کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ 1990ء کے انتخابات میں اسلم بیگ اور غلام اسحاق خان جناب غلام مصطفی جتوئی کو وزیراعظم بنانا چاہتے تھے۔ نوازشریف نے اپنا راستہ خود بنایا جو دونوں کو ناپسند تھا… تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسا وزیراعظم ہو جسے اپنے ملک کے پانچ فوجی سربراہوں سے پارلیمانی بالادستی کی جنگ لڑنا پڑی ہو… اب تو جنرل زینی اور جنرل ٹامی فرینکس نے بھی اپنی کتابوں میں تحریری طورپر شہادت دے دی ہے کہ نوازشریف ہماری بات نہیں سننا چاہتا تھا جبکہ جنرل جہانگیر کرامت ان (امریکیوں) کے حامی تھے۔ نوازشریف نے امریکہ کی مرضی کے خلاف ایٹمی دھماکے کرکے اپنی قیادت کا سکہ منوا لیا۔“
بھارتی وزیرخارجہ ایس این کرشنا کے حالیہ دورہ پاکستان سے دونوں ملکوں کے درمیان امن عمل ایک نئے مرحلے میں داخل ہورہا ہے۔ اس امن عمل کے حوالے سے نوازشریف کے کردار کے متعلق ہاشمی صاحب نے لکھا: ”نوازشریف نے اسٹیبلشمنٹ کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا اور ہندوستان سے امن عمل (Peace Process) کا آغاز کیا۔ جنرل ایوب، جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف سر کے بل چل کر انڈیا سے امن کی بھیک مانگنے گئے۔ نوازشریف نے باوقار طریقہ اختیار کیا۔ ہندوستان کے وزیراعظم کو بس پر بیٹھ کر مینارِپاکستان آنا پڑا اور مینارِپاکستان کو سلامی دی۔“ اور اب کچھ ذکر نوازشریف کے طرزِ سیاست و حکومت کا، ”میں میاں نوازشریف کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ وہ خندہ پیشانی سے میری تنقید کو برداشت کرتے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے وزارتی فیصلوں میں انہوں نے کبھی مداخلت نہ کی۔ ہمارے غلط فیصلوں کی ذمہ داری بھی وزیراعظم اپنے سر لے لیتے۔ انہی میں ایک فیصلہ زرِمبادلہ کے ذخائر سے متعلق تھا… 1993ء میں نوازشریف نے اسٹیبلشمنٹ سے بغاوت کی تو وہ ایک بالغ نظر سیاستدان کے طورپر قومی منظر پر اُبھرے، میں اُن کے ہراول دستے میں شامل تھا۔“ جاوید ہاشمی نے بڑی فراخ دلی سے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ وہ اپنے آبائی حلقے (ملتان) سے ہار گئے تو نوازشریف نے اپنے خاندان کی سیٹ پر (لاہور) سے انہیں منتخب کرایا (یہ واقعہ ایک بار نہیں، تین بار ہوا)۔ اس باب کا اختتام باغی نے ان الفاظ کے ساتھ کیا ہے: ”میں جیل کی کال کوٹھڑی سے پوری آواز کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں، ”نوازشریف، پاکستان کو آپ پر فخر ہے۔“ Nawaz Sharif, Pakistan is proud of you.
کیا ہمارے باغی بھائی اپنی کتاب کے آئندہ ایڈیشن میں ان صفحات کو حذف کردیں گے؟