• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان کے خلاف سب اکٹھے ہوگئےہیں۔ مسلسل سازشیں ہورہی ہیں تاکہ کسی نہ کسی طرح مڈل کلاس کا راستہ روکا جاسکے، اس بوسیدہ نظام کو بچایا جاسکے۔ لودھراں ضمنی انتخاب میں بھی یہی ہوا ہے کہ اسٹیٹس کو کی ساری قوتیں، مقامی جاگیردار، سیاسی گھوڑے اورمقامی بڑے، سب معصوم علی ترین کو ہرانے نکل پڑے۔ یہ سارے مفادپرست تحریک ِ انصاف کے واحد سرمایہ کار اور صنعت کار جہانگیر ترین کے پیچھے پڑے ہوئے تھے کیونکہ ان کے خیال میں اگر ترین خاندان دوبارہ منتخب ہوگیا تو پرانے خاندان، جاگیرداری اور ڈیرے داریاں ختم ہوجائیں گی۔ لودھراں اور جنوبی پنجاب میں تحریک ِ انصاف کی لہر چل پڑے گی بس اسی کو روکنےکے لئے علی ترین کوہرایا گیا ہے۔
عمران خان کے خلاف تازہ ترین سازش یہ ہے کہ نہ نواز شریف نہ عمران خان اور نہ ہی زرداری بلکہ اوپر شاہد خاقان عباسی اور نیچے شہباز شریف کوبرقرار رکھتے ہوئے یہی نظام انتخابات کے بعد بھی چلایا جائے۔ عسکری خان، بابو خان، عدالت خان اور طرّم خان سب کو اس سیٹ اپ میں زیادہ آزادی، زیادہ خودمختاری اور زیادہ سہولت نظر آ رہی ہے۔ یہ سازشی منصوبہ دراصل تعلیم یافتہ مڈل کلاس اورپروفیشنلز کی قیادت کو پی ٹی آئی کی شکل میں اقتدار میں آنے سے روکنے کا حربہ ہے۔ غرضیکہ سازشوںکا ایک طوفان ہے جو عمران خان کے خلاف اٹھایا جارہا ہے۔ پہلے کہا گیا کہ مڈل کلاس کے تنخواہ دار طبقے کی بیگمات کو عمران خان کی تیسری شادی اور اس کے طریق کار پر شدید تحفظات ہیں اور یہ بھی کہ ان بیگمات نے اپنے افسر خاوندوں کو بھی عمران خان کے خلاف بھڑکانا شروع کردیا ہے۔ ابھی یہ غلغلہ ختم نہیں ہوا تھا کہ یہ بے پر کی اُڑائی گئی کہ 18لوگوں کے فارورڈ بلاک کی عمران خان سے جو خفیہ میٹنگ ہوئی تھی اس کے بعد ان میں سے کئی اراکین قومی اسمبلی نے عمران خان سے ملاقات کے بعد تحفظات کا اظہار کردیا۔ اسی لئے فارورڈ بلاک کے بننے اور پی ٹی آئی میںان کی جگہ بننے میںدیر ہو رہی ہے۔ یہی نہیںعمران خان نے وزیرستان سے آئے ہوئے دھرنے میں جو خطاب کیا اس پر بھی ناراضی کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ عمران خان کی تقریر ریاستی بیانیے کے خلاف اور طالبان کے حق میں ہے۔ اورتو اور انہی حلقوں نے یہ الزام بھی لگاناشروع کردیا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے بعض ممالک کوعمران خان کی آزاد خارجہ پالیسی اور ان کی ایران اور دوسرے عرب ممالک کے ساتھ برابری کے تعلقات کو ان کاایران کی طرف جھکائو سمجھا گیا۔غرضیکہ الزامات کے طومار باندھے جارہے ہیں۔ عمران خان کی شادی ایک نجی معاملہ ہےاس پر شور اور پراپیگنڈا بہت غیرضروری ہے کیا’’ن‘‘ لیگ کے لیڈرز کی شادیوں پربھی ایساشور ہوا؟ پیپلزپارٹی کے کئی سندھی لیڈروںکی دو دو تین تین شادیاں ہیں جو کبھی زیربحث تک نہیں آئیں تو پھر عمران خان کے ساتھ متعصبانہ سلوک کیوں؟ اس نے ملک و ملت اورقوم کے غم میں ساری زندگی مجرد رہ کر تنہائی برداشت کی، کیا اس کا حق نہیں کہ وہ بھی گھر کی فضا کو بہتر بنائے اور اپنی تنہا بے کیف زندگی میں تھوڑا بہت رنگ لائے؟ جہاں تک فارورڈ بلاک کی بات ہے تو پی ٹی آئی کی مقبولیت کو روکنے کے لئے اسے کارڈ کے طور پر کھیلا جارہاہے۔ عمران ان سازشی کھیلوں سے بیزار ہے۔ دھرنوں کے درمیان وہ ’’اُن‘‘ کی سن لیتا تھا، عمل بھی کرلیتا تھا مگر اب وہ مستقبل کا وزیراعظم، کیوں کسی کے فضول الزاما ت سنے؟ باقی رہی وزیرستانی وفد کے دھرنے میں ہونے والی گفتگو تو عمران خان کے ہمیشہ سے یہی خیالات رہے ہیں، اس میں برا منانے کی کیا بات ہے؟ خارجہ پالیسی میں عمران خان کا موقف وہی ہے جوپوری قوم کا ہے اور پاکستانی پارلیمان نے سعودی عرب اور حوثی یمنیوں کی جنگ میں غیرجانبداری کامتفقہ فیصلہ کیا تھا۔ صرف عمران خان ہی کو مورد ِ الزام ٹھہرانا سراسر غلط ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس بوسیدہ نظام کو چلایا جائے۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کا راستہ اسی لئے روکا جارہا ہے۔
کوئی راستہ روکنے والوں سے پوچھے عمران نہ ہوتاتو کیامعاشرے میں کرپشن کے خاتمے کی مہم چل سکتی تھی؟اگر عمران نہ ہوتا تو کیا عام لوگوں میں وی آئی پی کلچر کے خلاف فضا بن سکتی تھی؟ اگر عمران نہ ہوتا تو کیا برسراقتدار وزیراعظم کو عدالتوں سے سزا ہوسکتی تھی؟ اگر عمران نہ ہوتا تو کیا مڈل کلاس میں اشرافیہ اور برسراقتدار طبقہ کے خلاف نفرت پیدا ہوسکتی تھی؟ اگر عمران نہ ہوتا تو کیا یوتھ کا پاکستان کی انتخابی سیاست میں کوئی کردار ہوتا؟ اگر عمران خان نہ ہوتا تو کیا کوئی نیا پاکستان بنانے کی بات کرتا؟ عمران خان کا قصور یہی ہے کہ اس نے غیرسیاسی مڈل کلاس اورغیرسنجیدہ تعلیم یافتہ طبقہ کو سنجیدہ سیاست میں متحرک کیا اور انہیں یہ سبق دیا کہ اگر حقوق لینے ہیں تو جدوجہد کرو۔ سیاست میں حصہ لو تبھی جا کر ملک بدلے گااورنیا پاکستان بنے گا۔ مشہور مقولہ ہے کہ اوسط ذہنیت کے لوگ ذہین افراد کے خلاف اتحاد بنا لیتے ہیں۔ یوں سب اوسط اور چھوٹی ذہنیت والے لوگ مل کر ذہین افراد کو پیچھے ہٹا دیتے ہیں۔ یہی کچھ عمران خان کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اس ملک کے سب طبقات عمران خان کے خلاف اکٹھے ہوگئے ہیں اور طے کر رہے ہیں کہ 2018 کے الیکشن میں اسے نہیں آنے دینا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ عمران خان کے پاس یہ الیکشن آخری چانس ہوگا کیونکہ پانچ سال کا لمبا سیاسی انتظار ان کی تمام تر فٹ نس کے باوجود بہت صبر آزما ہوگا۔ میری اس ملک کے اوسط اقتدار پسند حلقوں سے دست بستہ درخواست ہے کہ اب عمران خان کو باری دی جائے کیونکہ انہیں اب باری نہ ملی تو وہ اوور ایج ہوجائیں گے اوریوں اس ملک کا ایماندار ترین، ذہین ترین، مقبول ترین اور شاندار ترین لیڈر ارضِ وطن کے لئے اپنے درخشاں نظریات کی تکمیل نہیںکرسکے گا۔ میری درخواست ہے کہ پی ٹی آئی کو ہر صورت میں اقتدار دیا جائے وگرنہ نوجوان سیاست سے مایوس ہو جائیں گے اور اگر یہ مایوس ہوئے تو استحکام پاکستان کی بنیادیں ہل جائیں گی۔ میں پھر ہاتھ باندھ کر، ماتھا رگڑ کر عرض کرتا ہوں کہ پی ٹی آئی کوہر صورت میں اقتدار ملنا چاہئے وگرنہ پاکستان کی مڈل کلاس پھر سے بے حس ہو جائے گی، سیاست سے متنفر ہو جائے گی اور یوں زمام اقتدار ہمیشہ کے لئے اشرافیہ کے ہاتھ میں چلی جائے گی۔ اصول یہ ہے کہ پاکستان میں اگر پائیدار جمہوریت لانی ہے تو مڈل کلاس ہی لاسکتی ہے اشرافیہ تو جمہوریہ کو بھی چند لوگوں کی حکومت بنا دیتی ہے۔ میری مودبانہ درخواست ہے کہ عمران خان کو ہر صورت میں حکومت دیں ورنہ خواتین کی سیاست میں دلچسپی ختم ہوجائے گی اور ان کی وجہ سے سیاسی جلسوں کی رونق میں جو اضافہ ہوا ہے وہ بھی ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے گا۔ میری کوشش ہے اور ساتھ ہی دعا بھی ہے کہ عمران خان کو ہرصورت میں اقتدار ملے، نہیں تو سیاسی جلسوں میں موسیقی کا جو تڑکالگانے کارواج شروع ہوا ہے وہ دم توڑ جائے گا۔ میں پوری قوم کےپائوں پڑتا ہوں کہ خدارا عمران کو اقتدار دیں!!

تازہ ترین