• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا، پچھلے دنوں دورہ پنجاب، اس جماعت کے حوالے سے تاریخ کے لمحات کو ایک بار پھر اجاگر کر گیا ہے۔ بلاول بھٹو کے پریس سیکرٹری بشیر ریاض نے گو بلاول کی زبانی ایک وضاحت کرنا شاید وقت کی ضرورت سمجھا، یہ کہ ’’ان کے اور آصف علی زرداری کے بارے میں شائع ہونے والی خبریں بے بنیاد ہیں۔ وہ آصف علی زرداری کے ساتھ مل کر پیپلز پارٹی کو مضبوط کر رہے ہیں‘‘ یہ وضاحت بذات خود پیپلز پارٹی کے حوالے سے متعدد بحرانوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ ہمیں بہت غیر جانبداری اور صبر کیساتھ ان بحرانوں کے اصل خدوخال اور اسباب تک پہنچنے کی کوشش کرنا ہو گی۔ عالم تمام، عالم اسلام اور پاکستان کے عبقری رہنما ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت جن مراحل سے گزری ان کی بار بار چہرہ شناسی کے بغیر ہم پی پی کے اصل بحران اور اسباب جاننے میں کامیاب نہیں ہو سکتے جن کی ایک جھلک چیئرمین بلاول کے گزشتہ دنوں کے دورہ پنجاب میں بدرجہ اتم دیکھی جا سکتی ہے!
13؍ جنوری 2016ء کو بلاول ہائوس لاہور میں پیپلز پارٹی پنجاب کی ایگزیکٹو کونسل کا اجلاس منعقد ہوا، یہ اجلاس ہمیں پیپلز پارٹی کے تاریخی کردار میں بنیادی آسودگی کے اس عنصر تک لے جائے گا جس نے پاکستان کی ایک قومی سیاسی جماعت کو زوال پذیر سوالیہ نشان کی طرف گامزن کر دیا ہے، ایسا سوالیہ نشان جس کی نہ مذمت کی جا رہی ہے نہ اس کا جواب دیا جا رہا ہے۔ پنجاب ایگزیکٹو کونسل کے اس اجلاس کی رپورٹ کے مطابق بلاول بھٹو زرداری نے پنجاب کے بلدیاتی الیکشن میں شکست کا نوٹس لیتے ہوئے تمام پارٹی رہنمائوں کو ہدایت کی کہ اب عام انتخابات کی بھرپور تیاری کی جائے۔
بلاول کے دورہ پنجاب سے بنیادی آسودگی کے اس عنصر کی نشاندہی ہو سکتی ہے جس نے ایک قومی سیاسی جماعت کو زوال پذیر سوالیہ نشان کی طرف گامزن کر دیا ہے، وہ ہے پی پی پی کے رہنمائوں اور مشیروں کا اپنی پارٹی کے اس منشور سے قطعی طور پر دستبردار ہو جانا جسے مختصر لفظوں میں عوام طاقت کا سرچشمہ، ہے کا اعلان قرار دیا جاتا ہے۔ جب پنجاب پی پی پی کے راجہ ریاض اور فردوس عاشق اعوان کی سطح کے لوگ خود اپنی پارٹی کے ٹکٹ کی نفی کریں، اس کا وجود ان کے نزدیک شکست کا راستہ ہو اور وہ قیادت سے کہیں ’’پارٹی آپ کی وجہ سے ہاری، آپ کو خود باہر نکلنا ہو گا‘‘ اس وقت پارٹی کے سارے ڈھانچے اور سوچ کے مراکز کا اپنے اندر انقلابی تبدیلیاں لانا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ راجہ ریاض اور فردوس عاشق دو افراد نہیں بلکہ یہ دو ایسے کردار سمجھے جا سکتے ہیں جن کے طرز فکر سے پارٹی کے زوال اور بحران کا اصل سرا پکڑا جا سکتا ہے، اس پر گرفت کی جا سکتی ہے، وہ سرا ہے پاکستان پیپلز پارٹی کا اپنے بنیادی منشور کی جانب لوٹ جانا قومی اور صوبائی سطحات پر عام کارکنوں سے پارٹی قیادت ابھارنا، ایک نئی جماعتی ساخت ہی پیپلز پارٹی کے اس بحران کا حل ہے، وہ لوگ جو خود شکست کی آواز بن چکے اور جنہیں پارٹی کے عوامی منشور سے کچھ لینا دینا نہیں، ان سے پیپلز پارٹی کی بحالی یا احیائے نو کی توقع رکھنا اندھیرے میں تیر چلانے کے مترادف ہے۔
قیادت کو باہر نکلنا چاہئے، یہ حقیقت اپنی جگہ مگر پنجاب کی پارٹی قیادت کو گزشتہ پانچ سات برسوں میں کس نے عوام کے مسائل اور مصائب سے براہ راست مربوط ہونے سے روکے رکھا؟ آپ پنجاب میں دہشت گردی کے مسئلے کی مثال کو سب سے زیادہ اہمیت دے سکتے ہیں، آپ اس صوبے میں دہشت گردی کے پیچھے سازشوں یا سرغنوں کو ایک طرف رکھیں، پنجاب پیپلز پارٹی کی قیادت صرف اس سوال کا جواب دے دیدے ’’کیا انہوں نے انسانوں کے بہتے خون کے جنون کے خلاف لاہور کی سڑکوں پر، ان برسوں میں ایک بھی ایسا احتجاجی جلوس نکالا جس میں وہ پنجاب کے عوام کو ساتھ لے کر چلی ہو؟‘‘ لاہور میں اس اجلاس نے ایک ’’لانگ مارچ‘‘ کی شکل میں پورے ملک میں عوامی اور فکری تہلکہ مچا دیا ہو۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چاروں صوبوں، بہت ہی خصوصی طور پر، صوبہ پنجاب میں پارٹی کے نمایاں افراد، مشیروں اور بیسیوں فعال لوگوں نے اس راستے کو ترک کر دیا جو مشکلات کی گھاٹیوں سے گزرتا ہے، ان میں سے جن لوگوں کو اقتدار کی لذت کا موقع ملا، ان میں سے اکثر نے اسے زندگی کا ’’آخری چانس‘‘ سمجھ کر اپنے سارے دکھی شب و روز سکھی کرنے کو ٹارگٹ کیا۔ وہ بھی تھے جو اچھے خاصے کھاتے پیتے ہو کر بھی لالچ اور کرپشن کی گنگا میں ’’ضرورت مندوں‘‘ سے بھی کہیں زیادہ تیرتے رہے بلکہ ڈوب گئے، اسلئے بنیادی طور پر چیئرمین بلاول بھٹو کو پنجاب میں پارٹی کا ایک عظیم الشان ورکر اجتماع منعقد کر کے، بجائے نامزدگیاں کرنے کے، کسی انتخابی عمل کے ذریعہ ان میں سے پارٹی عہدیداروں کو سامنے لانا ہو گا۔ پنجاب پیپلز پارٹی کا شروع سے ایک سیاسی ریکارڈ ذہن میں رکھا جائے، جس کا تعلق اس موجود سچائی سے جڑتا ہے جس کے تناظر میں اس صوبے کی قیادت سے، ذوالفقار علی بھٹو اور بی بی شہید کی جاں سوز محنت کا ’’رزق‘‘ کھاتی رہی، پارٹی کا کارکن اس رزق، کی کاشت میں ان کے شانہ بشانہ اپنی جان جان آفریں کے سپرد کرتا رہا، پنجاب کی قیادت کی اکثریت درمیان میں صرف ’’کارروائی اور وسائل‘‘ کے بل بوتے پر ہزاروں کروڑوں اور لاکھوں عوام کے سلسلے میں ’’جذبات فروشی ‘‘ کے کاروباری بیڑے پر سوار ہو کے اپنی زندگیاں حسین کرتی رہی!
پاکستان پیپلز پارٹی کو رجعت پسند اور سماجی جابر کبھی برداشت نہیں کر سکتے، یہ وہ گتھی ہے جو ان سے آج تک سلجھ نہیں سکی۔ چیئرمین بلاول بھٹو اور ان کے والد آصف علی زرداری کے اختلافات کی کہانیاں بھی ویسی ہی مہمات کا حصہ ہیں جن کی شروعات اس پارٹی کے یوم تاسیس سے شروع ہو گئی تھیں، آپ یقین کریں دونوں کے درمیان جو واقعات بیان کئے جاتے ہیں، دونوں کے حوالے سے ایک دوسرے کے بارے میں جو جملے ’’کوڈ‘‘ کئے جاتے ہیں، دونوں کی بول چال بند ہونے سے لے کر ناراض ہو کر بیرون ملک چلے جانے کی جو داستان تراشی کی جاتی ہے، وہ سو فیصد نہیں ہزار فیصد سفید جھوٹ سے کہیں بڑا سفید جھوٹ ہے۔
کہانی وہی ہے پاکستان پیپلز پارٹی کا وجود اور پنجاب اس وجود کا مرکز ہے، اسے یہاں سے دیس نکالا دینا تھا، یہ طبقے کیسے ناکام رہے، ان کی مراد بر آنے کے آثار، پہلی بار پنجاب میں اس وقت پیدا ہوئے جب گزشتہ پانچ برسوں میں، اقتدار کے سائے میں آتے ننھے ننھے فرعونوں نے کارکنوں اور عوام سے پارٹی کو لاتعلق کرنے میں ایک گھنائونا کردار ادا کیا۔ ’’گینگ آف فور‘‘ کوئی افسانہ نہیں ذوالفقار علی بھٹو اور بی بی دونوں کو اپنے اپنے ’’گینگ آف فور‘‘ سے نپٹنا پڑا تھا۔ بلاول بھٹو کو میدان ابتلا و آزمائش میں نہیں لاتے، بھٹوز کی عوام سے کمٹ منٹ ہے، پاکستان میں وہ کون ہے جس کی قیادت میں عوام نے وہ صبح طلوع ہوتی دیکھی ہو جب کسی منتخب حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے پر پورے آئینی تقاضوں کے تحت دوسری منتخب حکومت کو اقتدار منتقل کیا جا رہا تھا، بلاول بھٹو زرداری اسے حسب روایت پاکستانی عوام کو سر بلند رکھنے کیلئے تاریخ کے کٹہرے میں لے آئے ہیں، اسلئے کہ انہوں نے ’’بھٹو خاندان یہ جنگ نسل در نسل لڑے گا‘‘ کے عہد کی پاسداری کا بوجھ اٹھایا ہوا ہے!
تازہ ترین