• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا پاکستان میں پارلیمنٹ سپریم ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو آنے والے دنوں میں ایک بار پھر سے دہرایا جانے والا ہے۔ایک نا اہل شخص کے پارٹی سربراہ بننے سے متعلق سپریم کورٹ میں چلنے والے کیس میں بھی بارہا اس سے ملتا جلتا سوال اٹھایا جا چکا ہے۔ موجودہ حالات کے تناظر میں گو یہ سوال نواز شریف کی ذات سے جڑا ہوا نظر آتا ہے لیکن دراصل یہ مسئلہ اس سے کچھ آگے کا ہے ۔ اس سوال کے موثر جواب کے بعد ہی مستقبل میں پاکستان کے سیاسی نظام کی درست سمت کے بارے میں فیصلے ہونے ہیں۔ اگر تاریخی پس منظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کی پارلیمنٹ کو کوئی خاص طاقت حاصل نہیں رہی، ہماری ستر سالہ تاریخ میںسے تقریباََآدھی تو ویسے بھی براہ راست فوجی حکمرانوں کے زیر سایہ گزری ہے۔جبکہ ملک میں جمہوری حکومتوں کے ادوار کے دوران بھی پارلیمنٹ ایک مضبوط ادارے کے طور پر ابھر کر خود کو منوا نہیں سکی۔
اس کی بہت سی وجوہات ہیں ، جن میں سیاستدانوں اور سیاسی طبقے کی نا اہلی غالباََ اہم ترین ہے۔ اگر آج پاکستان میں پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کی جاتی ہے تو یقیناََ یہ سوال بھی پوچھنا چاہئے کہ اس بالادستی کو قائم رکھنے کے لئے ہماری سیاسی اشرافیہ نے کیا اقدامات کئے ہیں؟ کیا پارلیمنٹ کی بالادستی صرف کھوکھلے نعروں سے قائم کرنے کی کوشش کی گئی یا پھر اس ضمن میں کوئی ٹھوس اقدامات بھی کئے گئے؟ موجودہ دور کے سیاستدان اس سوال کے جواب میں اٹھارویں ترمیم کی مثال دیتے نظر آتے ہیں۔ ان کے نزدیک پارلیمنٹ نے اپنی بالادستی کو ثابت کرتے ہوئے اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعے جمہوری اداروں کو مضبوط بنانے کے لئے خاطر خواہ اقدامات کئے۔ چاہے وہ صوبائی خود مختاری کی بات ہو یا پھر آئین میں سے فوجی ڈکٹیٹرز کے زمانے میں ڈالے گئے قوانین کو اٹھا باہر پھینکنا، پارلیمنٹ نے اس ترمیم کے ذریعے آئینی اداروں کی مضبوطی یقینی بنانے کی بھرپور کوشش کی۔
مگر کیا کیا جائے کہ حقیقت ان تمام تر دعوئوں کے برعکس ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اٹھارویں آئینی ترمیم سے آئین میں موجود بہت سی ایسی شقوں کا خاتمہ ہوا جو فوجی آمریت کے زمانے میں مخصوص مقاصد کے لئے آئین کا حصہ بنائی گئی تھیں۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ بہت سی ایسی شقیں اب بھی آئین کا حصہ ہیں جنہیں شاید کسی اور جمہوری معاشرے میں برداشت نہ کیا جاتا۔ پرانی شقیں تو ایک طرف ، اٹھارویں ترمیم میں اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کی تعیناتی سے متعلق جو قانون سازی کی گئی وہ چند ہفتے بھی قائم نہ رہی۔ پاکستان کے سب سے بڑے اور مقدس ایوان میں اپوزیشن اور حکومت نے مل کر اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو تعینات کرنے کا جو طریقہ کار وضع کیا اسے پاکستان کی سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔شاید ہی دنیا کی تاریخ میں پہلے کہیں ایسا ہوا ہوکہ سپریم کورٹ نے ایک ایسے قانون کو رد کر دیا جو کہ ان کے اپنے اختیارات سے متعلق تھا۔ اس وقت کی سپریم کورٹ نے نہ صرف عدلیہ سے متعلق شقوں پر اعتراض کیا بلکہ اس وقت کی پارلیمنٹ کو یہ بھی بتایا کہ اگر ججز کی تعیناتی کے معاملے پر از سر نو قانون سازی نہ کی گئی تو سپریم کورٹ پوری کی پوری ا ٹھارویں ترمیم کو اٹھا کر باہر پھینک دے گی۔ یاد رہے کہ یہ چیف جسٹس افتخار چوہدری کی عدالت تھی جس نے اس قسم کا فیصلہ دے کر قانون سازی کا اختیار بھی پارلیمنٹ سے چھیننے کی کوشش کی۔
دکھ کی بات یہ ہے کہ اس وقت کی پارلیمنٹ نے اٹھارویں ترمیم کو بچانے کی خاطر سپریم کورٹ کے حکم پرعمل کرتے ہوئے ججز کی تعیناتی کے سلسلے میں ان تمام باتوں کو ایک نئے قانون کا حصہ بنا لیاجن کا تقاضا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں بنے بنچ نے کیا۔ یہ بھی ایک انوکھا واقعہ تھا جس میں جن اداروں کے حوالے سے قانون سازی کی جارہی تھی ان ہی کی مرضی اور منشا سے قانون کی نوک پلک درست کی گئی۔ میرے نزدیک تو اسی دن اس بات کا فیصلہ ہو گیا تھا کہ پارلیمنٹ کی بالادستی صرف کاغذ پر تحریر کئے گئے الفاظ تک ہی محدود ہے جو ایک کھوکھلے نعرے کے سوا کچھ نہیں۔ پچھلے وقتوں میں ہم نے سن رکھا تھا کہ پارلیمنٹ قانون سازی کرنے میں مکمل آزادی رکھتی ہے، پھر ہمیں بتایا گیا کہ یہ آزادی مکمل تو ہے لیکن آئین کے کچھ ایسے حصے ہیں جنہیں چھیڑنے کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس بھی نہیں ہے۔ سب سے پہلی چیز جو اس ضمن میں بتائی گئی وہ پاکستان کا اسلامی تشخص ہے، ہمیں بتایا گیا کہ کوئی بھی پارلیمنٹ کسی بھی صورت میں اس سے چھیڑ خانی نہیں کر سکتی۔ پھر اس کے بعد پتہ چلا کہ بنیادی حقوق کو بھی اسی ضمن میں شامل کر لیا گیا ہے، ان میں بھی کسی قسم کی ترمیم کی گنجائش پاکستان کی پارلیمنٹ کے پاس نہیں ہے۔ رفتہ رفتہ پارلیمنٹ کے قانون سازی کرنے کااختیار کم کر دیا گیااور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب ہمسایہ ملک بھارت سے ہماری عدلیہ نے آئین کے بنیادی ڈھانچے کا تصور لے لیا۔ اس سوچ کے تحت کسی بھی قسم کی قانون سازی جو آئین کے بنیادی ڈھانچے سے مطابقت نہ رکھتی ہو سپریم کورٹ کی جانب سے رد کی جا سکتی ہے۔ اب اس بنیادی ڈھانچے میں کیا کیا آتا ہے اس کے بارے میں بھی فیصلہ کرنے کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس چلا گیاہے۔ یوں پارلیمنٹ کا قانون سازی کا اختیارگھٹتے گھٹتے بہت محدود ہو کر رہ گیا ہے۔
اس تابوت میں آخری کیل لیکن چیف جسٹس افتخار چوہدری کے زمانے میں لگائی گئی، جب عدلیہ میں ججز کی تعیناتی کے معاملے پر پاکستان کی سپریم کورٹ نے اپنی مرضی کی قانون سازی کروائی۔ اس کے بعد توپارلیمنٹ نے خود ہی اپنی کمزوری تسلیم کر لی اور انیسویں ترمیم میں خود ہی اپنے قانون سازی کے اختیارات کے محدود ہونے کا اقرار کر لیا۔ اب آنے والے دنوں میں اگر پارلیمنٹ پھر سے خود مختار ہو کر فیصلے کرنے کی خواہش کرے گی تو یقیناََانیسویں ترمیم کی مثال دے کر اس خواہش پر قدغن لگائی جا سکتی ہے۔

تازہ ترین