کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘میں گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نےکہاہے کہ اگر نواز شریف کی تقریر نشر کرنے پر پابندی لگائی جاتی ہے یہ تمام اقدامات پاکستانی قوم پری پول دھاندلی کے زمرے میں شمار کرے گی، وزیراعظم نواز شریف نے سیاہی ابھی خشک نہیں ہوئی تھی فیصلے کی اپنا عہدہ چھوڑ دیا، ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے پھانسی کے فیصلے پرا ٓج تک پیپلز پارٹی اعتراض کرتی ہے اس فیصلے کو قبول نہیں کرتی اسے انصاف کاقتل قرار دیتی ہے تو کیا سمجھا جائے وہ توہین عدالت کررہی ہے، سپریم کورٹ نے جو جسٹس منیرکیس ہے اس میں مولوی تمیز الدین کیس میں فیصلہ دیا آج تک اس فیصلے پر تنقید ہوتی ہے اور خود عدلیہ کے جج بھی اس سے گھبراتے ہیں دفاع کرتے ہوئے، کیا وہ توہین عدالت ہے،فیصلے کو تسلیم کردیا، اس پر عمل کردیا،نواز شریف کے ساتھ جتنا بھی جبر کیا جائے گا اس سے ان کی ہمدردی اور ان کی حمایت میں اضافہ ہوگا۔ شاہزیب خانزادہ: احسن اقبال صاحب ظاہر ہے ابھی تک جو سخت تنقید تھی وہ نواز شریف اور مریم نواز کی طرف سے ہوتی رہی ہے، آپ لوگوں کی جوا ٓج تقاریر تھیں وہ صرف اقامہ کے فیصلے کو بنیاد بنا کر نہیں بلکہ over all scenario پر تھی، کیا پالیسی ہے؟ پارلیمانی پارٹی میں کیا فیصلہ ہوا ہے، کچھ پارلیمنٹ میں ترمیم لائیں گے، قراردادیں لے کر آئیں گے، کیا کریں گے یہاں سے؟ احسن اقبال: سب سے پہلے تو میں یہ کہنا چاہوں گا کہ کسی قسم کا کوئی سازشی ایجنڈا نہیں ہے بلکہ ہم سب اس بات پر بہت فکرمند ہیں کہ پچھلے پانچ سالوں میں ہم نے پاکستان کو ٹرن اراؤنڈ کیا، پوری دنیا معترف ہے، پوری قوم اس بات کو محسوس کررہی ہے کہ لاء اینڈ آرڈر میں بہتری آئی، ملک کی معیشت بہتر ہوئی، توانائی کا بحران بہتر ہوا، اب ہم بہت اہم سنگ میل کو عبور کرنے جارہے ہیں کہدوسری بار ستر سال کی تاریخ میں پانچ سال کی مدت مکمل ہوگی اور ایک جمہوری عمل کے ذریعہ دوبارہ انتقال اقتدار ہوگا، اب اس موقع پر جو منظرنامہ بن رہا ہے، جس قسم کا تناؤ نظر آرہا ہے نظام میں اور بالخصوص عدلیہ کے ساتھ جو narrative بن رہے ہیں سیاسی میدان کے اندر اور پارلیمنٹ میں بھی اس میں آرہی ہے یہ ملک کے لئے بہت زہر قاتل ہے بالخصوص میں آپ کو ذمہ داری کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس وقت ہمیں اندازہ ہے کہ پاکستان کے جو دشمن لابیز ہیں وہ سی پیک کو ناکام کرنے کے لئے ہماری اقتصادی ترقی کو رول بیک کرنے کے لئے کام کررہی ہیں۔ شاہزیب خانزادہ: یہ جو معاملہ ہے عدلیہ کا اور پارلیمنٹ کا، یہ نواز شریف کی پارٹی صدارت کے حوالے سے تقریر کی گئی ہے، کیونکہ پارلیمنٹ کا وہ فیصلہ ہے جو over turn ہوسکتا ہے عدالت سے یا کوئی اور معاملہ ہے؟ احسن اقبال: پہلی بات تو یہ ہے چونکہ یہ معاملہ ابھی عدالت کے زیربحث ہے وہاں وکلاء بات کررہے ہیں لیکن اس قانون سازی کو جس انداز میں رنگ دیا گیا ہے وہ ایک سیاسی پس منظر اختیار کرتا جارہا ہے اور یہ بات میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ اگر نواز شریف جو مسلم لیگ ن کے صدر ہیں ان کو ان کے عہدے سے ہٹایا جاتا ہے یا جیسے آپ نے کہا ان کی تقریر نشر کرنے پر پابندی لگائی جاتی ہے یہ تمام اقدامات پاکستانی قوم پری پول دھاندلی کے زمرے میں شمار کرے گی کیونکہ پاکستان کے مقبول ترین لیڈر اور پاکستان کی سب سے بڑی جماعت کو آپ اس کے ہاتھ پیر باندھ کر کہیں کہ وہ انتخابی عمل میں اترے تو یہ تو پھر پری پول دھاندلی کا منصوبہ بن جائے گا، میں نہیں چاہتا یا کوئی بھی نہیں چاہتا کہ اس حوالے سے کوئی بھی الزام عدلیہ کے اوپر جائے، چونکہ ہمارے لیے جتنے دکھ کی بات یہ ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کو نااہل کیا گیا ہے اتنے ہی دکھ کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے عدلیہ کے اعلیٰ ترین ادارے جو ہیں وہ ایک سیاسی تنازع میں گھرتے چلے جارہے ہیں، یہ بھی سوسائٹی کے لئے بہت بڑا جھٹکا ہے ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ شاہزیب خانزادہ: اگر تقریر پر پابندی نہیں لگتی تو توہین عدالت ہوسکتی ہے، چیف جسٹس نے بہت سخت ریمارکس دیئے کہ پہلے غیرمشروط معافی دیدیتے تھے لیکن اب لوگوں نے وطیرہ بنالیا ہے کہ بات کہہ دینا اور پھرا ٓکر غیرمشروط معافی مانگ لینا، طلال چوہدری اور دانیال عزیز کی مشکل تو پہلے ہی بڑھ گئی اور نواز شریف اور مریم نواز کی مشکل بھی بڑھ سکتی ہے جس قسم کی وہ تقاریر کررہے ہیں، پابندی نہیں لگے گی تو توہین عدالت ہوسکتی ہے؟ احسن اقبال: اس کافیصلہ تو عدلیہ ہی کرے گی لیکن میں صرف یہ بات ضرور کہوں گا کہ جہاں تک عدلیہ کے فیصلے کا تعلق ہے اس کے دو پہلو ہیں، ایک اس پر عملدرآمد ہے، توہین تب ہوتی ہے کہ جب آپ عدالت کے فیصلے کو قبول نہ کریں، وزیراعظم نواز شریف نے سیاہی ابھی خشک نہیں ہوئی تھی فیصلے کی اپنا عہدہ چھوڑ دیا، فیصلے کو تسلیم کردیا، اس پر عمل کردیا، لیکن جو فیصلے کے میرٹس ہیں اس کے اوپر بحث کرنا، اس کے اوپر تحفظات رکھنا یہ ہر کسی کا آئینی وقانونی حق ہے، ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے پھانسی کے فیصلے پرا ٓج تک پیپلز پارٹی اعتراض کرتی ہے اس فیصلے کو قبول نہیں کرتی اسے انصاف کاقتل قرار دیتی ہے تو کیا سمجھا جائے وہ توہین عدالت کررہی ہے، سپریم کورٹ نے جو جسٹس منیرکیس ہے اس میں مولوی تمیز الدین کیس میں فیصلہ دیا آج تک اس فیصلے پر تنقید ہوتی ہے اور خود عدلیہ کے جج بھی اس سے گھبراتے ہیں دفاع کرتے ہوئے، کیا وہ توہین عدالت ہے، نصرت علی بھٹو ظفر علی شاہ کے فیصلے سپریم کورٹ نے دیئے تھے لیکن ان کے اوپر آج بھی اعتراض ہوتے ہیں اور ہر کوئی اعتراض کرتا ہے کیا وہ توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔ شاہزیب خانزادہ: اگر توہین عدالت بھی نہ ہو، نواز شریف کی تقریر پر پابندی بھی نہ لگے تو نیب کو چھ مہینے ہوجائیں گے اگلے مہینے، اگر نیب نے خلاف فیصلہ دیدیا تو نواز شریف تو پہلے ہی مانے بیٹھے ہیں کہ میرے خلاف بغض ہے اورا یک جج کو مریم نواز نے بھی اپنی کل کی تقریر میں کہا کہ وہی جج جو پاناما بنچ میں تھے وہی مانیٹرنگ جج لگ گئے ہیں تو تیسرا ایک مہینے بعد فیصلہ آسکتا ہے۔