چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نےآئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کی تقرری سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سندھ حکومت کے وکیل سے سوال کیا ہے کہ اےڈی خواجہ سےکیوں پریشان ہیں؟، فاروق ایچ نائیک بولےکھل کرکہتا ہوں کوئی پریشانی نہیں۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 3 رکنی بنچ کیس کی سماعت کررہا ہے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کوئی پریشانی نہیں تو اس کیس کو2سال کے لیے ملتوی کردیتے ہیں،کیاہمارےپاس اختیار نہیں کہ آئین کےبرخلاف بنائے قوانین کو کالعدم کر سکیں؟،کیا بنیادی حقوق سے متصادم قانون کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا؟ ،جنھیں قانون کاعلم نہیں وہ بھی عدلیہ کے اختیار پربات کرتے ہیں۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا آپ ملتوی کردیں ، میں قانون کی بات کررہاہوں ،سپریم کورٹ پارلیمنٹ کےقانون سازی کے اختیار پر قدغن نہیں لگا سکتی،
پارلیمنٹ نےاختیار صوبائی حکومت کو دیاہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ صوبےمیں اہم عہدوں پر افسران کی تقرری کی میعاد3 برس ہے، لگتا ہےسندھ ہائیکورٹ نےیکسانیت پیدا کرنےکے لئے آئی جی کی مدت بھی3سال کردی،آئی جی کو صوبائی حکومت کے کہنےپرہٹا دیاجائےصوبےکےمفادمیں ہوگا؟،پولیس کا کام کسی سیاسی مداخلت کے بغیر ہونا چاہیے، ہم یہ بات نہیں مان سکتے کہ آپ جب چاہیں آئی جی کا تبادلہ کردیں۔
چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ مجھے موقع ملا تو پولیس کا یونیفارم لاء ہوگا،1861کا قانون آپ نے ریوائز کردیا۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پولیس کے حوالے سے 4قوانین ہیں جو ایک دوسرے سے متضاد ہیں۔