اسلام آباد (نمائندہ جنگ)چیف جسٹس میاںثاقب نثار نے کہا ہے کہ بیرون ملک اکائونٹس کیس کے حوالے سے از خود نوٹس لینے پر 6.2بلین روپے کی وصولی ہوئی ہے ،فاضل چیف جسٹس نے جمعرات کے روز ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران کہا کہ انہیں چیئرمین ایف بی آرنے بتایا ہے کہ اب تک 6.2بلین روپے وصول ہوچکے ہیں ،ہمیں خدشہ ہے کہ اس رقم کو کنسولیڈیٹڈ فنڈز میں ڈال کر آئندہ انتخابات کے لئے استعمال کیا جائے گا،اس لئے اس حوالے سے ایک الگ سے اکائونٹ کھولنے کا حکم جاری کرنے پر غور کررہے ہیں ۔مجھے تو اس پیسے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔میں تو سوچ رہا ہوں اس کیس میں ریکور ہونے والے پیسہ کا الگ فنڈز بنا دوں۔ان کا کہنا تھا کہ کیا معلوم ریکور ہونے والا پیسہ امیدواروں کی انتخابی مہم پر خرچ ہو جائے،دریں اثناعدالت عظمیٰ نے بنی گالہ اور ملحقہ علاقوں میں غیر قانونی تعمیرات اور راول ڈیم میں آلودگی پھیلانے کے خلاف از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیئرمین سی ڈی اے کو ذاتی طور پر ان علاقوں میں جاکر عوامی مسائل سے آگاہی حاصل کرکے ان کا حل پیش کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے سماعت منگل 6مارچ تک ملتوی کردی ہے جبکہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے ہیں کہ بجلی ،گیس کے نئے کنکشن کی پابندی صرف اور صرف غیر اجازت شدہ تعمیرات پر ہے ، چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بنچ نے جمعرات کے روز کیس کی سماعت کی تو وزیر مملکت کیڈ طارق فضل چوہدری ، چیئرمین سی ڈی اے ،اور ان علاقوں کے رہائشی افراد پیش ہوئے ،جن کے ایک نمائندہ محمد یونس نے موقف اختیار کیا کہ ان لوگوں کے آبائو اجداد پچھلے چار سو سال سے ان علاقوں میں آباد ہیں، اس عدالت میں حکومتی سطح پر آنے والا ہر شخص ہی مسئلے کا کوئی درست حل پیش نہیں کررہا ،یا تو یہ عدالت سے خوفزدہ ہیں یا اپنی کوتاہیاں چھپانا چاہتے ہیں، یہاں پر اتنی زیادہ آباد ہو چکی ہے کہ کوئی بھی پابندی قابل عمل نہیں ،ہم بجلی گیس کے بل ادا کرتے ہیں، مسجد کے گیس میٹر کے لئے ہم سے 42ہزار روپے لئے گئے ہیں، جس پر فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ آئندہ سماعت پر آپ ہمیں اس کی رسید دکھائیں ،چیف جسٹس نے واضح کیا کہ میں وعدہ کرتا ہوں کہ جس جس کے گھر بن چکے ہیں انہیں گرانے کو نہیں کہیں گے لیکن آپ لوگ اپنی تعمیرات کو ریگولرائز کروائیں ،تاکہ آپ کو بھی تمام تر سہولیات دی جا سکیں ،انہوںنے واضح کیا کہ بجلی ،گیس کے نئے کنکشن کی پابندی صرف اور صرف غیر اجازت شدہ تعمیرات پر ہے ،ہم یہ سب کچھ عوام الناس ہی کی بہتری کے لئے کر رہے ہیں، محمد یونس نے بتایا کہ ہمیں تو آج تک کسی سرکاری ادارے نے یہ تک نہیں بتایا ہے کہ نقشہ کس ادارے نے منظور کرنا ہے ،انہوںنے عدالت سے مقامی آبادی کے مسائل پرہمدردانہ غور کرنے کی استدعا کی تو فاضل چیف جسٹس نے چیئرمین سی ڈی اے کو ذاتی طور پر ان علاقوں میں جاکر عوامی مسائل سے آگاہی حاصل کرکے ان کا حل پیش کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے سماعت منگل 6مارچ تک ملتوی کردی۔آن لائن کے مطابق سپریم کورٹ نے عمران خان کی بنی گالا رہائش گاہ سے متعلق اسلام آباد انتظامیہ کی رپورٹ پر ایک ہفتے میں جواب طلب کر لیا ہے جبکہ عدالت نے راول ڈیم کے پانی کا جائزہ لینے کیلئے سردار اسلم ایڈووکیٹ کو کمیشن مقرر کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ راول ڈیم میں لگے فلٹریشن پلانٹ اور ڈیم کا جائزہ لے کر سپریم کورٹ میں رپورٹ پیش کریں، چیف جسٹس نے کہاکہ طارق فضل صاحب راول ڈیم میں گنداپانی روکنے کیلئے آپ نے کیاکیا؟راولپنڈی کے لوگوں کوراول ڈیم کاپانی فراہم کیاجاتاہے۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اے رزاق مرزانے موقف اپنایاکہ پانی کوفلٹر کرنے کرنے کیلئے پلانٹ لگے ہیں پلانٹ کس طرح فلٹرکررہے ہیں اس حوالے سے معلوم نہیں ،چیف جسٹس نے کہا کہ کیوں نہ چل کر فلٹریشن پلانٹ کامعائنہ کریں۔ بعد ازاں عدالت نے سینئروکیل سردارمحمد اسلم کوکمیشن مقرر کرتے ہوئے ہدایت کی کہ راول ڈیم کے فلٹریشن پلانٹ کادورہ کریں اورراول ڈیم کی کنڈیشن کاجائزہ لے کررپورٹ دیں چیف جسٹس نے کہاکہ کمیشن کے سربراہ اپنے ساتھ میڈیاکے کیمرے بھی لے جائیں چیف جسٹس کے استفسار پر فاضل وکیل نے بتایا کہ وہ بھی راولپنڈی کے رہائشی ہیں تو چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا آپ بھی راول ڈیم کاپانی پیتے ہیں ؟وقفے کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ عدالت نے راول ڈیم کے اردگرد تعمیرات کی تفصیل مانگی تھی اس لئے لیز کی تفصیلات عدالت میں پیش کردی ہیں جس کے مطابق سرکاری اراضی کی 8 لیزز کی منظوری سی ڈی اے نے دی ہے یہ ساری لیز 2007 میں 15 سال کیلئے دی گئی۔ایک ایکڑکاسال کاایک لاکھ 20 ہزار لیز بنتی ہے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ لیزلینے والاکمرشل کاروبار کی آمدن کا 5 فیصد سی ڈی اے کودیتاہے، چیف جسٹس نے چیئرمین سی ڈی اے سے استفسار کیاکہ لیز کے معاملات کتنے دنوں میں درست ہوجائیں گے۔چیئرمین سی ڈی اے نے جواب دیا کہ 10 دن میں معاملات ٹھیک ہوجائیں گے ، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس قانون کے تحت یہ سرکاری اراضی لیزپر دی گئی ، جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ یہ لیزز سابق چیئرمین کامران لاشاری کے دور میں دی گئیں۔ ممبر سی ڈی اے نے بتایا کہ 2007 میں قانون میں ترمیم کرکے لیززمین آکشن سے دینے کی شرط ختم کردی گئی تھی ، چیف جسٹس نے کہاکہ یہ بھی ہوسکتاہے یہ سرکاری زمین آگے لیز پر دے دی گئی ہو۔لیززمین حاصل کرنے والوں کونوٹس جاری کرتے ہیں دیکھتے ہیں لیززمین پر کیاہورہاہے۔چیئرمین سی ڈی اے خود جاکرلیز زمین کاجائزہ لیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ چیئرمین سی ڈی اے اس سرکاری اراضی کی راول ڈیم میں لیززختم کریں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ یہ سرکاری اراضی کی لیزز قانونی طریقہ کار سے نہیں ہوتی۔عدالت نے اپنے حکم میں قرار دیا کہ راول ڈیم میں سرکاری اراضی کی لیزز سابق چیئرمین کامران لاشاری کے دور میں ہوئیں، اس لئے کامران لاشاری وضاحت کیلئے آئندہ سماعت پر پیش ہوں، عدالت نے سرکاری زمین لیز پرحاصل کرنے والوں کوبھی نوٹس جاری کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ لیزپر دی سرکاری اراضی پر کمرشل سرگرمیوں پر آمدنی سے متعلق بتایا جائے چیف جسٹس نے کہاکہ چیئرمین صاحب یہ سارے کام آپ نے دھیان سے کرنے ہیں میری بات آپ سمجھ رہے ہیں۔ وزیر مملکت برائے کیڈ کا طارق فضل چوہدری کا کہنا تھا کہ انہوں نےعدالت کی ہدایت پر 14 فروری سے 16 فروری تک بنی گالہ کی دومختلف جگہوں پرکیمپ لگایا۔علاقہ مکینوں سے مسائل کے حوالے سے تجاویز لیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جوگندے نالے راول ڈیم میں جارہے ہیں ان کو7روز میں بند کردیں گے۔ ۔ علاقہ مکینوں نے کہاکہ سیورج کے لیے علاقہ مکین پیسہ اکٹھے کر لیتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ علاقہ مکینوں سے پیسہ اکٹھا کریں ایک لاکھ میرا بھی شامل کر لیں۔علاقہ مکینوں نے کہاکہ سی ڈی اے سیوریج کی مرکزی لائن ڈال دے ،سپلیمنٹری لائنیں ہم خود ڈال لیں گے۔ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایاکہ راول ڈیم کی معیاد ختم ہو چکی ہے اس کے لیے متبادل ڈیم کی جگہ بھی ہے۔