• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک بار پھر سندھ کے آباد گاروں، افسروں اور دیگر حکام کی طرف سے یہ شکایات آنے لگی ہیں کہ وفاقی حکومت کی طرف سے سندھ کے حصے میں سے پانی چوری کیا جانے لگا ہے جس کے نتیجے میں سندھ کے مختلف علاقے جو پہلے ہی پانی کی قلت کا شکار تھے اب سوکھنے لگے ہیں۔ اس لئے اس بار سندھ میں شاید ربیع کی فصل برائے نام ہو اور سندھ شدید اقتصادی بحران کا شکار ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ اس سلسلے میں مختلف ذرائع سے جو اطلاعات آرہی ہیں ان کے مطابق سندھ کا پانی کوئی ایک ہفتے یا دس دن سے چوری ہونے لگا ہے۔ اس عرصے کے دوران پنجاب کی طرف سے روزانہ سندھ کا 4 ہزار کیوسک پانی چوری کیا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے رسمی طور پر یہ اطلاع سندھ اری گیشن اینڈ ڈرینج اتھارٹی (سیڈا) کے ایم ڈی نے اتوار 25 فروری کو ایوان زراعت سندھ حیدرآباد کے آفس میں سندھ کی واٹر پالیسی بنانے کے سلسلے میں منعقد کئےگئے اجلاس کے بعد اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے فراہم کی ۔ انہوں نے کہا کہ یہ پانی سندھ کی بقا کا مسئلہ ہے اور بتایا کہ پنجاب سے پانی کے معاہدے کے تحت پانی حاصل کرنے کے لئے حکومت سندھ یہ کیس لڑرہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر سندھ کاپانی یوں ہی چوری ہوتا رہا تو سندھ کو ایک بڑے بحران کا سامنا کرنا پڑے گا،بعد میں منگل کو سندھ اسمبلی نے اتفاق رائے سے چشمہ، جہلم لنک اور تونسہ، پنجند لنک غیر قانونی طور پر کھول کر سندھ کا پانی چوری کرنے کے خلاف قرارداد منظور کی، اس قرارداد پر سندھ کے عوام خوش ہوئے کہ آخر سندھ اسمبلی کے ممبران کو احساس ہوا اور انہوں نےان نا انصافیوں کے خلاف سندھ اسمبلی کے اجلاس میں نہ صرف قرارداد پیش کی بلکہ یہ قرارداد اتفاق رائے سے منظور بھی کی۔ شاید یہ پہلی بار ہے کہ اس قسم کے حساس ایشو پر اسمبلی نے اتفاق رائے سے یہ قرارداد منظور کی۔ یہ قرارداد سندھ اسمبلی کے اقلیتی رکن نند کمار گوکلانی نے پیش کی ۔ وکلانی کا تعلق مسلم لیگ فنکشنل سے ہے جبکہ اب تک یہ جماعت سندھ اسمبلی بہت کم متحرک ہوتی دیکھی گئی۔ سندھ کے لئے ایک اور بات خوشی کا باعث بنی کہ اس بار ایم کیو ایم کے سینئر لیڈر اور ایم پی اے سید سردار احمد نے بھی اس قرارداد کے حق میں اسمبلی کے فلور پر ایک زور دار بیان دیااور حکمراں پارٹی مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والی خاتون ممبر سورٹھ تھیبو بھی اس قرارداد کے حق میں بولیں،بعد میں اتفاق رائے سے یہ قرارداد منظور کرلی گئی، پی ٹی آئی کے ممبران نے بھی اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا مگر سندھ کے وسیع حلقوں کی یہ رائے ہے کہ کاش دیگر پارٹیوں کی طرح پی ٹی آئی کا کوئی ایم پی اے بھی اس قرارداد کے حق میں تقریر کرتا۔ فنکشنل مسلم لیگ کے ایم پی اے گوکلانی نے کہا کہ وہ یہ غیر سرکاری قرارداد سندھ میں پانی کے شدید بحران کے باوجود پنجاب کی طرف سے سی جے لنک اور ٹی پی لنک غیر قانونی طور پر کھول کر سندھ کا پانی چوری کرنے کے خلاف پیش کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت سندھ میں پانی کی شدید کمی ہے لہذا حکومت سندھ اس ناانصافی کے خلاف وفاق کے سے احتجاج کرےاور ہمیں اس ایشو پر متفق ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اسی طرح 91ء کے پانی کے معاہدے پر عمل نہ کرنے کے نتیجے میں سمندر روزانہ تقریباً سندھ کی 100 ایکڑ زمین کو نگل رہا ہے۔ سندھ کے صوبائی وزیر امداد علی پتافی نے اس قرارداد کی حمایت کی اور کہا کہ حکومت سندھ اس اہم ایشو پر وفاقی حکومت سے احتجاج کرے گی اور کہا کہ ہم کسی طور پر بھی خاموش نہیں رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وفاق کو اس صورتحال کا جواب دینا ہوگا کیونکہ تین ماہ سے کم پانی آنے کی وجہ سے سندھ کی زمینیں بنجر ہورہی ہیں۔ اس مرحلے پر ایم کیو ایم کے پارلیمانی قائد سید سردار احمد نےاس بات پر احتجاج کیا کہ سیلاب کے پانی کو اسٹور کرنے کے لئے تعمیر کئے گئے کینالز کو کھولنا ناانصافی ہے، ہم اس قرارداد کی حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پانی کا مسئلہ بہت پرانا ہے اور پانی کے معاہدے پر عمل ہونا چاہئے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ پانی کے مسئلے پر اس سے پہلے بھی سندھ اسمبلی قرارداد منظور کرکے پانی کے معاہدے پر عملدرآمد کرنے کا مطالبہ کرچکی ہے مگر پھر بھی کوئی فرق نہیں پڑا۔ مسلم لیگ (ن) کی خاتون ایم پی اے سورٹھ تھیبو نے بھی اس قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ انتہائی اہم قرارداد ہے، یہ وقت کی ضرورت ہے کہ سندھ کو اپنے حصے کا پانی فراہم کیا جائے کیونکہ پانی کی شدید کمی کے خلاف سارا سندھ احتجاج کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہت ہوچکا اب ناانصافیاں ختم ہونی چاہئیں۔ اس مرحلے پر میں یہ بات بھی ریکارڈ پر لانا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ کوئی پہلی بار نہیں ہے کہ سندھ کا پانی چوری کیا جارہا ہے، جہاں تک اس مقصد کے لئے سی جے لنک اور ٹی پی لنک کھولنے کا تعلق ہے تو یہ اقدام 70ء کی دہائی میں جب سندھ کے وزیر اعلیٰ ممتاز بھٹو اور پنجاب کے وزیر غلام مصطفی کھر تھے اس وقت ان دونوں وزرائے اعلیٰ کے دستخطوں سے ایک معاہدہ ہوا تھا جس پر وفاقی حکومت کے بین الصوبائی معاملات کے وفاقی وزیر عبدالحفیظ پیرزادہ نے بھی گواہ کے طور پر دستخط کئے تھے اورطے کیا گیا تھا کہ سی جے لنک اور ٹی پی کنک کو سندھ حکومت کی قبل از وقت اجازت کے بغیر نہیں کھولا جائے گا، یہ معاہدہ اس وقت بھی موجود ہے مگر میں یہ بات بھی یاد دلاتا چلوں کہ 90 کی دہائی میں بھی جب غلام مصطفی کھر پانی کے وفاقی وزیر تھے سندھ کا پانی چوری کیا گیا تھا، یہ ایک الگ بڑا ایشو ہے جس کے بارے میں جلد ہی ایک الگ کالم لکھوں گا۔
کراچی کو اضافی پانی دینے سے وفاق کا انکار
انہی دنوں سندھ سے ایک اور زیادتی ہوئی ہے، کراچی شہر کو کے 4- کے تحت اضافی پانی دینے کے لئے سندھ حکومت کی تجویز پچھلے پیر کو اسلام آبا دمیں وزیر اعظم کی صدارت میں مشترکہ مفادات کی کونسل (سی سی آئی) کے اجلاس میں زیر غور آئی ، اس تجویز کے مطابق حکومت سندھ نے وفاق سے مطالبہ کیا تھا کہ پانی کے مشترکہ پول میں سے 1200 کیوسک پانی کراچی کو اضافی طور پر فراہم کیا جائے مگر وفاق اور پنجاب نے حکومت سندھ کی اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ نئے ڈیم بنائے جائیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت سندھ کی اس تجویز کی دیگر دو چھوٹے صوبوں نے بھی حمایت نہیں کی جب یہ ایشو زیر غور آیا تو کے پی کے وزیر اعلیٰ اجلاس سے غیر حاضر تھے اور بلوچستان کے وزیر اعلیٰ اجلاس میں تو موجود تھے مگر اس تجویز پر خاموش رہے جبکہ اسی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ اسلام آباد کے لئے سندھ بھی اپنے حصے سے پانی دے گا حالانکہ کراچی کو منی پاکستان کہا جاتا ہے یہاں سارے صوبوں کے لوگ رہتے ہیں اور غیر ملکی غیر قانونی تارکین وطن کی بھی ایک بڑی تعداد کراچی میں ہے مگر کوئی دوسرا صوبہ کراچی کو پانی دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔

تازہ ترین