• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
??? ????

کرامت بخاری

سیرِ گلشن کو جہاں، میرا ضنم جاتا ہے

پھر وہاں وقت بھی،چلتا ہوا تھم جاتا ہے

لفظ میں جو بھی لکھوں، سرخیِ خونِ دل سے

آ کے وہ صفحۂ قرطاس پہ، جم جاتا ہے

چپ جو رہتا ہوں تو دنیا، نہیں رہنے دیتی

بات کرتا ہوں تو صدیوں کا بھرم جاتا ہے

تُو نے دیکھا ہے، تری بزم سے اٹھ کر، اک شخص

جب بھی جاتا ہے وہ بادیدۂ نم جاتا ہے

ذہن بیمار ہے، ہر شے کا خریدار بھی ہے

دل مگر مصر کے بازار میں کم، جاتا ہے

کربلا کی یہ روایت ہے، کرامت اب تک

چل کے جاتا نہیں سر، ہو کے قلم جاتا ہے

لیاقت علی عاصم

ڈال دے، حرمتِ وصال پہ خاک

اس گناہوں بھرے خیال پہ خاک

ایک لمحے میں، پڑ گئی کیسے

سال ہا سال کے کمال پہ خاک

روح جیسا بدن، بکھیر دیا

اے محبت، تری مجال پہ خاک

آئینہ ٹوٹ ہی گیا آخر

ایسے ہاتھ، ایسی دیکھ بھال پہ خاک

اور بے حال کر لیا، خود کو

خاک، اس شوقِ عرضِ حال پہ خاک

درد، آگے نکل گیا، ہم سے

اے دلِ خستہ ،تیری چال پہ خاک

زخم، اے وقت، داغ بن بیٹھا

جا، ترے نازِ اندمال پہ خاک

سعدیہ حریم

رُخِ دُعا ہو، اُسی خالق جہاں کی طرف

بری نظر نہ اُٹھے، میرے آستاں کی طرف

یہاں بھی آ کے برس جائے، رحمتوں کی گھٹا

اسی اُمید میں دیکھا ہے ،آسماں کی طرف

کہیں کسی سے ہمارا ، نہ حالِ دل کہہ دے

یہ سوچ سوچ کے تکتے ہیں، راز داں کی طرف

شدید دھوپ میں، اک جھونپڑی بنائی تھی

کسی نے آگ لگا دی ہے، سائباںکی طرف

نہ پوچھئے کہ کنارے پہ کیسے، ڈوب گئے

بس اپنا ہاتھ بڑھایا تھا، مہرباں کی طرف

وہ، جن کو ہم نے بتائے تھے، منزلوں کے نشاں

ہمیں کو چھوڑ کے نکلے ہیں، کہکشاں کی طرف

سدا رہے مرے مالک! تری حفاطت میں

ہے دشمنوں کی نظر، میرے آشیاں کی طرف

تازہ ترین
تازہ ترین