• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ چند ہفتوں کے دوران فیصل نقوی، سلمان راجہ اور عافیہ شہربانو کے درمیان لبرل موقف کے حوالے سے وفاقی شرعی عدالت کی افادیت پر سیر حاصل بحث ہوئی ۔ فیصل نقوی کی دلیل ہے کہ چونکہ اسلامی معاملات پر حرف ِ آخر رکھنے والی وفاقی شرعی عدالت نے اسلام کیلئے کچھ نہیں کیا ، چنانچہ لبرل افراد کو اس کا مشکور ہونا چاہیے، کیونکہ وفاقی شرعی عدالت کی فعالیت اُن کی مشکلات میں اضافہ کرسکتی تھی۔ سلمان راجہ اور عافیہ نے البتہ اس رائے سے اتفاق نہ کیا ۔ کہا کہ ملائوں کو خوش کرنے کی کوشش (جو پانی پر ریت میں پھول اگانے کےمترادف ہے)میں ہم خود بھی ملا بنتے جارہے ہیں۔ فیصل نقوی لبرلز کو مشورہ دیتے ہیں کہ اُنہیں اس مہربانی پر جشن منانا چاہیے کہ وفاقی شرعی عدالت انقلابی یا انتہائی اقدام اٹھاتے ہوئے اسلامائزیشن کے ذریعے اُن کے گرد گھیرا تنگ کرسکتی تھی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ وفاقی شرعی عدالت کی افادیت کا تعین کرنے سے زیادہ یہ مکالمہ اس سوچ کا اظہار کرتا ہے جو ہمارے معاشرے میں لبرلز، جو بلاشبہ بہت تھوڑ ی تعداد میں ہیں،کی رائے اس بات پر بھی منقسم ہے کہ ریاست اور مذہب کے درمیان کیا تعلق ہونا چاہیے۔ وفاقی شرعی عدالت سے بات کا آغاز کرتے ہیں۔ جب فیصل نقوی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وفاقی شرعی عدالت نے اسلام پسندوں کو خوش نہیں کیا ہے تو دراصل اُن کے (فیصل کے) موقف میں تضاد دکھائی دیتا ہے،لیکن اس سے یہ بات یقینا ثابت ہوتی ہے کہ ایسی صورت میں وفاقی شرعی عدالت اپنا جواز کھوچکی۔ اس سے قطع نظر کہ اس کے قیام کا کیا مقصد تھا، یہ دعویٰ کہ مذہبی طبقے کی طرف سے نفاذ ِ شریعت کے ذریعے پاکستان کو اسلامی خلافت میں تبدیل کرنے کے مطالبے کیلئے ڈالے جانے والے دبائو کی صورت میں وفاقی شرعی عدالت ایک سیفٹی والوکا کام دیتی ہے، صرف اُس صورت میں درست مانا جاتا جب یہ عدالت اسلامی انتہا پسندوں پر کچھ اثر رکھتی۔ ایسی سوچ رکھنے والےافراد وفاقی شرعی عدالت، چاہے اس کی فعالیت کچھ بھی نہ ہو، کی موجودگی سے بھی مطمئن رہتے ہیں۔فیصل نقوی کی طرف سے پیش کی گئی دوسری کھوکھلی دلیل یہ ہے کہ وفاقی شرعی عدالت اُن ترقی پسند جج حضرات کیلئے ایک اچھا جواز ہے جو نہیں چاہتے کہ کیسز میں اسلامی حوالہ جات استعمال کرتے ہوئے ملک میں مذہب کے نفاذ کو آگے بڑھایا جائے۔ حقیقت یہ ہے فاضل جج صاحبان کے پاس ناپسندیدہ درخواستوں کو مسترد کرنے کے لاتعداد قانونی جواز موجود ہوتے ہیں۔ کسی ترقی پسند جج کواپنے دفاع کیلئے وفاقی شرعی عدالت کی پشت پناہی درکار نہیں ہوتی۔ سوال یہ ہے کہ کیا اسلام کو قوانین میں شامل کرنے پر یقین رکھنے والے جج حضرات کو وفاقی شرعی عدالت روکتی ہے کہ وہ عقائد اور ذاتی اخلاقیات کو اپنی عدالتی ذمہ داریوں سے الگ رکھیں؟یقینا ایسا نہیں ہوتا ہے۔ ہمارے سامنے ایسے فیصلوں کی بہت سی مثالیں موجود ہیں جن میں اخلاقی اور مذہبی پندو نصائح شامل ہوتے ہیں۔ وفاقی شرعی عدالت تو ایک طرف، معمول کی عدلیہ کی جانب سے بھی وعظ ونصیحت کا درس جاری رہتا ہے۔ اخباری کالم اس بات کی اجازت نہیں دیتا لیکن ایسے بہت سے جج حضرات کا نام لیا جاسکتا ہے جن کی عدالتی ذمہ داریوں پر اُن کے عقائد اور مذہبی وابستگی اثر انداز ہوتی ہے۔
جوڈیشل استدلال وفاقی شرعی عدالت کو اسلام نافذ کرنے کا جواز فراہم نہیں کرتا ۔ اس کے علاوہ وفاقی شرعی عدالت کی موجودگی کے باوجود مذہبی انتہا پسند عدالتوں پر دبائو ڈال کر اپنے عقائد کے مطابق فیصلے کرانے کی کوشش کرتے ہیں، جیسا کہ ہم نے سلمان تاثیر قتل کیس کے حوالے سے دیکھا ۔ اس دلیل میں بھی کوئی وزن نہیں کہ اگر وفاقی شرعی عدالت نہ ہوتی تو سپریم کورٹ بنچ، جس کی سربراہی جسٹس کھوسہ کررہے تھے، ممتاز قادری کو سزا نہ دے پاتا۔ اس کے برعکس اگر کوئی اور بنچ ہوتا، اس میں مختلف سوچ اور عقائد رکھنے والے یا سیکولر جج حضرات شامل ہوتے، تو بھی فیصلہ یہی آتا۔ لیکن یہ کہنا کہ لبرلز کو اس بات پر مشکور ہوناچا ہیے کہ وفاقی شرعی عدالت ہماری قانون سازی پر اثر انداز نہیں ہورہی، درست نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ چاہے وفاقی شرعی عدالت میں کتنے ہی فاضل جج صاحبان کیوں نہ تعینات ہوں اور یہ انتہائی فعال ہو تو بھی آج اس کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔
جاوید احمد غامدی نے بہت موثر دلیل دی ہے کہ موجودہ دقیانوسی مذہبی سوچ ، جو دینی مراکز میں تنگ نظر ی کے ماحول میں پروان چڑھتی ہے، ہی دہشت گردی کی اصل جڑ ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے دنیا میں پرامن بقائے باہمی کی فضا قائم کرنا ممکن نہیں۔ اس سوچ کے چار نکات یہ ہیں،(i) اہل ایمان کا فرض ہے کہ وہ کافروں اور مشرکوں کو ہلاک کردیں، (ii) غیر مسلموں کو حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں، چنانچہ مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اُن کی حکومت کا تختہ الٹ دیں، (iii) دنیا بھر کے مسلمانوں پر ایک خلیفہ کی حکومت ہو، اور(iv) اسلام میں قوم پر مبنی ریاست ، جیسا کہ آج کل ہیں، کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس سوچ کو تبدیل کیے بغیر دنیا سے نہ دہشت گردی ختم ہوگی اور نہ امن قائم ہوگا۔ ایسے عقائد کے پیروکار اس سوچ کو نافذ کرنے کی کوشش میں ہیں۔ کچھ گروہ تھوڑی سی مختلف سوچ کے ساتھ یہ منصوبہ رکھتے ہیں کہ ایک ریاست اور اس کے قانون کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالا جائے اور پھر اسے دیگر ریاستوں کے خلاف استعمال کرکے پین اسلام ازم کے منصوبے کو آگے بڑھایا جائے۔ کچھ شدت پسند ریاست پر قبضہ کرکے اس پر اپنی من پسند شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ ان دونوں کی سوچ ایک سی ہے، صرف طریق ِکار کا فرق ہے۔ ایک مذہبی شدت پسند کو اپنی سوچ کی درستی کا یہ دیکھ کر یقین آجاتا ہے کہ وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں، چنانچہ وہ سمجھتا ہے کہ ریاست پر زبردستی قبضہ کرلینا چاہیے۔ دوسری طرف پہلی سوچ کے حامی شدت پسندوں کی آمد کو ایک دھمکی کے طور پر استعمال کرتے ہوئے لبرل اور معتدل مزاج حلقوں پر دبائو ڈالتے ہیںکہ اُن کی بات مان لی جائے ورنہ شدت پسند آجائیں گے۔ کچھ لبرل اور معتدل مزاج اُن سے اتفاق کرلیتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ریاست جو مرئی انسان نہیں، کا کوئی مذہب کیسے ہوسکتا ہے؟ لیکن ہمارا آئین کہتا ہے کہ ہماری ریاست کا مذہب ہے، اس پر اسلام پسند خوش ہوجاتے ہیں۔ لبرل اس بات کو کیسے تسلیم کریں گے کہ ریاست عقائد کے معاملے میں کسی کی ذاتی زندگی میں مداخلت کرسکتی ہے؟اس کے باوجود ہم نے ریاست کو اس بات کی اجازت دے رکھی ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ کون مسلمان ہے اور کون نہیں۔ ایک لبرل یہ تسلیم کیسے کرسکتا ہے کہ چند ایک ججوں کویہ اختیار دے دیا جائے کہ وہ ایک قانون، جسے اس ملک کی اسمبلی نے جمہوری طریقے سے بنایا ہے جس میں چھیانوے فیصد مسلمان رہتے ہیں، کو غیر اسلامی، چنانچہ غیر آئینی قرار دے ڈالیں؟یہ صورت ِحال لبرل سوچ رکھنے والوں کیلئے انتہائی پریشان کن، بلکہ تکلیف دہ ہے کیونکہ وہ آئین کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں ۔ جب وفاقی شرعی عدالت یا اسلامی نظریاتی کونسل کچھ معقول بات کرتی ہیں تو اسلامی شدت پسند اُسے رد کردیتے ہیں، لیکن لبرل اور معتدل مزاج افراد اس بات کے پابند ہیں کہ ان دونوں اداروں کی طرف سے جو کچھ بھی کہا جائے، اس کی پابندی کی جائے۔ اس کے سامنے زبان کھولنا بھی روا نہیں۔ چنانچہ کمزوری کی وجہ سے مفاہمت پر آمادہ لبرلز داعش، تحریک ِطالبان پاکستان اور دیگر جہادی تنظیموں کے بیانیے کے مقابلے میں وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل کے مشکور ہیں۔ تاہم اُنہیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ تشکر کا یہ جذبہ یک طرفہ طور پر عدم برداشت اور تنگ نظری کے ہاتھ ہی مضبوط کرتا ہے۔ آپ وفاقی شرعی عدالت یا اسلامی نظریاتی کونسل یا اس طرح کے جتنے مرضی ادارے قائم کرلیں، لیکن جو اسلامی شدت پسند اسکول کے بچوں کو ہلاک کرکے اسلام نافذ کرنا چاہتے ہیں، وہ ان اقدامات سے رام نہیں ہوںگے۔ حدود اور توہین کے قوانین اور اسلامی نظریاتی کونسل کی افادیت پر سینیٹ میں ہونے والی بحث اس کی ایک مثال ہے۔
یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ پاکستان میں قومی سطح پر لبرل بیانیہ ناکام ہوچکا ہے۔ سوال یہ نہیں کہ لبرلز درست ہیں یا غلط، سوال یہ ہے کہ جو افراد لبرل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، اُن کے کھاتے میں کیا کارکردگی ہے؟جس دوران اسلام پسند شدت پسندی پر اترآئے ہیں، لبرلز اپنے قدم پیچھے ہٹارہے ہیں۔ وہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ اسلام پسند اُن کی موجودہ مفاہمت پر اُن سے خوش ہوجائیںگے۔ تاریخ ایسی رجائیت کی تصدیق کرنے سے قاصر ہے۔
تازہ ترین