بہت خوب کہ حکومت نے آخرکار فلم اور کلچرل پالیسی کا اعلان کردیا۔ میں اس سے پہلے کہ اس بارے میں اپنے خیالات کااظہار کروں، آپ پہلے میرے دوست ذیشان حسین کی ایک مختصر تحریر پڑھئے۔ وہ لکھتے ہیں:
پچھلے دنوں فلم اور کلچرل پالیسی کااعلان ہوا۔اس کے تحت فلم کے فروغ کے لئے فلم انڈسٹری کو صنعت کا درجہ دیا گیا۔ نئے اسٹوڈیوز بنائے جائیں گے۔ فنکاروں کی انشورنس ہوگی۔ باہر سے آنے والے فلم میکر کو کھانے پینے پر 70فیصد چھوٹ ہوگی یعنی بہت کچھ ہوگا۔ بہت پیسہ خرچ کیاجائے گا۔ لیکن وہ نہیں ہوگا جو اچھی فلم بنانے کے لئے ہونا چاہئے۔
آپ خاطر جمع رکھئے۔ ایسی کوئی کوشش نہیں ہو رہی جس کے تحت کہانی کے معیار کو جانچنے کے لئے اصول یا طریقہ وضع کیا جائے۔ کوئی ایسی کوشش نہیں ہو رہی کہ فلم کو بعض دوسری پروڈکٹس کی طرح عالمی معیار کا بنایا جائے۔ آپ فکر نہ کریں رائٹر کو لمبے لمبے ڈائیلاگ لکھنےاور لیکچربازی کے لئے ہر طرح کی چھوٹ ہو گی۔
ایک زمانہ تھا جب فیض احمد فیضؔ، کرشن چندر، خواجہ احمد عباس اور سعادت حسن منٹو جیسے لوگ فلم کی کہانی لکھتے تھے لیکن اب رائٹر کی ضرورت ہی کیاہے۔ آپ کسی بھی ہٹ فلم کی کہانی اٹھالیں، ایک آئٹم سانگ ڈالو، کچھ گولیاں چلائو اور پیسے واپس۔
تو جناب! شوق سے انڈسٹری کو صنعت بنایئے لیکن پیسہ لگائیں کہانی پر۔ کہانی لکھنے والے پر۔ اس کے بغیر اسٹوڈیو بنانے کا کیافائدہ۔ اگر مقصد چند گنے چنے لوگوں کو خوش کرنا ہے تو پھر جیسے چاہیں پیسہ بہائیں آپ کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔‘‘
یہ ہیں چند باتیں جو ذیشان حسین نے اس حوالے سے کی ہیں۔ سارازور انہوں نے فلم کی کہانی پر دیا ہےاور یہ بات ہے بھی ٹھیک۔ دیکھئےہر فلم بنیادی طور پر ایک ہی کہانی کے چندرخ لئے ہوتی ہے۔ یہ کہانی یاتو پیسے کے حوالے سےہوتی ہے یا عورت کے حوالے سے اور یا زمین کے حوالے سے یعنی زن، زر، زمین سے باہر کوئی کہانی نہیں۔ لیکن سیانے کہتے ہیں کہ کردار سینکڑوں نہیں لاکھوں نئے رنگ لئے ہوتے ہیں تو پہلے تو ہمیں کردار نگاری سیکھنے کی ضرورت ہے۔ پھر یہ بھی سمجھئے کہ اگر کہانی کا اندرونی ڈھانچہ، فرض کیا ایک مرد اور عورت کے درمیان رشتے پر بنا ہے تو بیرونی اثرات ان کے رشتے کی بنیاد کو تبدیل کردیتے ہیں مثلاً فرض کیا ایک عورت سید خاندان کی ہے لیکن لڑکا ارائیں ہے تورشتے کی بنیاد تبدیل ہوجائے گی۔ یہ اثرات سیاسی بھی ہوسکتے ہیں، ذات پات کے بھی اور مذہبی بھی۔ ہمارا ساراادب بھرا پڑاہے اس طرح کی کہانیوں سے اور ان پر بیرونی اثرات کے حوالے سے خوبصورت کہانیاں بنانے سے۔ قرۃ العین حیدر کی ’’آگ کا دریا‘‘ ہو ’’گردش رنگ چمن‘‘ یابانوقدسیہ کی ’’راجہ گدھ‘‘، انگریزی فن پاروں میں ’’گون وِد دا وِنڈ‘‘ہو یا ’’آن گولڈن پانڈ‘‘ سب اندرونی اور بیرونی اثرات کے حوالے سے رشتوں کی بنیاد تبدیل ہونے کے حوالے سے لکھے گئے ہیں۔ اگر اس حوالے سے ہم فلموں میں بائیسکل تھیوز Bicycle Thieves کی مثال لیں، مائی فیئر لیڈی کی، سائیکو کی یا سکارفیس کی تو یہ بات اور بھی واضح ہو جاتی ہے۔ یہ جن فلموں کے میں نے نام لکھے ہیں یہ سب کی سب بڑے کہانی کاروں کی بڑی تخلیقات ہیں۔ ان کے بنانے والے بھی ادب اور فلسفہ سے اتنی ہی آگاہی رکھتے تھے جتنے ان کے کہانی لکھنے والے۔ اس کی بھی ایک مثال سن لیں۔ جب گاڈ فادر بنائی گئی تو لوگوں کو معلوم ہواکہ اس نام کے ناول لکھنے والے نے نہ صرف یہ کہ ادب کا گہرا مطالعہ کیا ہے بلکہ وہ اشتراکی ادب اور مارکسی فلسفہ سے بھی خوب واقف ہے۔ یہی اس نام سے فلم بنانے والے Fracis Ford Coppolla کے بارےمیں کہاجاتا ہے۔ اس نے خود جب اس پر قلم اٹھایا تو بتایا کہ وہ Hegel اور مارکس سے کتنا متاثرہے۔ کپولا نے جب بعدمیں Apoclypse Now بنائی تو اس نے اس فلم کی کہانی جوزف کون ریڈکے ناول Heart of Darkness کو سامنے رکھ کر لکھی۔
یہ بتانے کامقصد یہی ہے کہ ایک اچھا رائٹر اور پھر فلم ڈائریکٹر نہ صرف یہ کہ ادب اور فلسفہ کے حوالے سے بہترین پڑھا لکھا ہوتاہے بلکہ اسے اپنے اردگرد ہونے والے عالمی حالات سے بھی بخوبی آگاہی ہوتی ہے۔ آپ کپولا کی فلم دیکھیں تو آپ کو پتا چلے گاکہ وہ کس طرح سے اس بار ےمیں روشناس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب Milos Foreman جس نے شہرہ آفاق فلم One Flew Over the Cucko's Nest بنائی ، نے کہا کہ ایک اچھے فلم میکر کو فلسفہ، آرٹ، ریاضی، سائنس، ادب، موسیقی جیسی چیزیں پڑھائی جانی چاہئیں۔ فلم میکنگ تو وہ تین ماہ میں سیکھ سکتا ہے۔
یہی وہ چیز ہے کہ جس سے ہمارے اکثر فلم میکرز عاری ہیں۔ ان کی فلم کی منصوبہ بندی کے حوالے سے تجاویز سن کر ہنسی آتی ہے۔ ابھی ایک ماضی کے معروف ڈائریکٹر فرمارہے ہیں کہ پاکستانی فلم کو بچوں کے نصاب میں شامل کیاجانا چاہئے تاکہ فلم انڈسٹری ترقی کر سکے۔ اس فلم انڈسٹری کوتو گٹر میں پھینکنا پڑے گاجس کےیہ حضرت نمائندے ہیں۔ آپ نے اگر اچھی فلم بنانی ہےاور عالمی سطح پرمقابلہ کرنا ہے تو پھرعالمی سطح کے ادب اور فلم کو پڑھائیں اور اس کےپڑھے ہوئے لوگوں کو آگے لائیں۔ امریکہ ہو، برطانیہ یا ہندوستان میں بنی اکیڈمیز یہ سب عالمی ادب اور فلسفے اور فلم کو پڑھاتے ہیں تب جا کر ستیہ جیت رے بنتا ہے یا شیام بینگل پیدا ہوتا ہے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ بمل رائے نے اتنا بڑا کام کیسے کیا؟ یاآج کے دور میں ’’’دھوبی گھاٹ‘‘ جیسی اچھی فلم کیسے بنتی ہے۔
اس برس BAFTA میں بہترین فلم کی حقدار قرار دی جانے والی فلم یعنی Three Billboards کو دیکھئے اور جانئے کہ کردار نگاری کے ساتھ ساتھ سوشل واقعات کو کیسے اچھے طریقے سے پیش کیا جاتا ہے۔ اس سال اکیڈمی ایوارڈز میں 13نامزدگیوں کے ساتھ ایک فلم شیپ آف واٹر ہے ۔ یہ بھی کردار نگاری اور بیرونی حالات کےاثر میں اندرونی حالات کی تبدیلی کی بہترین عکاس ہے۔ بس یہ عرض کروں کہ باہر کی اکیڈمیز میں ادب، فلسفہ، تنقید اور آرٹ ہسٹری پڑھائی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کہانی لکھنے کے ہنر بتائے جاتے ہیں، انتہائی سائنسی بنیاد پر۔ آپ نے اپنے گردبعض ایسے لوگ اکٹھے کرلئے ہیں جو بینظیر کے دور میں پنڈی اسٹیڈیم کی تزئین کے ٹھیکے لے لیتے ہیں اور پھر آ پ کے دور میں کلچر کے دعویٰ دار بن جاتے ہیں۔ اگر فلم کو سمجھنا ہے تو باہر کے تعلیم یافتہ لوگوں کے ساتھ ساتھ شعیب منصور، شرمین عبید اور صبیحہ سومار جسے لوگوں سے بھی رہنمائی لیں۔ یہ عرض بھی سن لیں کہ کلچر ہیرو کے لئے ہیرو متھ اور پلاٹ متھ کو جاننا کتنا ضروری ہے۔ اس کے لئے جوزف کیمبل کی کتاب The Hero With a Thousand Faces کا مطالعہ از حد ضروری ہے۔