• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’سندہ کے اُفق پر کہکشائیں‘‘

تحریر:مہتاب اکبر راشدی

 8مارچ کی تاریخ کو اقوام متحدہ نے خواتین سے منسوب کر رکھا ہے اور اسی حوالے سے اس دن پوری دنیا میں عورتوں کے حقوق کے حوالے سے گفتگو ہو تی ہے۔ ساتھ ہی ان قوانین کا ذکر بھی کیا جاتاہے، جو معاشرے میںعورت کے تحفظ کی خاطر مختلف ممالک میں بنائے گئے ہیں اور کافی ملکوں کی خواتین اب بھی اپنے ہونے کا احساس دلانے اور اپنی حیثیت کے تعین اور ان کے حقوق کے حصول کے لیے اب بھی کوشاں ہیں۔

جیسے ،سسئی، سوہنی،مارئی ،مومل ،نوری ،لیلا اور سورٹھ، سندھ میں ضرب المثال کردار مانے جاتے ہیں۔لیکن جب ہم پچھلی ایک صدی کو ہی کھنگالنے کی کوشش کرتے ہیں ،تو ماضی قریب میں ایسی بے شمار شا ن دار خواتین سامنے آتی ہیں،جن کے نقش پا آج بھی اندھیرے میں بہت لوگوں کے لئے سفر کا نقطہ آغاز بن سکتے ہیں۔

’’سندہ کے اُفق پر کہکشائیں‘‘
حمیدہ کھوڑو

تخلیقی ادب کے میدان میں بر صغیر تقسیم سے قبل ہی ایسی خواتین موجود تھیں، جن کی تحریروں نے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا شروع کیا۔ ان ایشوری جوتوانی ،اندرا واسوانی ، تارا میر چن پوپٹی ہیرا نندانی، سندری اتم چندانی، گلا پر شانتی ساگر وہ کچھ نام ہیں، جنہوں نے سندھ کی زمین میںجنم لیا ،ان کے شعور کی آنکھ یہیں بیدار ہوئی، پھر تقسیم وطن کے ساتھ ،وہ بھی یہاں سے چلی گئیں۔ ہندوستان میں رہنے اور بسنے کے باوجود ،ان کا قلم اس خطے کی محبت سے سرشار رہا۔

 ان کی بیش ترتخلیقات،افسانوں، کہانیوں، سفر ناموں اور شاعری میں سندھ کی یادیں رچی بسی ملتی ہیں۔ 1880میں ٹنڈو باگو کے قریب گوٹھ دودو خان میں مراد خان لاشاری کے گھر میں پیدا ہونے والی بختاور کو کیا پتا تھا کہ اس کا ایک عمل اسے تاریخ میں زندہ کر جائے گا۔ 

’’سندہ کے اُفق پر کہکشائیں‘‘
عابدہ پروین

بے شک اس کے پاس تعلیم نہیں تھی لیکن حوصلے اور بہادری کی اس کے پاس کمی نہ تھی۔ چار بیٹوں اور ایک بیٹی کی ماں، اتنی باشعور ضرور تھی کہ کامریڈ حیدر بخش جتوئی نے انگریزوں کے دور حکومت میں سرکاری نوکری چھوڑ کر، ہاری تحریک ، شروع کرکے ان کےحقوق کے لئے جدوجہد کا آغاز کیا،1947جون کی 22تاریخ کو ایک ایسی ہی کانفرنس جھڈو میںمنعقد کی ۔

’’سندہ کے اُفق پر کہکشائیں‘‘
نورالہدٰی شاہ

 بختاور کے گائوں کے بیشتر مرد ،بشمول اسی کےبیٹے اور شوہر بھی جلسے میں چلے گئے۔ گائوں میں صرف عورتیں اور بچے رہ گئے۔ موقع غنیمت جان کر وہاں کا زمیندار ان کسانوں کو انکا حصہ دیئے بغیر گندم کا پورا جمع شدہ ذخیرہ اٹھانے آ پہنچا۔ 

اس کی بدنیتی دیکھ کر مائی بختاور گائوں کی کچھ عورتوں اور ایک معذور مرد کے ساتھ، زمیندار چوہدری سعید اللہ کے سامنے ڈندا لے کر سینہ سپر ہو گئی،جب وہ کسی صورت بھی ان کو راستہ دینے کو تیار نہ ہوئی تو ،زمیندار کے حکم پر اس کے منیجر چوہدری خالق نے گولی چلادی اور 55سالہ مائی بختاور ہاری تحریک کی شہید بن کر ،اپنے پیچھے مزاحمت کی تاریخ لکھی گئی ۔

’’سندہ کے اُفق پر کہکشائیں‘‘
فہمیدہ ریاض

یہی نہیں اپنے اپنے دائرے میں رہتے ہوئے سندھ کی عورت، سماج کے کھوکھلے رسم و رواج کو پس پشت ڈالتے ہوئے ،سرگرم عمل رہی، مردوں کے شانہ بہ شانہ خواتین ، ان کا سایہ بن کر کھیتوں میں کام بھی کرتی رہیں،بے شمار عورتیں ملک کی معاشیات میں حصہ بھی ڈالتی رہیں، مگر بے نام ر ہیں۔ 

وہیں علم وہنر کے زیور سے آراستہ خواتین اپنے ہم عصر مردوں کو اپنی صلاحیتوں سے پیچھے چھوڑ کر نمایاں نظر آ رہی ہیں اس طرح کا ایک روشن نام ڈاکٹر شمس عباسی کا ہے، جن کی انتظامی صلاحیتیں اور علمی خدمات کی آج بھی مثالیں دی جاتی ہیں۔

حیدر آباد کے مشہور قاضی خاندان کے قاضی عبدالقیوم کی دختر، کے لئے اللہ نے علم کے دروازے کچھ اس طرح کھولے ،کہ نہ صرف وہ خود اس سے مستفید ہوئیں بلکہ ان کے زیر انتظام اور زیر نگرانی ہزاروں طالبات نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی،جن میں سے کوئی ، اساتذہ، ڈاکٹر، منتظم ، انجینئر، فن کار ، گلوکار ،ادیب بنیں، تو کوئی نام ور شاعرات بن کر سامنے آئیں۔ 

’’سندہ کے اُفق پر کہکشائیں‘‘
زرینہ بلوچ

آپا شمس عباسی، سندھ مدرستہ البنات اور مہران اسکول کی ہیڈ مسٹریس ہونے کے بعد زبیدہ گرلز کالج کی پہلی پرنسپل بنیں،جو عروج ،زبیدہ کالج نے شمس عباسی کے زمانے میں دیکھا ،وہ دور اسے ان کے بعد دیکھنا نصیب ہی نہ ہوا۔ان کے زمانے میں کالج کا امتحانی و تعلیمی معیار دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔

 اس کالج سے پڑھ کر نکلنے والی طالبات آج ملک اور معاشرے میں اپنی شناخت رکھتی ہیں۔ ان میں کچھ جانے پہچانے نام ، روبینہ قریشی ،سلطانہ صدیقی، انیس ہارون، مہتاب اکبر راشدی ، فہمیدہ ریاض، ڈاکٹر فہمیدہ حسین، ڈاکٹر سحر امداد، ڈاکٹر پروین شاہ، سلطانہ قاضی وغیرہ ہیں۔

 یہ تو بس چند نام ہیں، لیکن جب شمار کرنے پہ آئیں گے تو سندھ کی کئی نسلیں ڈاکٹر شمس کی شفقتوں کی مرہون منت ملیں گی۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر شمس عباسی، ڈائریکٹرکالج ایجوکیشن اور ڈائریکٹر بیورو آف کررکیولم بھی رہیں اور اس طرح انہوں نے عورتوں پر اعلیٰ انتظامی عہدوں پر تعیناتی کے دروازے بھی کھول دیئے۔ مریم سلطان نوحانی، بھی تعلیم کے شعبے کا ایک نمایاں نام ہیں۔

’’سندہ کے اُفق پر کہکشائیں‘‘
روبینہ قریشی

وہ شمسی عباسی کی محبوب ترین شاگرد رہیں اور انہی کے ساتھ ہی زندگی کا بڑا حصہ بطور پروفیسر زبیدہ کالج میں گزارا، شمس عباسی کی دست راست مریم نوحانی نے رئیس غلام قادر نوحانی کے گھر میں ا ٓنکھ کھولی والد مہربان تھے ،بیٹی کو تعلیم حاصل کرنے سے نہیں روکا ۔سخت پردے میں برقع اوڑھ کر، حیدر آبادکے مشہور کالی موری والے لڑکوں کے کالج سے لے کر سندھ یونیورسٹی سے اسلامک ہسٹری میں ماسٹرز کیا ۔

ان کی پرکشش شخصیت اور پر اثر گفتگو کے سحر سے کوئی مشکل ہی سے نکل سکتا تھا۔اللہ نے فن خطابت سے ایسا نوازا کہ ڈاکٹر غلام مصطفیٰ نے انہیں ’’ام الکلام ‘‘ کا خطاب دیا۔ وہ سندھ کے مختلف کالجز میں پرنسپل ڈائریکٹر کالجز کے منصب پر بھی فائز رہیں۔

پروفیسر انیتا غلام علی، سندھ کی معتبر خواتین میں ایسا نام ہیں،جوپاکستان اور باہر کی دنیا میں تعلیم اور اس کے فروغ کے حوالے سے پہچان رکھتا ہے1934میں سندھ ہائی کورٹ کے معزز جج فیروز نانا کے گھر میں پیدا ہونے والی انیتا غلام علی کی والدہ شیریں کا تعلق سندھ کے مشہور ادیب اور دانش ور شمس العلما ء مرزا قلیج بیگ کے خاندان سے تھا۔ کراچی میں پیدا ہونے والی انیتا کی ابتدائی تعلیم مہاراشٹرا، انڈیامیں ہوئی، ڈی ۔

’’سندہ کے اُفق پر کہکشائیں‘‘
انیتا غلام علی

جے سائنس کالج سے گریجویشن اور مائکرو بیالوجی میںماسٹرز کی ڈگری لے کر 1961سے 1985تک سندھ مسلم سائنس کالج میں پروفیسر رہیں۔ دو دَہائیوں تک ریڈیو پاکستان سے انگریزی زبان میںخبریں بھی پڑھتی رہیں۔ پاکستان ٹیچرز ایسوسی ایشن کی ایک عرصے تک سربراہی کرتی رہیں، ان کی شخصیت کا رعب دبدبہ، کسی کو ان کے سامنے منہ نہیں کھولنے دیتا تھا۔ 

دو دفعہ کئیرٹیکر حکومتوں میں وزیر تعلیم ا ور سندھ ایجوکیشن فائونڈیشن کی طویل عرصے تک مینیجنگ ڈائریکٹر رہیں۔ اپنے کام سے جنون کی حد تک وابستگی اتنی کہ بیماری کے باعث وہیل چئیر پر بیٹھ کر دفتر جاتی تھیں۔ ان کا انتقال 8اگست 2014کو ہوا۔

’’سندہ کے اُفق پر کہکشائیں‘‘

پروفیسر آمنہ خمیسانی ، 1919میں پیدا ہوئیں سندھ یونیورسٹی میں شعبۂ انگریزی کی پروفیسر رہیں ۔ان کا تعلق دادو ضلع کے گائوں ’’پاٹ‘‘ سے تھا، ان کے والد علی بخش چنہ سکھر کے کلیکٹر تھے، انہوں نے اپنی پوری زندگی علم کی ترویج میںگزاری۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی کے ابیات کا انگریز ی زبان میں ترجمہ ان کا ایک نمایاں کام ہے، جسے محکمہ ثقافت سندھ نے شائع کرایا۔ 

ریٹائرمنٹ کے بعد طویل عرصے تک بزنس اور پروفیشن وومین ایسوسی ایشن سے وابستہ رہیں اور بیگم سلیمہ احمد کے ساتھ مل کر ملازمت پیشہ خواتین کے لیے بنائے گئے ہاسٹل کو سنبھالنے میں مددگار رہیں۔ دادی لیلا ہر چندانی جیسی شخصیات بھی کسی خوش قسمت معاشرے میں ہی جنم لیتی ہیں،ان کا تعلق سندھ کے ایک مشہور ہندو گھرانے سے تھا، سُر اور ساز کی دلداہ گھرسے گانا سیکھنے کی اجازت تھی، لہٰذا دل کھول کے سیکھا اور بچیوں کو سکھایا۔ اسکول میں بہ طورمیوزک ٹیچر تعینات ہوئیں، روبینہ قریشی ان کی شاگردوں میں سے ایک ہیں۔

’’سندہ کے اُفق پر کہکشائیں‘‘
درّشہوار

 اعلیٰ تعلیم حاصل کی، اسکول میں پڑھایا اور پھر انسپکٹر آف اسکول کے عہدے پر فائز رہیں۔ تعلیم کے شعبے میں ان کی خدمات قابل قدر ہیں۔د ادی لیلا سندھ کا وہ عظیم کردار ہے، جو مدتوں یاد رہے گا۔

انہیں کی طرح زرینہ بلوچ بھی ایک نمایاں نام ہے۔ بلوچ قبیلے کے روایتی گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود رسموں رواجوں کے بندھن توڑے۔ پہلے ریڈیو پاکستان حیدرآباد سے، ڈراموں میں صدا کاری کے جوہر دکھائے، پھر سریلی آواز کی مالک ہونے کی وجہ سے استاد محمد جمن کی ہمت افزائی سے سُروں سے رشتہ جوڑلیا۔ 

لوک گیت ان کی شناخت بن گئے،رسول بخش پلیجوسے شادی ہوئی، پارٹی کے جلسوں میں زرینہ بلوچ، قومی گیتوں سے حاضرین کا خون گرماتی رہیں۔ ساتھ ہی ساتھ اسکول میں پڑھانے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ انتہائی مہذب، محبت کرنے والی چہیتی زرینہ بلوچ آج بھی سندھ کے لوگوں کی یادوں میں رچتی بستی ہیں۔

سندھ کی تعلیم، تاریخ، تحقیق اور سیاست میں الگ حیثیت رکھنے والی خاتون ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو کا تعلق سندھ کے مشہور جاگیردار اور سیاسی خاندان سے ہے۔ ان کے والد محمد ایوب کھوڑو سندھ کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ حمیدہ کھوڑو کی پیدائش 3اگست 1936کو ضلع لاڑکانہ کے گائوں پنوعاقل میں ہوئی۔ کراچی میں سینٹ جوزف سے پڑھا اور پھر کیمبرج یونیورسٹی سے ہسٹری میں گریجویشن اور اسکول آف اورینٹل اور افریکن اسٹیڈیز، لندن سے 1965میں ڈائریکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ 

’’سندہ کے اُفق پر کہکشائیں‘‘
صنم بلوچ

ملک واپس آنے کے بعد کراچی اور سندھ یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ میں،پروفیسر کی خدمات انجام دیں۔ سیاست کے شعبے میں بھی قدم رکھا۔ ابتدا ،جی ایم سید صاحب کی پارٹی سے کی، عام انتخابات میں بیگم نصرت بھٹو کے مقابلے میں کھڑی ہوئیںاور ہار گئیں۔ جام صادق علی کے دور حکومت میں چار مہینے اور ارباب غلام رحیم کے زمانے میں تقریباً دو سال وزیر تعلیم رہیں۔ سیاست میں تو ڈاکٹر حمید کھوڑو اتنی کام یاب نہیں رہیں، لیکن مختلف موضوعات، خاص طورپر سندھ کے حوالے سے ان کے تحقیقی مقالے اور کتب کافی اہمیت رکھتی ہیں۔

تحقیق اور تعلیم کے ہی حوالے سے ڈاکٹر درِ شہوار سید بھی سندھ کی خواتین میں ایک نمایاں نام ہیں۔ وہ اس لیے بھی اہم ہیںکہ جی ایم سید کی دختر تھیں، وہ ان چند خوش نصیبوں سندھی خواتین میں سے ایک تھیں، جنہیں نہ صرف پڑھنے، بلکہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے انگلینڈ بھیجا گیااور Sussexیونیورسٹی سے "Universal Message of Sufis of Sindh"کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ خاندانی روایات کے برعکس ،خاندان میں مخالفت کے باوجود کراچی یونیورسٹی میں پاکستان اسٹڈی سینٹر میں تاریخ کا مضمون پڑھایا ۔ 

خواتین کو متحرک رکھنے کے لیے "All Sindh Women Association" کی بنیاد ڈالی۔ لکھنے پڑھنے سے ان کی دل چسپی قائم رہی اوران کے تحقیقی مقالے چھپتے رہے۔ افسوس کہ ڈاکٹر درِ شہوار بہت مختصر زندگی لے کردنیا میں آئی تھیں ، وہ 26دسمبر 1997کو دنیا سے رخصت ہوئیں۔ اب با ت کرتے ہیں، بیگم زینت چنہ کی ، جنہوں نے ’’مارئی‘‘ رسالے کا اجرا کرکے، خواتین لکھاریوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کیا۔ بیگم خدیجہ دائود پوتہ کو کیسے بھلا سکتے ہیں، جنہوں نے ’’ادیوں‘‘ رسالے کی ادارت کی اور طویل عرصے تک یہ رسالہ سندھی ادب میں اپنی جگہ بنائے رکھنے میں کام یاب رہا ۔ 

بیگم دائود پوتہ کی وفات کے بعد یہ سلسلہ بھی ختم ہوگیا۔ فن کے میدان کی روشن چاند عابدہ پروین ، درویش صفت اور صوفی منش فنکارہ لاڑکانہ کی مردم خیز زمین سے جنم لینے والی سندھ کی بیٹی ہیں،جنہوںنے پاکستان کا نام دنیا بھر میں اپنے سروں سے مہکایا ہوا ہے۔اپنے فن میں یکتا یہ فنکارہ سندھ کی شان اور پاکستان کی آن ہیں۔

اسی طرح روبینہ قریشی کے نام سے شہرت پانی والی فنکارہ (عائشہ شیخ) بلبل مہران کا خطاب پانے والی روبینہ قریشی ، اُن پڑھی لکھی خواتین میں سے ایک ہیں، جنہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور فن کی دنیا میں قدم رکھ کے اس شان میں اپنی موجودگی سے اضافہ کیا ،ایک عرصے تک سندھ کی فضائیں  ان کے نغموں کے سر گونجتی رہی،آج بھی جب انہیں اصرار کیا جاتا ہے تو گاتی ہیں اور کیا خوب گاتی ہیں۔ اسی طرح پی ٹی وی سے بہ طور پروڈیوسر اپنے کیریئر کا آغاز کرنے والی سلطانہ صدیقی کے کریڈٹ پر متعدد کام یاب ڈرامے اور میوزک پروگرام ہیں، عابدہ پروین، جنون بینڈ، ٹینا ثانی وغیرہ کو ٹی وی متعارف کرانے والی بھی سندھ کی بیٹی اور پاکستان کا ایک بڑا نام ہیں۔

یہ ہماری موجودہ اور کچھ ہم سے پہلی نسل کی بیشتر خواتی ہیں، جن کا مختصراً ذکر کیا ہے، ہم کسی کے ساتھ بھی ان کے کام کے لحاظ سے انصاف نہیں کر سکے۔اگر سندھ کی آج کی بہت نمایاں ، فعال، متحرک مشہور اور مختلف شعبوں میں نام پانے والی خواتین کا ذکر نہ کریں، تو بات ادھوری رہ جائے گی۔ہم گنواتے جاتے ہیں، آپ پڑھتے جائیں اور فخر کرتے جائے کہ سندھ کی سر زمین اپنی ان باشعور بیٹیوں کی وجہ سے کتنی خوش قسمت اور سر بلند ہوگئی ہے۔ 

فن و ادب کے میدان میں، بادام ناتواں، رشیدہ حجاز، ماہتاب محبوب، خیرالنسا جعفری، ثمیرہ نور الہدیٰ شاہ، ڈاکٹر فہمیدہ حسین ج۔ع۔منگھائی، ڈاکٹر غزالہ رحمن، وحید گھیر، عطیہ دائود، ماہیں ہیسیانی، صنم بلوچ، سمرین ہیسبانی، مریم مجیدی، نایاب سرکش، فہمیدہ ریاض، انیس ہارون، نیلو فرجی، زیب نظامانی، امر دسندو، یہ اور بھی بہت سی باعزم ، باہمت خواتین اور معاشرے میں اپنا مقام بناچکی ہیں۔

تازہ ترین