رپورٹ: طارق بٹ...
سینیٹ میں12مارچ کو انتخابات سے چیئرمین آنے کے بعد عبوری سیٹ اپ بنے گا ،یہ بھی ممکن ہے کہ پی پی اور (ن)لیگ کے درمیان ’’لو اور دو ‘‘ہو جائے ۔اس کے علاوہ عبوری حکومت کیلئے اپوزیشن کے ساتھ مشاورت سے معاملہ حل نہ ہو ا تو الیکشن کمیشن کے پا س جائے گا۔
تفصیلات کے مطابق پارلیمانی جماعتیں سینیٹ میں اہم عہدے اور نگراں وزیر وں اور وزرا اعلی کی نامزدگیوں میں مصروف ہیں ،پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی میں اہم ٹکرائو سینیٹ سربراہ اور نگراں وزیر اعظم کیلئے ہے ۔
وزرا ئےاعلیٰ کے انتخاب کیلئے کھینچا تانی میں تحریک انصاف، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور ایم کیو ایم پاکستان جیسی جماعتیں لگی ہیں۔ سینیٹ چیئرمین کے 12 مارچ کو منتخب ہوجانے کے بعد عبوری سیٹ اپ کیلئے رسہ کشی ہوگی ۔
اس بات کا بھی امکان ہے کہ اس الیکشن میں پی پی اور (ن) لیگ کے درمیان ’’لو اور دو ‘‘ بھی ہوجائے ۔عبوری وزیر اعظم کیلئے اس ہم آہنگی کو بھی ذہن میں رکھا جائے جو جون کے پہلے ہفتے میں ہوگا ۔
ایوان بالا کے سربراہ کیلئے الیکشن میں ایک ہفتے سے بھی کم وقت رہ گیا ہےپیپلز پارٹی اس عہدے کیلئے سر توڑ کوشش میں ہے اور لابنگ بھی عروج پر ہے ۔یہ فاٹا سینیٹر ز کو قائل کرنے میں مصروف ہے ،اس کا خیال ہے کہ بلوچستان سے منتخب 6 آزاد سینیٹرز اس کی جیب میں ہیں جو کہ اصل میں دیکھا جائے تو شاید ایسا نہ ہو ۔
اگر اس منظر نامے کو دیکھ لیا جائے تو یہ بڑی حیرانی کی بات ہوگی کہ پیپلز پارٹی اس اہم عہدے کیلئے کامیاب ہوجائے ،اس کے مقابلے میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اپنے اتحادیوں کی حمایت سے اپنے نمائندے لانے کیلئے بہتر پوزیشن میں ہے ۔
پاکستان مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو میدان میں لایا جانا سینیٹ الیکشن کیلئے اہم پہلو ہوگا ،کوئی بھی پارٹی باضابطہ طور پر اپنے امیدواروں کو منظر عام پر نہیں لائی، ’’آزاد‘‘ بلوچستان کے سینیٹرز کا مقصد ظاہر ہوتا ہے کہ اہم ترین سینیٹ کا عہدہ یا اس سے دوسرا لیا جائے ،پیپلز پارٹی بلوچستان سے کوئی ایک یا دونوں کیلئے نامزد کرکے لے سکتی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی رکاوٹ یہ ہے کہ اس کے پاس صوبے سے کوئی سینیٹر نہیں ہے جو اس مقابلے میں اس کی حمایت کردے، سینیٹ چیئرمین کیلئے جب وہ اپنے امیدوار کا انتخاب کررہی ہیں توتوقع ہے کہ بڑی جماعتیں ذہن میں غیر تحریری ضروریات پر اپنی صوبائی نمائندگیوں سے متعلق صدر،وزیر اعظم ،ایوان بالا کا چیئرمین اور قومی اسمبلی کے اسپیکر کو رکھے ہوئے ہیں۔
یہ عہدے عام طور پر زیادہ تر صوبوں میں تقسیم کیے جاتے ہیں اس لیے کوئی بھی اس اس کے حقو ق نہیں لیے ہوئے ہے۔ اگر صدر سندھ یا کسی اور صوبے سے ہوتا ہے تو پھر وزیر اعظم پنجاب سے لیاجاتا ہے جیسا کہ گزشتہ پی پی دور میں ہوا تھا۔ اگر گزشتہ بار ایک وزیرا عظم پنجاب سے لیا گیا اور نااہل ہوگیا تو اس کی جگہ اسی یونٹ سے لیاجاتا ہے۔
پارلیمانی جماعتوں کو ضرورت ہے کہ نگراں وزیر اعظم اور عبوری وزرا اعلی پر مئی کے آخر تک بات کرلیں ،اگر ایسا کرنے میں یہ ناکام ہوجاتی ہیں تو سیاست میں ایک بڑا تنائو پیدا ہوجائے گا اور پھر معاملہ الیکشن کمیشن کے ہاتھ میں چلا جائے گا اور حتمی فیصلہ آئین کے مطابق ہوگا۔
خورشید شاہ کا قومی اسمبلی میں عبوری وزیر اعظم کیلئے اہم کردار ہے اور اس کے بعد وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ہیں ،ان کی بھی اب تک اس معاملے پر بات کرنا باقی ہے ۔
دوسری طرف یہ بھی ہے کہ نگراں وزیر اعظم کیلئے فیصلہ سابق وزیر اعظم نوازشریف اور آصف زرداری کی طرف سے لیا جائے گا کیونکہ یہ ہی اپنی جماعتوں میں اصل فیصلہ کرنے والے ہیں،یہ اہم شخصیات اس معاملے پر براہ راست عباسی اور خورشید شاہ کے ذریعے بات کرینگے ۔عباسی اور خورشید شاہ دیگر جماعتوں کو اعتماد میں لیں گےتا کہ اس تقرریوں میں کوئی متنازعہ بات نہ بنے ۔