عرفان جاوید
آخری قسط
ایک روز منشا ریڈیو کی سوئیاں گھما رہا تھا کہ اتفاقاً اس شخص کے لگائے گانے اس کی فریکوینسی پر آگئے۔ منشا رات بھر وہ گانے سنتا رہا۔ ان گانوں کا نہ تو کوئی تعارف ہوتا اور نہ ہی کسی پروگرام کا اعلان۔ ’’اگر میرے پاس ٹیلی فون ہوتا، تو روات والے انجینئر سے رابطہ کرکے ضرور شکریہ ادا کرتا، جو رات کی تنہائیوں میں میری جانب گیتوں کی چھوٹی چھوٹی کشتیاں اور بجرے روانہ کرتا رہا۔‘‘منشا نے لکھا۔جلد ہی حکومت نے متروکہ مکانات کے الاٹیز کو مالکانہ حقوق دے کر تزئین و مرمّت کا کام ختم کردیا۔
منشا کا متعلقہ محکمہ ختم ہوگیا اور وہ بے روزگار ہوگیا۔بعد ازاں، اس نے فیڈرل کیپیٹل کمیشن میں ملازمت کی درخواست جمع کروادی۔ درخواست منظور ہوگئی اور اسے ملازمت مل گئی۔ سی ڈی اے 1960ء میں وجود میں آیا، البتہ دارالحکومت کی تعمیر کا کام 1961ءمیں شروع ہوا۔منشا ان ابتدائی لوگوں میں شامل تھا، جنھوںنے وزیراعظم ہاؤس ، پارلیمنٹ، سپریم کورٹ اور دیگر عمارات کی نشان دہی کی اور ان کی تعمیر کے ابتدائی نشان لگائے۔انھوں نے وہاںنشان دہی کے لیے بانس گاڑ کر سرخ جھنڈے لگائے تاکہ شکر پڑیاں سے دوربینیں سنبھالے عمائدین دوربینوں سے ان مقامات کا اندازہ کرسکیں۔
بہت بعد میں،ایک مرتبہ چیئرمین سی ڈی اے، فرید الدّین احمد اور دیگر حاضرین کی ایک میٹنگ میں بتایا گیا کہ ان کے درمیان ایک ایسا شخص موجود ہے جو دارالحکومت سے متعلقہ کابینہ کی پہلی میٹنگ میں موجود تھا۔سب نے تالیاں بجائیں اور منشا کی پزیرائی کی۔جب چیئرمین نے پوچھا کہ کیا اُسے اندازہ تھا کہ اسلام آباد موجودہ شکل اختیار کرلے گا، تو یہ سن کر منشا نے بلا توقف کہا’’اگرمیں شہر کے مستقبل کا صحیح اندازہ لگا سکتا، تو شہر کا امیر ترین آدمی ہوتا اور نہ جانے کہاں بیٹھا ہوتا۔‘‘
اس دوران ایک عجیب اور چونکا دینے والا واقعہ ہوا۔قصّہ کچھ یوں ہے کہ محکمہ پی ڈبلیو ڈی، لاہور میں تازہ اسامیوں کے لیے امیدواروں سے درخواستیں طلب کی گئیں۔ لاہور علم کا گہوارہ اور ادیبوں کی آماج گاہ تھا۔ وہاں افسانہ نگاروں کے مُربّی ،احمد ندیم قاسمی صاحب بھی جلوہ افروز تھے۔ اس امر نے اس کے شوق کو مہمیز دی۔ اس نے بھی درخواست جمع کروادی ۔اُسے انٹرویو کے لیے بلوالیا گیا۔ سو، اس نے اپنے خالو کو اپنی لاہور آمد کی اطلاع کردی اور ایک شام لاہور میں واقع خالو کے گھر پہنچ گیا۔ابھی خالو کے ہاں پہنچ کراس نے چائے کا پہلا گھونٹ لیا تھا کہ نچلی منزل سے ڈھولک بجنے کی آواز سنائی دی۔آواز سن کر منشا نے ویسے ہی پوچھ لیا’’کیا پڑوس میں کسی کی شادی ہے؟‘‘
اُس کی ایک سالی بولی ’’نہیں، ہمارے گھر میں شادی ہے۔‘‘منشا چونک گیا۔’’کس کی شادی ہے؟‘‘اس نے پوچھا۔’’آپ کی‘‘سالی نے جواب دیا۔منشا کے ہاتوں میں پیالی لرز گئی۔اُس نے طے کرلیا کہ وہ یوں شادی نہیں کرے گا اور اگلے روز انٹرویو دے کر راول پنڈی لوٹ جائے گا۔ وہ رات بھر جاگتا رہا۔ اگلے روز اپنے خالو کے کلینک میں بیمار بن کر جالیٹا۔اُس کے والد کو خبر ہوئی، تو غصّے میں بَھرے ہوئے کلینک آئے اور بھڑک کر بولے’’تمھارا نکاح ہی ہوا ہے، کوئی تمھیں کنویں میں تو نہیں پھینک دیا۔‘‘اس دوران اس کے خالو، جو سسر بھی تھے، آن پہنچے اور اس کی سلوٹیں، بھاپ والی بھاری استری کی طرح دور کردیں۔منشا ایک گرم حمّام سے نہا کر نکلا تو بینڈ باجے اور سہرے کا انتظام ہوچکا تھا۔ اگلے روز9دسمبر1960ء کواُس کی رخصتی کا دن ٹھیرا۔وہ دلہن کو لے کر گاؤں پہنچا ۔دوسرے دن بہ قول اس کے ’’ولیمی‘‘ہوئی۔برات میں کُل پانچ افراد تھے، یعنی اُس کے والد، والدہ ، تایا،ایک دوست عبدالمجید اور وہ خود۔
ولیمے پر مرغ کا سالن اور زردہ تیار کروایاگیا۔اُس دور کی سادہ دیہی شادیوں کے شرکا کویاد ہوتو زردے پر قورما ڈال کر کھایا جاتا تھا اور بعض اوقات اچار بھی، یوں نمکین اور میٹھے کا ایک امتزاج ہوجاتا تھا۔ چند احباب خمیری روٹی کے ساتھ بھی زردہ کھالیتے تھے۔
وہ معصوم،کم عمر اور چھوٹی سی دلہن کو لے کر راول پنڈی کے اپنے گھر آیا تو اُسے دیکھ کراونچے، لمبے فاضل صاحب بولے ’’کیاآج کل لاہور میں پاکٹ سائز دلہنوں کا رواج ہے؟‘‘نازک، کومل دلہن کے آنے سے منشا کا چھوٹا سا گھر سج گیا۔دلہن کی معصومیت اور سادگی نے دلہا کا دل موہ لیا۔ وہ اپنے میکے سے دُور رہنے کی عادی نہ تھی، سو ابتدائی دنوں میں اداس رہنے لگی۔
ایک روز منشا نے اُس کی اداسی کی وجہ پوچھی تو اُس نے اس وسوسے کا اظہار کردیا کہ کہیں منشا کا دل اُس سے بھرنہ جائے اور وہ کہیں اور متوجہ نہ ہوجائے۔تب منشا نے رات کو پھیلی خوب صورت چاندنی کی قسم کھائی کہ وہ اُسے کبھی نہ چھوڑے گا۔ منشا نے اپنا عہد نبھایا، بیوی سے محبت کی،بے وفائی نہ کی اور اُس کی خوشی کے لیے جی جان سے کوشاںرہا۔
بیوی نے بھی ہاتھ لگا کر اینٹوں کی ڈھیری کو گھر کردیا۔ملازمت کے دن یکساں تھے۔شاموں میں وہ شعر وافسانے کی رنگین پھوار میں بھیگ جاتا۔اُس نے اسلام آبادمیں ’’لکھنے والوں کی انجمن‘‘ کی ایک شاخ قائم کرنے کی کوشش کی ۔ یہ کوشش زیادہ بارآور ثابت نہ ہوئی ۔ اُس نے حلقۂ اربابِ ذوق کے سیکریٹری جنرل، اعجاز بٹالوی سے اجازت حاصل کرکے حلقۂ اربابِ ذوق اسلام آباد کی داغ بیل ڈالی۔خیرخواہوں اورساتھی ادیبوں نے اُس کی معاونت کی۔ دسمبر 1972ءکو اس کے پہلے اجلاس سے آٹھ برس تک اُس نے حلقے کے سیکریٹری کی ذمّے داریاں نبھائیں۔جذبے کا یہ عالم تھا کہ اجلاس کے روز شہر سے باہر بھی ہوتاتو لوٹ آتا۔
بہت سے شرکاکو منشا اپنے اسکوٹر پر حلقے کے اجلاس تک لاتا اور واپس پہنچا کر آتا۔پرُلطف ماجرا تو یہ ہے کہ بعض اوقات منشا، شرکا کو لینے اسکوٹر پر جاتا تو ایک شخص کی ذمے داری لگاجاتا۔اُس شخص کا کردارنگہ بان کا ہوتا تھا۔ وہ یقینی بناتا تھا کہ منشا کی غیر موجودی میں حاضرین مجوزّہ اجلاس کے آغاز سے پہلے فرار نہ ہوجائیں۔ چناں چہ وہ اُنھیں روک کر رکھتا تھا۔منشا کی ملازمت میکانکی نوعیت کی تعمیراتی اور انتظامی امور کی نگہ بانی کی تھی۔ وہاں ایک عملی نوعیت کا شخص درکار ہوتا تھا۔ ادیبوں کے حوالے سے یہ تاثر عام تھا کہ وہ عملی زندگی سے دُور اپنی خیالی دنیا میں رہنے والے لوگ ہوتے ہیں۔
ایسے لوگوں کو اہم ذمّے داریاں تفویض کرنے سے اجتناب کیا جاتا ہے۔ اِسی اندیشے کے تحت منشا اپنے ادارے میں اپنا ادبی تشخّص چھپاتا تھا، حالاں کہ ذرائع ابلاغ میں اس کی تشہیر کے باعث اسے چھپانا ممکن نہ رہا تھا۔ ایک جانب اُس کے افسانوی فن پارے تو اتر سے سامنے آرہے تھے، تو دوسری جانب وہ ریڈیو اور ٹی وی کے لیے ڈرامے لکھ رہا تھا۔ ان میں جنون، بندھن، راہیں اور دیگر خاصے معروف ہوئے۔ابتدائی دنوں میں جب وہ افسانے لکھ رہاتھا اور شاعری بھی کررہا تھا تو اسے مشہوراورمشفق افسانہ نگار، وقار بن الٰہی نے مشورہ دیا تھا’’جتنے سوراخ ہوں گے، تخلیق کا گھڑا اتنی ہی جلدی خالی ہوجائے گا۔‘‘
منشا نے یہ بھی مشاہدہ کرلیا تھا کہ شعری تخلیقات بارش کی بوندوں کی طرح برستی ہیں، جب کہ نثری فن پاروں کی قلّت ہے۔ چناں چہ اس نے اپنے تخلیقی جذبے کو نثرکالباس پہنانے کافیصلہ کرلیا۔ نثرزیادہ وقت،توجّہ، ارتکاز اور یک سوئی مانگتی ہے۔ عجب معاملہ تو یہ ہے کہ بیش تر ادیب، جو نثری ادب تخلیق کرتے ہیں، زندگی میں کبھی نہ کبھی یا تو شاعر رہے ہوتے ہیں یا شاعر ہونے کے خواہش مند رہتے ہیں۔ وقار بن الٰہی نے اپنی پہلی ملاقات ، بعد ازاں استوار ہونے والے تعلق اور منشا کی ہمہ جہتی کے بارے میں لکھا،’’1967ء کاذکر ہے کہ میں اِس جن سے متعارف ہوا یا اس کا مجھ سے ٹاکرا ہوا۔ ان دنوں جی۔ سِکس میں واقع ڈی۔ایم۔
اے کے دفتر میں ’’لکھنے والوں کی انجمن‘‘ کے ہفتہ وار اجلاس باقاعدگی سے منعقد ہوا کرتے تھے، ایسا ہی ایک تنقیدی اجلاس تھا، جس میں مَیں اتفاقاً گھسا، پھر اس جِن کے ہتّھے ایسا چڑھا کہ آج تک اس کے سحر سے آزاد نہیں ہوسکا۔ منشا یاد اُن دنوں قریب ہی واقع ایک گھر میں رہتا تھا، سو اس سے گاہے گاہے ملاقات ہونے لگی۔ جب یہ سلسلہ بڑھا، سلسلے توبڑھنے ہی تھے کہ اس کے ہاں پاک وہند کے قریباً سبھی ادبی رسائل آتے تھے، اس کے ہاں پہلے بلیک اینڈ وائٹ اور پھر رنگین ٹی وی تھا، اس کے گھر میں حقّہ بھی تھا، جس میں شیخوپورہ کی زرخیز اور میٹھی زمینوں سے آیا کڑوا تمباکو وہ اپنے ہاتھوں سے تیار کرتا تھا۔
جوکوئی اس کے ہاں جاتا، منشا یہ ساری چیزیں آنے والے کے حوالے کرکے ایک طرف ہوبیٹھتا۔یہ تعلق بڑھا، تو معلوم ہوا، منشا تو جِن ہے یعنی سی ۔ڈی۔اے کا ملازم۔ سارا سارا دن کسی نہ کسی زیر تعمیر عمارت میں اینٹوں کی چنائی ،چھتوں میں ڈالے جانے والے مسالے اور پلستر کی دھاریں دیکھتے گزار دیتا ہے۔ بقیہ وقت میں وہ افسانے لکھتاہے،شعر کہتا ہے، درمیان میں کوئی مریض آجائے تو ہومیو پیتھک دوا کی پڑیاں بھی بنا کے دے دیتا ہے، موسیقی کا رسَیا ہے۔ اسے علم ہوجائے کہ شہر کے کسی کونے میں گانوں کی نئی کیسٹ آئی ہے، تو آدھی رات کو بھی اسکوٹر لے کر اس دکان اور کیسٹ کی تلاش میں نکل جاتا ہے۔
مطالعے کا اُسے چسکا ہے، اس کے علاوہ اسے مزید تعلیم کا ہوکا ہے، وہ بڑا فرماں بردار بیٹا ہے، پیار کرنے والا بھائی ہے، شفیق باپ ہے، نہایت سمجھ دار خاوند ہے(کبھی کبھی بھڑک بھی اٹھتا ہے، جیسے دِیا سلائی کو ماچس پر رِگڑیں، تو بھڑک اٹھتی ہے لیکن پانی میں ڈالیں تو شوں کی آواز نکال کے لکڑی کا بجھا ٹکڑا بن جاتی ہے)، ’’آزمایش شرط ہے‘‘ قِسم کا یار ہے… اور پتا نہیں کیا کیا ہے۔ آپ ہی کہیے، اتنے سارے کام تو ایک جِن ہی کرسکتا ہے، کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔‘‘
اخترجمال نے منشا کے حوالے سے ایک انوکھا واقعہ لکھا۔’’منشا یاد کا ایک دل چسپ رخ اس وقت سامنے آیا، جب ان کے ساتھ مَری کی ’’شامِ افسانہ‘‘ میں جانے کا اتفاق ہوا۔ منشا صاحب نے ہم سب کو ایک جگہ سائے دار درخت کے نیچے کھڑا کرکے کہا کہ وہ ویگن میں سیٹوں کا انتظام کرتے ہیں۔ جب ویگن میں سیٹیں کسی طرح نہ ملیں، تو منشایاد نے تجویز پیش کی کہ ہم پوری ویگن لے لیتے ہیں اور جتنی سیٹیں خالی ہوں گی، اتنی سواریاں ہم خود بٹھائیں گے۔
ساتھ تو ہم لوگ تھے۔ غالباً چند ہی سیٹیں خالی تھیں۔ منشا یادنے ویگن کے دروازے پرکھڑے ہوکر انتہائی پیشہ ورانہ انداز میں صدادی’’مَری، مَری‘‘ اور ذرا سی دیر میں سیٹیں پرُہوگئیں اور ویگن چل پڑی۔ انھوں نے کنڈکٹر کا کام اتنی خوبی سے کیا کہ کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ حلقہ اربابِ ذوق کے سیکریٹری اور ایک مشہور افسانہ نگار ہیں۔‘‘ منشا میں لوک دانش موجود تھی۔ وہ اس بات کے پرچارک تھے کہ بچّے کو ابتدائی تعلیم اس کی ’’ماں بولی‘‘ میں دینی چاہیے۔چھوٹا بچہ نرم نوالے کو جلد ہضم کرپاتا ہے۔
وہ تخلیق کے زمین سے رشتے کے قائل تھے۔ برصغیر کے اس حصّے کے، جو پاکستان کہلاتا ہے، بیش تر باسی اس زمین کی تہذیب سے ناآشنا ہوتے جارہے ہیں۔ عرب بھائیوں اور وسط ایشیائی ریاستوں کے فاتحین نے جب ہمارے آباواجداد کو زیر کیا اورصوفیائے کرام روشنی لے کر آئے، تو ان کی آمد سے پہلے بھی ہم ہی یہاں موجود تھے۔ جغرافیے کی اپنی تاریخ ہوتی ہے،تہذیب کی اپنی جڑیں۔ ’’رِگ وید‘‘ ایسا بے مثال شاہ کار اسی سرزمین پر تخلیق ہوا تھا۔منشا یاد تخلیقی طور پر بڑے آدمی تھے، تو عملی زندگی میں ایک فرض شناس ملازم ،ہم درد شوہر اور شفیق والد،تین بیٹوں اور ایک بیٹی کو اعلیٰ تعلیم اور محفوظ مستقبل دیا۔
ایک مرتبہ اکادمی ادبیات نے ا ن پرکتاب لکھنے کا ڈول ڈالا، تو وہ اس کے مصنف،صاحب ِطرز ادیب،’’سمرسامر‘‘ اور دیگر عمدہ تخلیقات کے خالق، اسلم سراج الدین کو اپنے ساتھ ان سب جگہوں پر لے گئے تھے، جہاں انھوں نے زندگی بسر کی تھی۔ اس کے نتیجے میں عمدہ تصنیف ’’منشایاد:شخصیت اورفن‘‘(جس سے خاطر خواہ استفادہ کیا گیا) سامنے آئی۔ وہ ایک خوش گوار،متین اوروسیع القلب آدمی تھے۔ بڑوں، چھوٹوں سے عزت سے پیش آتے تھے۔ مرضِ قلب میں مبتلا ہوئے تو پیس میکر لگا دیا گیا۔
ایک شام حلقۂ اربابِ ذوق کے اجلاس میں شرکت کے لیے اپنے عزیز دوست، حمیدشاہد کو ساتھ چلنے کا کہا۔ حمید مصروفیت کے باعث شریک نہ ہوسکے۔ اُن کے بہ قول اُس شام کی ادبی نشست کے دوران اُنھیں حد ِادب سے بڑھی ہوئی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔وہ ایسی رسوائی سہ نہ پائے اور ان کے دل کی دھڑکن بے ترتیب ہوگئی۔طبیعت پہلے ہی خاصی خراب تھی۔ اگلے روز وہ شخص،جسے ممتاز مفتی نے ’’افسانے کے شہر کا صدر دروازہ‘‘ کہا تھا، سنبھل نہ پایا۔یوں یہ دروازہ بند ہوگیا۔افسانہ نگاروں کا ذکر کہیں آئے گا تو منشا یاد بہت یاد آئیں گے۔وہ اپنے افسانوں میں دِلوں پر نقش ہیں،زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے۔
منشا یاد کی بدقسمتی تھی کہ ان سا مرنجاں مرنج، خلیق شخص وضع داری کے زمانے سے نکل کر ناشائستگی کے اِس دور میں چلا آیا، جہاں اونچی آواز کو دلیل کی آواز اور بے تہذیبی کو سچائی کا جڑواں سمجھا جاتا ہے۔ جہاں انسان ڈکراتے اور حیوان جائے پناہ ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ ہم معاشی طور پر کم زور، علمی پس ماندگی کے بھی شکار، اور پھر ہمارا معاشرتی نظام بھی تخریب زدہ، پس ایک خاندانی نظام، تہذیبی شائستگی، مروّت اور وضع داری باقی تھی، سو وہ بھی رخصت ہوا چاہتی ہے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔