معزول وزیراعظم میاں نواز شریف نے آئندہ چیئرمین سینیٹ کے لئے حریف سیاسی قوت کے میاں رضا ربانی کی حمایت کر کے پیشگی بچاؤ کی کوشش کی کہ آصف زرداری اب اس منصب کیلئے کسی اور کو نامزد کریں ۔ تاہم پیپلز پارٹی کے رہنماء آصف علی زرداری نے فوری اس تجویز کو مسترد کر دیا کیونکہ سینیٹ کی چیئرمین شپ کے لئے ان کی ترجیح کوئی اور ہے۔ اس طرح انہوں نے پیپلز پارٹی میں اپنے بااثر قوت ہونے کا ثبوت دیا اور خود کو فیصلہ ساز ثابت کیا۔ رضا ربانی اس بات اور سلوک کے مستحق ہیں جس کا اعتراف مسلم لیگ (ن) نے کیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے ایوان بالا میں واحد بڑی جماعت ہونے کے باوجود نواز شریف اس معاملے میں سبقت لے گئے۔ اگر رضا ربانی پر اتفاق رائے نہ ہوا تو مقابلے کی صورت تحریک انصاف کو ن لیگ یا پیپلز پارٹی میں سے کسی ایک کی حمایت کا انتخاب کرنا ہوگا۔ دونوں جماعتیں ہی اس کے لئے قابل قبول نہیں ہوں گی۔ تحریک انصاف کے لئے تیسرا آپشن جو دستیاب ہوگا وہ یہ کہ وہ 12 مارچ کو چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں اپنا امیدوار سامنے لائے۔ تاہم تحریک انصاف کی تنہا پرواز پیپلز پارٹی کے لئے زیادہ نقصان دہ ہوگی جسے تحریک انصاف کی حمایت کی زیادہ ضرورت ہے۔
آئندہ عام انتخابات میں عمران خان کی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے خلاف ممکنہ جارحانہ مہم کو پیش نظر رکھتے ہوئے کسی اتحاد یا ملاپ کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ تاہم تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی میں مسلم لیگ (ن) کے خلاف کسی ممکنہ اتحاد کی موہوم سی امید رہتی ہے۔ تحریک انصاف جس کے 12 سینیٹرز ہیں، پیپلز پارٹی اسے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا عہدہ دینے پر آمادہ ہوگی۔ اگر یہ گروہ بندی کامیاب ہو بھی جاتی ہے تب بھی نیا چیئرمین سینیٹ بڑا کمزور ہوگا اور اس کے ووٹ سے نکالے جانے کا دھڑکا ہر وقت لگا رہے گا۔
پیپلز پارٹی کے رہنماء اعتزاز احسن کو اعتماد ہے کہ تحریک انصاف اور اپوزیشن کی دیگر پارلیمانی پارٹیاں چیئرمین سینیٹ کے لئے پیپلز پارٹی کے امیدوار پر متفق ہو جائیں گی۔