کراچی (تجزیہ: مظہرعباس) سابق صدر آصف علی زرداری میں حیران کر دینے کی صلاحیت موجود ہے اور نوازشریف بھی خصوصاً بلوچستان میں جو کچھ ہوا اس کے تناظر میں اس سے بخوبی واقف ہیں۔ پیپلزپارٹی کے رہنما کے لئے نمبروں کے کھیل میں مقابلہ کرنا شاید آسان نہ ہوگا لیکن اگر وہ تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کو ملانے میں کامیاب ہوگئے تو چیئرمین سینیٹ کے منصب کے لئے مقابلہ دلچسپ ہو جائے گا۔ گوکہ زرداری نے بدھ کو چیئرمین شپ کے لئے میاں رضا ربانی کے نام کو بڑے سلیقے اور شائستگی سے مسترد کر دیا۔ پیپلزپارٹی میں اکثر کا خیال ہے رضا ربانی ابھی دوڑ سے باہر نہیں ہوئے۔ پیپلزپارٹی کو اگر مطلوبہ تعداد میسر نہ آئی تو شاید وہ رضا ربانی کے نام کو مان لے۔ مسلم لیگ (ن) کے 33 ووٹوں کے ساتھ امکانات روشن ہیں۔ اتحادی جماعت نیشنل پارٹی کے سربراہ حاصل بزنجو کو اعتماد ہے کہ ان کے پاس کامیابی کے لئے 54 ووٹ پہلے ہی سے موجود ہیں۔ لیکن حکمراں اتحاد کا اُمیدوار کون ہوگا؟ یہ بڑا اہم سوال ہے۔ اس کا تعلق مسلم لیگ (ن) یا بلوچستان سے ہوگا؟ گوکہ مشاہد حسین سیّد مضبوط ممکنہ اُمیدوار ہو سکتے ہیں۔ نوازشریف خود بھی کوئی حیران کن نام سامنے لا سکتے ہیں مسلم لیگ (ن) کو معلوم ہے زرداری 20 سینیٹرز کے ساتھ چیئرمین سینیٹ کا عہدہ حاصل کرنے کے لئے کیا کچھ کر سکتے ہیں۔ یہ ان کی سودے بازی کی صلاحیت کا حقیقی امتحان ہوگا۔ ان کا ترجیحی اُمیدوار کاغذ پر اب بھی سلیم مانڈوی والا ہے۔ ان کے بعد شیری رحمٰن کا نمبر آتا ہے۔ آخری حربے کے طور پر انہوں نے ایک نام چھپا رکھا ہے۔ زرداری نے بدھ کو اپنے معتمد اور ترجمان فرحت اللہ بابر کو فارغ کر کے بھی حیران کر دیا۔ جنہوں نے سینیٹر کی حیثیت سے ایوان بالا میں تیز و تند الوداعی خطاب کیا۔ میاں رضا ربانی اور فرحت اللہ بابر پیپلزپارٹی میں اعتزاز احسن اور ندیم افضل چن کے ساتھ بڑی مضبوط اور سنی جانے والی آوازیں ہیں۔ ذرائع کہتے ہیں کہ فرحت اللہ بابر کے خطاب نے آصف زرداری کے ’’گیم پلان‘‘ کو مجروح کیا۔ وہ آئندہ عام انتخابات تک عدلیہ یا اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کچھ سننا نہیں چاہتے۔ چند ہفتوں قبل فرحت اللہ بابر نے اپنی جگہ کسی اور کی ترجمان کے طور پر تقرری کی پیشکش کی تھی۔ اگر سینیٹ میں ان کے خطابات مسائل پیدا کر رہے ہوں۔ انہوں نے تو اس حوالے سے چند نام بھی تجویز کئے۔ لہٰذا جب آصف زرداری نے انہیں سبکدوش ہونے کے لئے کہا تو انہوں نے لمحے کا بھی انتظار نہیں کیا۔ ماضی میں زرداری نے بابر کا دفاع کیا۔ ایک بار تو سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو انکار تک کر دیا۔ جنہوں نے سابق صدر کو اپنا ترجمان بدلنے کے لئے کہا تھا۔ اب زرداری متعلقہ حلقوں سے اپنے اختلافات نمٹانا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رضا ربانی بھی سینیٹ چیئرمین شپ کے لئے ان کا انتخاب نہیں رہے۔ ذرائع کے مطابق پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے رضا ربانی کے حق میں آواز بھی اُٹھائی تھی۔ اگر سابق صدر ،سلیم مانڈوی والا کے لئے حمایت حاصل اور اپ سیٹ کرنے میں کامیاب ہوگئے تو رضا ربانی کو مزید سائیڈ لائن کر دیا جائے گا۔ آئندہ 48 گھنٹوں میں زرداری کو سینیٹ میں پیپلزپارٹی کے امکانات کے بارے میں معلوم ہو جائے گا۔ ان کی نہایت اہم اور فیصلہ کن سودے بازی تحریک انصاف سے ہوگی۔ جس کے 12 سینیٹرز ہیں جو ہار جیت میں فیصلہ کن کردار ادا کریں گے۔ زرداری نے زیادہ آزاد سینیٹرز کی حمایت پہلے ہی حاصل کر رکھی ہے۔ بلوچستان کے 7 آزاد سینیٹرز کو یقین دلایا ہے کہ ان کے نمائندے کو ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا عہدہ دیا جائے گا۔ زرداری کے برخلاف تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے بارے میں قطعی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ جہاں تک ان کے سیاسی بیانیہ کا تعلق ہے چیئرمین سینیٹ کے لئے پیپلزپارٹی سے کوئی سودے بازی ان کے لئے مشکل ہوگی۔ اب اگر تحریک انصاف یا عمران خان اپنے سینیٹرز کو پیپلزپارٹی کے اُمیدوار کو ووٹ دینے کی اجازت دیتے ہیں تو وہ اپنا اخلاقی جواز کھو دیں گے۔ تحریک انصاف کے لئے دو راہیں ہو سکتی ہیں۔ اوّل غیرجانبدار اور چیئرمین کے الیکشن میں غیرحاضر رہیں۔ ڈپٹی چیئرمین کے لئے عطاء اللہ کاکڑ کی حمایت کریں۔