نجم الحسن عطا
ڈیجیٹل معلومات کی تمام اپیلی کیشنزپر آپ غور کریں تو ایک نقطہ پر مرکوز ہو رہی ہیں اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہم نے دیکھنا یہ ہے کہ صارف کے روّیوں میں کیا تبدیلی رونماہو رہی ہے ایسا عالمی مارکیٹ میں دیکھا گیا ہے جب صارفین کے روّیوں میں اچانک بڑی تبدیلی رونما ہوتی ہے یا ہوگی کوئی جست والی تبدیلی ہو گی تو پھر تمام اپیلی کیشنز ہمارے لائف اسٹائل اور کاروباری دنیا کو تبدیل کر دیں گے ۔
یہ الگ بات ہے کہ پاکستانی کلچر میں ابھی تک چند شہروں میں نئی ٹیکنالوجی سے شناسائی ہے۔ ہر لمحے دنیا تبدیل ہو رہی ہے آپ کے مشاہدے میں آیا ہو گاکہ مائیکرو سافٹ اور دوسری بڑی کمپنیوں میں ویب ورک اسٹائل کاروباری بوسیدہ طریقوں کو نئے سانچوں میں بدل رہا ہے۔ دستاویزی کاموںکو ڈیجیٹل افعال میں تبدیل کرنے سے مختلف کمپنیوں کے بجٹوں میں کمی واقع ہوئی ہے اور دیگر کاروباری سرگرمیوں میں خاطر خواہ آسانی حاصل ہو رہی ہے۔
لوگوں کے مختلف جتھے یا گروپ ایک ساتھ کام کرنے کے لئے برقی (الیکٹرانک) آلات استعمال کرتے ہوئے تیزی سے ایک اکائی کی طرح کام کر رہے ہیں۔
کام میں کامیابیاں لوگوں کے جذبوں کو مہمیز لگا رہی ہیں۔ اس لئے ٹیکنالوجسٹ ایک دوسرے کے خیالات سے استفادہ کر رہے ہیں۔ سیلز کی معلومات اپنے شراکت داروں کے کاموں کے متعلق علم اور سب سے اہم صارفین سے معلومات کی آسان رسائی کی بدولت ہم مسائل اور مواقع پر تیزی سے عمل کر رہے ہیں اور رد عمل پیدا کرنے کے قابل ہو گئے ہیں۔ اس لئے ہندسی (ڈیجیٹل) نظام پر عمل پیرا دوسری بڑی کمپنیاں بھی اس طرح کی حیرت انگیز کامیابیاں حاصل کر رہی ہیں۔
دراصل کمپنیوں کو بھی اس طرح کے نروس سسٹم کی ضرورت ہے یعنی لیاقت و ذہانت کے ساتھ کام کرنے کی صلاحیت سنگینیوں اور مواقعوں پر تیزی سے ردعمل کرنے کی صلاحیت تیزی سے فیصلے کرنے اور صارفین سے بر وقت رابطے میں رہنے کی صلاحیت، یہاں ایک سوال پر قاری پوچھ سکتا ہے کہ آخرکار نروس سسٹم کیا ہوتا ہے؟ میں یہاں اس اصطلاح کے موجد کی کتاب ’’کاروبار روشنی کی رفتار سے‘‘ یعنی بل گیٹس کا حوالہ ہی دوں گا۔
’’جب میں ان معاملات پر غور و فکر کر رہا تھا اور سی ای اوز کانفرنس کے لئے اپنی تقریر کی نوک پلک سنوار رہا تھا تو اچانک میرے ذہن میں ایک نیا اچھوتا خیال اُمنڈ پڑا… ’’ڈیجیٹل نروس سسٹم‘‘… ڈیجیٹل نروس سسٹم انسانی نروس سسٹم کا متبادل ہے۔ جو ایک ادارے میں منظم معلومات کی ترسیل کو بروقت ممکن بناتا ہے۔
ڈیجیٹل نروس سسٹم ڈیجیٹل افعال پر مشتمل ہے جو ایک کمپنی کو اپنا ماحول سمجھنے اس کے مطابق درست ردعمل کرنے صارفین کی ضروریات اور مدمقابل کمپنیوں کے مقابلے میں سمجھنے کے قابل بناتا ہے اور معقول فیصلے مرتب کرنے میں کمپنی کی مدد کرتا ہے‘‘ یہ اقتباس بصیرت افروز بھی ہے اور جو ہندسی نظام سے منسلک ہیں اُن کے لئے مشعل راہ بھی دیکھنا یہ ہے کہ ہندسی معلومات کا بہائو مغرب کی طرح ترقی پذیر پس ماندہ ملکوں میں بھی ہے پاکستان کےشہروں میں ای کامرس یا آن لائن سے کام لیا جا رہا ہے۔
لیکن بل گیٹس نے ایک جگہ تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ دنیا میں ڈیجیٹل نظام کو 20فیصد درست استعمال کیا جا رہا ہے کیونکہ جو کام ایک سال میں ہوتا ہے و ہ کمپیوٹر کے ذریعے اور نیٹ کے فروغ کے نتیجے میں ایک ماہ میں ہونا چاہئے جو نہیں ہو رہا ہے۔ لیکن بل گیٹس کو یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ انسان مشینیں نہیں ہیں کہ وہ اتنا پیدا کرنا شروع کر دے جسے وہ خود استعمال نہ کر سکے۔
ویسے بھی سرمایہ دار دنیا میں زائد پیداوار کا مسئلہ بنا ہوا ہے دوسری طرف دولت کا ارتکاز اتنا زیادہ ہو گیا ہے کہ خود مغرب کے معیشت دان اس سے خائف ہو گئے ہیں۔ کامن ڈریم آرگنائزیشن میں ڈیوڈ کورٹن نے لکھا ہے۔‘‘ اب ہمیں اپنے منافع سے بھی آگے سوچنا ہو گا۔
لارنس ڈی فنک جو دنیا کا بہت بڑا انویسٹر ہے ان کی کمپنی کا نام بلیک راک ہے۔ اس نے دنیا کے تمام بڑی کمپنیوں کے سی ای اوز کو خط لکھا ہے۔ کہ بلیک راک سب کمپنیوں کوذمہ دار ٹھہراتی ہے کہ وہ منافع سے آگے سوچیں اور معاشرے میں بھی کنٹری بیوٹ کریں‘‘ ایک زمانہ تھا جب سوشلزم کے ڈر سے ملازمین کو تمام مراعات دی جاتی تھیں۔ آج قانون کی کتابوں میں تو ہے لیکن پاکستان اور تیسری دُنیا کے ملکوں میں محنت کشوں کے قوانین پر عمل نہیں کیا جاتا ’’سر برنسن‘‘ جن کا کالم روزنامہ جنگ میں بھی شائع ہوتا ہے وہ لکھتے ہیں کہ ’’کلائنٹ ہمیشہ ٹھیک نہیں ہوتا آپ اپنے ملازمین کو خوش رکھیں وہ اپنےکلائنٹ کو از خود خوش رکھیں گے‘‘ جب آدھی دنیا غریب ہوا سے ٹیکنالوجی سے کیا فائدہ ہے۔
اب تو نوبل انعام یافتہ اور عالمی بینک کے سابق مشیر جوزف اسٹک گلٹنر نے اپنی کتاب ’’نابرابری کی قیمت‘‘ ’’امریکا کو اس وقت کم کیسٹالزم اور زیادہ سوشلزم کی ضرورت ہے‘‘ یہاں بل گیٹس نے بھی یہ کہا ہے کہ کاروبار روشنی کی رفتار سے جبکہ برٹرنڈرسل یورپ کا سب سے بڑا فلاسفر اور ریاضی دان/’’آرام کوشی کی تعریف‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’انسان دنیا میں مشین کی طرح کام کرنے نہیں آیا اسے زیادہ سے زیادہ چار پانچ گھنٹے مسلسل کام کرنا چاہئے اور باقی وقت آرام کوشی، دوستوں اور بیوی بچوں کے ساتھ ہنسی خوشی گزارنا چاہئے‘‘ لیکن اس بات کا کیا کریں کہ دُنیا کے باسٹھ ترین مالداروں کی پاس اتنی دولت ہے جوآد ھی دنیا سے زیادہ ہے۔ اب خود مغرب کے معیشت دان کہتے ہیں کہ وال اسٹریٹ چل تو رہا ہے لوگوں کو نکالا اور رکھا بھی جا رہا ہے لیکن عوام کی بڑی اکثریت تمام مسرتوں سے استفادہ نہیں کر رہی ہے۔
آپ خود سوچئے کہ اگر کمپنی اپنے نروس سسٹم کے مطابق مالیاتی طاقت تو بن جائے لیکن عوام خستہ حال ہوں تو سرمایہ داری نظام تو چلتا ہی SPENDINGپر ہے اور حکومت اور ریاست کا انحصار ٹیکسوں پر ہے یہ مالدار اشرفیہ براہ راست اور بلواسطہ ٹیکس درست طریقے سے نہیں ادا کرتی تو پھر ریاستیں کیسے چلیں گی کیا یہ سب ملٹی نیشنلز کے زیرنگوں آ جائیں گی۔ دنیا میں کینو، اسٹاک مارکیٹیں، بینک اور جوئے کی دیگر اقسام، اسلحہ کی فروخت اور ڈرگ کی یلغار دنیا میں ہم آہنگی پیدا نہیں ہونے دیتی تو پھر کیسے خوشحالی سے دنیا آگے بڑھے گی مائیکرو اکنامکس میں آن لائن کاروبار تو اچھا ہے۔
لیکن آدھی سے زیادہ دنیا غربت کے لکیر کے نیچے ہو تو اس ترقی کا فائدہ 20فی صد دنیا کی آبادی کو ہی ہو گا۔ اور یوں یہ فرق دنیا میں امن کا دشمن رہے گا۔ بلیک راک اور وال اسٹریٹ دونوں کی ملا کر دولت ڈیوڈ کورٹن کے مطابق 11.5ٹریلین ڈالر ہے لیکن نہ تو بڑے ممالک اور نہ ہی دنیا کے مالدار ترین لوگ ماحول کی خرابی کے لئے کچھ کنٹری بیوٹ کرتے ہیں۔
اس لئے میں نہیں سمجھتا کہ غربت اور امارت کے بھیانک فرق کے ساتھ دنیا چل سکتی ہے آبادی کا دھماکہ ایٹم بم کے دھماکے سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ آپ کمرشل ازم چلائیں لیکن دنیا کے معروف فلاسفروں اور دانشوروں کے انتباہ کو بھی یاد رکھیں۔
ہندسی تقسیم بھی موجود ہے بڑے ممالک اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ پاکستان میں مائیکرو سطح پر کچھ لوگ کاروبار کر رہے ہیں۔ لیکن بڑے پیمانے پر اس کے اثرات مرتب نہیں ہو سکتے۔ آپ دیکھئے کہ گزشتہ پچاس سالوں میں جو ترقی ہوئی ہے۔ وہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی یہ بھی دیکھئے ہم معلومات کے دور میں رہ رہے ہیں تاہم کاروبار میں مستعمل زیادہ تر معلومات دستاویزی شکل میں ہیں پاکستان میں کمپیوٹر دفتری کام میں آتا ہے۔
یہاں گاہکوں اور فروخت کاروں کی تلاش کا نظام ابھی بدلا نہیں اگرچہ بہت سی کمپنیاں اپنے بنیادی افعال کی انجام دہی کے لئے ہندسی آلات استعمال بھی کر رہی ہیں۔ جیسے پراڈکشن کا نظام چلانے کیلئے، صارفین کی انوائسز بنانے کے لئے اکائونٹنگ اور ٹیکس سے متعلقہ امور کی انجام دہی کے لئے بروئے کار لایا جاتا ہے۔ لیکن ٹیکنالوجی کا یہ استعمال صرف پرانے طریقوں کوخود کار بناتا ہے۔
بہت کم کمپنیاں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے نئے طریقے استعمال کر رہی ہیں گو کہ ان کے افعال میں انقلاب انگیز حد تک بہتری لاسکتے ہیں اور جن کی بدولت وہ ا پنے ملازمین کی صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ کر سکتی ہیں اور تیزی سے بدلتی ہوئی کاروباری دنیا میں اپنے آپ کو منوا سکتی ہیں بہت کم کمپنیاں اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ مذکورہ کام سرانجام دینے کیلئے ان کے پاس تمام تر آلات موجود ہیں۔
اگرچہ بنیادی طور پر زیادہ تر کاروباری مسائل معلومات کے ہیں اور تقریباً کوئی بھی کمپنی معلومات کا صحیح استعمال نہیں کر رہی۔