طاہر حبیب
لوبان سلگ اٹھے
مصنّفہ: سعادت نسرین
صفحات: 400قیمت500 :روپے
ناشر: ویلکم بُک پورٹ، مین اُردو بازار ،کراچی
دنیا بَھر کی زبانوں میں ادب اور ادبی فکشن کم و بیش غیر مقبول یا کم مقبول ادب کے زمرے ہی میں آتا ہے، لیکن جو احترام اس نامقبول ادب اور فکشن کے حصّے میں آتاہے، وہ مقبول اور کتابوں کی دکانوں پر زیادہ فروخت ہونے والے فکشن کے حصّے میں نہیںآتا۔ اُردو میں بھی صورتِ حال ایسی ہی ہے۔ اُردو اور پاکستانی اُردو میں مقبول فکشن نگاروں کی تعداد اگر بہت نہیں، تو اتنی کم بھی نہیں کہ گنوائی جا سکے۔ سعادت نسرین انہی فکشن نگاروں میں سےایک سینئر فکشن نگار ہیں۔ اس مجموعے سے قبل ان کے چھے ناولز اور افسانوں کے دو مجموعے شایع ہو چکے ہیں۔ مقبول فکشن نگاری میں اگرچہ اسلوب کی اہمیت زیادہ نہیں ہوتی ،بس مواد نیا اور کہانی سُنانے یا پیش کرنے کا ایسا ڈھنگ ہو کہ توجّہ کہانی سے نہ ہٹے۔سعادت نسرین کی فکشن نگاری میں یہ تمام باتیں ہیں۔ سفید کاغذ پر چارسو صفحات کی اس اچھی مجلد کتاب کی قیمت انتہائی مناسب ہے۔
ملاقاتیں کیا کیا
مرتّب:الطاف حسین قریشی
صفحات: 390،قیمت: 1490
ناشر: جمہوری پبلی کیشنز، تجارت روڈ، لاہور
الطاف حسن قریشی کا شمار پاکستان کے اہم ترین صحافیوں میں ہوتا ہے۔ غالباً وہ پاکستان کے واحد صحافی ہیں، جنہیں دو سوکے لگ بھگ مشاہیر کے انٹرویوز کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ ان مشاہیر میں شاہ فیصل، سلیمان ڈیمرل جیسے عالمی رہنما بھی شامل ہیں۔ اہم پاکستانی شخصیات کے انٹرویوز پر مبنی ان کی دو کتابیں پہلے بھی منظرعام پر آچکی ہیں، اب ان کی تیسری کتاب ’’ملاقاتیں کیا کیا‘‘ کے نام سے اشاعت پزیر ہوئی ہے۔ یہ انٹرویوز پاکستان کی اہم سیاسی تاریخ کی حیثیت رکھتے ہیں، جن کی مطالعے کی ہر دَور میں ضرورت رہے گی۔ کتاب بڑے سائز، عمدہ کاغذ، خُوب صُورت انداز میں شایع ہوئی ہے۔ اس میں کچھ ایسے انٹرویوز بھی شامل ہیں، جو قبل ازیں1969ء میں شایع ہونے والی کتاب ’’مقابل ہے آئینہ‘‘ میں بھی چھپ چکے ہیں، جوشاید اب بازار میں دست یاب بھی نہیں۔ اس حوالے سے ان انٹرویوز کو دوبارہ اشاعت پر معترض ہونے کی گنجایش نہیں نکلتی، البتہ زیادہ سے زیادہ ہاتھوں تک پہنچانے کے لیے قیمت کم رکھنے کی گنجایش بہرحال ضرور رکھنی چاہیے تھی۔
عورت کیا چاہتی ہے؟
مصنّف : وقار عزیز
صفحات : 138، قیمت : 200 روپے
ناشر : ایشیا بُکس، مری روڈ، راول پنڈی کینٹ
جس سوال پر اس کتاب کا تانا بانا بُنا گیا ہے، اس کا تسلی بخش جواب شاید ہی کوئی دے سکے۔ تاہم، کتاب کے مصنّف کے دعوے کے مطابق کتاب میں25ہزار مَرد و خواتین سے سروے کے بعد اخذ شدہ نتائج شامل کیے گئے ہیں۔ تاہم، کتاب میں یہ وضاحت نہیں ہے کہ ان مَرد و خواتین کا تعلق کس مُلک یا کس معاشرے سے تھا۔ کتاب کے مندرجات سے واضح ہوتا ہے کہ یہ لوگ ہمارے معاشرے کے نہیں، لیکن کچھ نتائج ہمارے معاشرے سے مطابقت ضرور رکھتے ہیں۔ مثلاً میاں بیوی ایک دوسرے کی طبیعت کو سمجھنے کی بجائے یہ کوشش کرتے ہیں کہ دوسرا فریق اپنے آپ کو بدل کر اُس کی مرضی کے مطابق بن جائے۔ یا خواتین کی ڈکشنری، مَردوں کی ڈکشنری سے مختلف ہے۔ اس قسم کی دیگر باتیں بھی اس کتاب کا حصّہ ہیں، جن کا مطالعہ دِل چسپ ہونے کے علاوہ توجّہ طلب بھی ہے۔ اس لحاظ سے قیمت بہت زیادہ ہے۔
سفر نامہ ابنِ جُبَیر
متّرجم : حافظ احمد علی خاں شوق
صفحات : 327،قیمت : 800 روپے
ناشر: بُک کارنر، جہلم
ابنِ جُبَیر غرناطہ (اندلس) کے ایک بُلند پایہ عالم تھے، انھوں نے بغرضِ حج578 ھ میں حرمین شریفین کا سفر اختیار کیا، جو دو سال کے عرصے پر محیط تھا۔ بعدازاں انھوں نے دوبارہ 585ھ میں سفر کا قصد کیا، جس کا اختتام 587ھ میں ہوا۔ ساڑھے آٹھ سو سال قدیم یہ ’’سفرنامہ‘‘ ایک بے مثال تصنیف ہے، جس میں اُس دَور کے باشندوں کے مسائل، طرزِ معاشرت، آب و ہوا، تاریخ و تمدّن سے متعلق تفصیلی معلومات ملتی ہیں۔ اس سفرنامے کی اہمیت یہ بھی ہے کہ یہ دوسری صلیبی جنگوں کے زمانے کی ایک مستند تاریخی دستاویز ہے۔ عربی زبان میں لکھے گئے، اس سفرنامے کے متعدد قلمی نسخے دنیا کے مختلف کتب خانوں میں موجود ہیں۔ نیز، اس سفرنامے کے انگریزی اور دیگر زبانوں میں تراجم بھی ہوچکے ہیں۔چوں کہ یہ سفرنامہ ایک صدی سے زیادہ عرصہ پہلے اُردو میں ترجمہ ہوا تھا، لہٰذا موجودہ دَور کے تقاضوں کے مطابق اس پر نظرِ ثانی کی ضرورت تھی، تو پروفیسر سیّد امیر کھوکھر نے عربی متن اور قدیم اُردو ترجمے کو سامنے رکھتے ہوئے سلیس اور رواں اُردو میں ازسرِنو تحریر کیا ہے۔ کتاب بڑے سائز پر، خُوب صُورت شایع ہوئی ہے، سرورق بھی دیدہ زیب ہے۔
جہان لطیفؒ
(شاہ عبداللطیفؒ بھٹائی‘سروں کے آئینے میں)
مصنّف: ڈاکٹر جاوید منظر
صفحات: 174، قیمت 350 روپے
ناشر: شعبۂ اُردو، شاہ عبداللطیفؒ یونی ورسٹی، خیرپور
برصغیر کے عظیم صوفی شاعر، شاہ عبداللطیفؒ بھٹائی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُن کا کلام اخلاقی تعلیمات کے حوالے سے ہر دَور کے لیے مشعل راہ ہے۔ڈاکٹر جاوید منظر نے ’’جہانِ لطیفؒ‘‘ میں ان کی اخلاقی تعلیمات پر مبنی سُروں کو انتہائی دِل کش انداز میں اُردو قارئین تک پہنچا کر ایک اہم کارنامہ انجام دیا ہے۔وہ شاہ صاحبؒ کے ہرسُر سے متعلقہ اشعار سے پہلے نثر میں اس کا مختصر تعارف بیان کرتے ہیں، پھر اس پر شعری اسلوب میں تبصرہ، جس سے قاری کے ذہن میں متعلقہ سُر کا ایک تاثر قائم ہوجاتا ہے۔یہ اُردو میں ایک نئی کاوش ہے، جس کے ذریعے اُردو داں طبقے کو شاہ صاحبؒ کا پیغام آسان اور عام فہم انداز میں سمجھنا ممکن ہوگیا ہے۔کتاب دبیز کاغذ پر خُوب صُورت شایع ہوئی ہے، البتہ استفادۂ عام کے لیے قیمت کچھ کم ہونی چاہیے تھی۔
جانے پہچانے (افسانے)
مصنّف: اخلاق احمد
صفحات: 216، قیمت: 300 روپے
ناشر:امیج میکر، کراچی
کسی کا قول ہے کہ افسانہ پلاٹ پر نہیں، کردار پر لکھا جاتا ہے۔ اخلاق احمد بھی افسانے کی بنیاد، کرداروں پر رکھتے ہیں۔وہ کردار جو ہمارے آس پاس ہی موجود ہیں۔خواہ وہ چائے خانے کے اچھّے ماموں ہوں، اونچا لمبا، تنہا سردار، گواہ نمبر سات ہو یا وہ بوڑھا، جسے کسی نے کبھی ہنستے نہیں دیکھا تھا۔ شکیل عادل زادہ نے درست ہی کہا ہے، ’’وہ تمام خُوبیاں جو ایک افسانہ نگار میں ہونی چاہئیں، اخلاق احمد میں ابتدا سےبہ تمام و کمال موجود ہیں۔ اخلاق احمد کا مشاہدہ غصب کا ہے اور اندازِ تحریر لاجواب ہے۔ تخلیقی جولانی، کہانی کہنے کا ڈھنگ، روانی، شگفتگی، برجستگی، بے ساختگی اور سادگی، ایک چیز اور ہے، وہ ہے تاثیر‘‘۔ اخلاق احمد کایہ پانچواں مجموعہ ہے۔وہ 1975ء سے لکھ رہے ہیں اور پسند بھی کیے جارہے ہیں۔زیرِنظر مجموعے میں ان کے دس افسانے شامل ہیں۔وہ کاٹ دار، تیکھے جملوں کی مدد سے افسانہ آگے بڑھاتے ہیں اور پھر سادگی سے کوئی ایسی بات کہہ دیتے ہیں، جو کوئی بڑا فلاسفر ہی کہہ سکتا ہے۔ان کے افسانوں کی یہی ندرت انہیں دیگر افسانہ نگاروں سے ممتاز بناتی ہے۔
زخمِ سخن
شاعر : علی عرفان عابدی
صفحات: 146، قیمت : 250 روپے
ناشر : عنبر بُک فائونڈیشن، عابدیہ سینٹر، ملیر، کراچی
کتاب کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاعر کے اس سے قبل کئی شعری اور افسانوی مجموعے شایع ہوچکے ہیں اور کچھ ناول بھی زیرِ طبع ہیں۔ زیرِ نظر کتاب میں غزلیں، نظمیں، قطعات وغیرہ سب ہی شامل ہیں۔ کچھ فکاہیہ قطعات اور نثری نظمیں بھی موجود ہیں، وہ اپنی طبیعت اور مزاج کے زیرِ اثر طبع آزمائی کرتے ہیں اور اسی لحاظ سے صرف نظر نوازی کے خواست گار ہیں، البتہ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ بیک ٹائیٹل پر اپنے تعارف کے ساتھ اپنے بھائیوں ان کی اُولاد اور دامادوں کے نام دینے کا کیا جواز تھا۔ اسی طرح شاعر، جن جن مُلکوں میں گیا، اُن کے نام بھی شایع کرنے میں کیا مصلحت ہے۔ ویسے، کتاب عام انداز میں شایع ہوئی ہے، جِلد بندی بھی کچھ مناسب نہیں۔