• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نئی کتابیں.....

انور سِن رائے

آدھی چادر

(افسانے)

مصنّفہ: رضیہ اسماعیل

صفحات: 240، قیمت: 600 روپے

ناشر: رانا عبدالرحمٰن، بُک ہوم، بُک اسٹریٹ، 46-مزنگ روڈ، لاہور

رضیہ اسماعیل کی شاعری کے 2000ء سے2016 ء تک آٹھ مجموعے شایع ہو چکے ہیں۔ ان میں ایک پانچ مجموعوں کی کلیات بھی ہے اور انگریزی کے بائی لنگول ایڈیشن بھی۔ ایک مجموعہ طنز و مزاح کا اور ایک پاپ کہانیوں کا بھی شایع ہو چکا ہے۔ تالیفات اس کے علاوہ ہیں۔ تاہم، یہ گیارہ افسانوں کا مجموعہ ہے، جس میں مختلف انداز سے گیارہ کہانیاں بیان کی گئی ہیں، خاص طور پر ان کی آخری کہانی میں کہانی کا تصوّر بالکل مختلف ہے۔ بظاہر یہ کہانی، خود کہانی کے تصوّر کے بارے میں ہے، لیکن اس میں ڈس اینٹی گریشن کی ایک زیریں لہر ہے، جس پر کہانی کے تصوّر کی تہہ چڑھائی گئی ہے۔ اس کہانی کو دوسری کہانیوں سے ملا کر پڑھیں، تو تمام کہانیاں ایک دوسرے سے ملاتی ہوئی ایک بڑی کہانی کی طرف بڑھتی محسوس ہوں گی۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ آپ پڑھتے کیسے ہیں۔ کتاب عُمدہ شایع ہوئی ہے اور قیمت بھی مناسب رکھی گئی ہے۔

شاعروں اور ادیبوں کے لطیفے

مرتّب: شاہد حمید

صفحات: 592، قیمت: 600 روپے

ناشر: گگن شاہد، امر شاہد، بُک کارنر، جہلم، پاکستان

اس کتاب میں نہ صرف پاکستان اور بھارت کے ادیبوں کےلطائف جمع کیے گئےہیں، بلکہ غیر مُلکی اور معروف ادیبوں، مفّکروں کے لطائف اور خوش گفتاریاں بھی شامل ہیں۔ پڑھنے والے کے پاس جب اور جتنا وقت ہو، یہ کتاب اُسے انتہائی خوش گوار بنا سکتی ہے۔چوں کہ ہر لطیفے اور خوش گفتاری میں کوئی نہ کوئی پتے کی بات موجود ہے،تو اسے زبان و بیان کی بھی ایک اہم اور پُر لطف کتاب قرار دیا جا سکتا ہے۔ کتاب کی ایک اور اہم بات فہرست ہے، جس میں اکثر ادیبوں کے اس دنیا میں آنے اور جانے کے سن و سال جمع کیے گئے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا، اگر اس کتاب میں مرتّب کا تعارف بھی شامل کر دیا جاتا۔ کتاب بہت اچھی شایع کی گئی ہے اور قیمت بھی انتہائی معقول ہے۔

طاق میں رکھا ہوا دِن

شاعر: زاہد نبی

صفحات: 128، قیمت: 230 روپے

ناشر: آصف جاوید، برائے نگارشات پبلشرز، 24مزنگ روڈ، لاہور

اس مجموعے سے پہلے مجھے زاہد نبی کی شاعری پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ اس لیے مجھے ان کا یہ مجموعہ پورے کا پورا پڑھنا پڑا۔ اُن کی غزلیں پڑھتے ہوئے غزل کا روایتی قاری کچھ اٹک سکتا ہے، کیوں کہ انھوں نے کچھالفاظ کو اپنی بول چال کی زبان میں باندھا ہے۔ جیسے ’’سنبھال‘‘ کو ’’سَن بھال‘‘۔ اور پھر انھوں نے اس انحراف کے بارے میں بتایا بھی ہے۔ بہرحال، مجھے کسی بھی انحراف سے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، میری دِل چسپی نتیجے اور کوشش سے ہے۔ زاہد نبی کی شعری روح تازہ دَم ہے اور نظموں سے زیادہ ہم آہنگ محسوس ہوتی ہے۔ آخر میں انھوں نے اپنی کچھ نظموں کے انگریزی تراجم بھی کیے ہیں، جو کچھ زیادہ متاثر کُن نہیں۔

چینی، جو میٹھی نہ تھی

(ناول)

مصنّف: صفدر زیدی

صفحات: 252، قیمت: 350روپے

ناشر: مثال پبلشرز، رحیم سینٹر پریس مارکیٹ، امین پور بازار، فیصل آباد

صفدر زیدی نے ابتدائی تعلیم کراچی سے حاصل کی،پھر ہالینڈ چلے گئے، جہاں زراعت کی تعلیم حاصل کی۔ اب سولہ سال سے وہیں مقیم ہیں۔ ان کے اس ناول کا ترجمہ ڈچ زبان میں ہو چکا ہے۔ ناول میں انھوں نے ان بھوج پوریوں کو موضوع بنایا ہے، جنھیں انیسویں صدی کے اختتام سے بھارت کی برطانوی حکومت نے، سری نام کو غلام مزدوروں کے طور پر دینا شروع کیا۔ ساؤتھ افریقا اور دوسرے کئی مُلکوں میں اس طرح جانے یا بھیجے جانے والوں کے بارے میں امیتاؤ گھوش نے عُمدہ اور خاصا لکھا ہے۔ وہ انگریزی میں لکھتے ہیں۔ صفدر زیدی نےاُس تاریخ کو ناول میں ڈھالنے کے لیے خواب کا سہارا لیا ہے، جس کے بارے میں ہجرت کرنے یا ہجرت پر مجبور کیے جانے والے بھی کہتے ہیں کہ وہ ناواقف تھے۔بہرحال، اس ناول کو سری نامی تناظر ہی میں دیکھا جانا چاہیے۔ ناول عُمدہ شایع ہوا ہے اورقیمت بھی انتہائی معقول ہے۔

مادرِ جمہوریت

( بیگم نصرت بھٹو)

مصنّف: جی این مغل

صفحات: 312، قیمت: 1400 روپے

ناشر: بھٹو لیگیسی فاؤنڈیشن،158،سی، ماڈل ٹاؤن،لاہور

بیگم نصرت بھٹو پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جانے والی خاتون ہیں۔ صرف اس لیے نہیں کہ وہ ایک وزیراعظم کی اہلیہ اور پاکستان کی پہلی خاتون وزیرِاعظم اور دوبار وزیرِاعظم بننے والی خاتون کی والدہ تھیں۔ یاپھر انھوں نے قیام پاکستان کے فوراً بعد پاکستان آنے والے بے یارو مددگار افرادکی بحالی کے لیے بے مثال کام کیا تھا، بلکہ اس لیے کہ جب اس مُلک میں جمہوریت کی بنیاد رکھنے اور پاکستان کو پہلا اور اب تک کا واحد متفقہ آئین دینے والی حکومت کو فوجی آمریت کے ذریعے ختم کیا گیا ، تو یہی خاتون تھیں، جو نہ صرف پاکستان پیپلز پارٹی کو بچانے، اس کے کارکنوں میں نیا حوصلہ پھونکنے کے لیے باہر نکلیں، بلکہ دوسری سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملا کرتحریکِ بحالیِ جمہوریت ایم آر ڈی بھی چلائی۔موجودہ کتاب میں سینئر اور مدّبر صحافی جی این مغل نے اس عظیم خاتون کی داستانِ حیات مرتّب کی ہے۔ ان کا روّیہ اگرچہ خالصاً محقّقانہ نہیں، لیکن انھوں نے حقائق جمع کرنے میں کوئی کسر بھی نہیں چھوڑی۔ ان کی تحریر میں کہیں کہیں جذباتی ہونے کا سبب اس کے سواکچھ نہیں کہ وہ بہت سے حالات و واقعات کے قریبی اور عینی شاہد بھی ہیں اور بہت سے صحافیوں کی طرح جمہوریت کی بحالی میں عملاً سرگرم بھی رہے ہیں۔ یہ کتاب انتہائی عُمدہ شایع کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ قیمت بھی عام آدمی کے بس کی نہیں۔حالاں کہ اسے ہر خاص و عام کے لیے دستیاب ہونا چاہیے تھا۔

گُل ہائے رنگ رنگ

شاعر: اقتدار احمد اکبر حیدرآبادی

صفحات: 578، قیمت: 650 روپے

ناشر: بہادر یار جنگ اکیڈمی، سراج الدولہ روڈ، کراچی

اکبر حیدر آبادی کی تمام زندگی تدریس و ادب سے تعلق میں گزری کہ انھوں نے تمام زندگی ذرائع ابلاغ سے گریز میں گزاردی۔ اس لیے انھوں نے اپنے اور اپنے پس منظر کے بارے میں جو معلومات فراہم کی ہیں، وہ انتہائی اہم ہیں اور ان کے اس مجموعے کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ اکبر حیدرآبادی نے زیادہ تر غزلیں ہی کہی ہیں، لیکن اس مجموعے میں اُن کی نظمیں اور قطعات بھی شامل ہیں۔ موجودہ مجموعے کی اشاعت سے کچھ اور ہوا یا نہ ہوا ہو، اُن کا کلام ضرور ایک جگہ جمع ہوگیا اور ایک تاریخی دستاویز بن گیا ہے۔

کُلیاتِ شِوّ کُمار

شاعر: شِوّ کُماربٹالوی

صفحات: 436، قیمت: 1000روپے

ناشر: ظہور احمد خاں، فکشن ہاؤس، بُک اسٹریٹ، 68 مزنگ روڈ، لاہور

شِوّ کُمار کے کوئی چھے سے زائد مجموعے1960ء سے 1975ء کے دوران شایع ہوئے، جب کہ ایک منظوم ڈراما اس کے علاوہ ہے، لیکن اس بات کا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں۔ وہ پنجابی کے ایک انتہائی مقبول شاعر ہیں،جو 23جولائی کو اب پاکستان میں شامل، شکرگڑھ تحصیل کے ایک گاؤں، لوبتیاں میں پیدا ہوئے۔ یہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ کالج کی تعلیم بھی باقاعدگی سے مکمل نہیں کی۔اور والد نے،جو خود بھی محکۂ مال میں تھے، انھیں پٹواری لگوا دیا، لیکن انھوں نے جلد ہی ملازمت چھوڑ دی۔ بعد ازاں کچھ عرصہ اسٹیٹ بینک میں ملازمت اختیار کی، مگر اسی دوران چوں کہ ان کی شاعری کی کتابیں شایع ہونے لگی تھیں، تو دوستوں کے ہاں رہنے اور شاعری سے ہونے والی آمدنی ہی پرگزارا کرنے لگے۔ اُن کا37سال کی عُمر میں1973ء میں انتقال ہوگیا، لیکن تب تک وہ ایک معروف ناکام عاشق اور شاعر بن چکے تھے۔ ان کے انتقال کے بعد ان کی مقبولیت اور بھی بڑھ گئی کہ ان کا مقابلہ انگریزی کے معروف شاعر کیٹس سے کیا جانے لگا۔ موجودہ کتاب میں شِوّ کُمار کے چھے مجموعے اور بعد از مرگ مختلف جگہ شایع ہونے والی نظمیں اور ایک ڈراما شامل کیا گیا ہے۔ لیکن کمال یہ ہے کہ اس میں نہ تو کسی مجموعے کےاوّلین سِن اشاعت کے بارے میں بتایا گیا ہے اور نہ ہی شِوّ کُمار کی زندگی کی تفصیلات شامل کی گئی ہیں، لیکن ان کا اتنا کلام ایک جگہ دستاب ہونا بھی غنیمت ہے۔

اردو ادب (سہ ماہی)

مدیر: اطہر فاروقی

صفحات: 216، قیمت: 25 امریکی ڈالر

ناشر: انجمن ترقی (ہند) نئی دہلی، (پاکستان میں رابطہ صبا اکرام)

’’اردو ادب‘‘ کا موجودہ شمارہ جلد60کا شمارہ نمبر239 (جولائی تا ستمبر 2016ء) ہے۔ اس کے مدیرِ اعلیٰ، صدیق الرحمٰن قدوائی اور معاون مدیر، سرور الہدیٰ ہیں۔ اس شمارے میں اداریہ، مدیرِ اعلیٰ نے تحریر کیا ہے۔’’ پہلا ورق‘‘ کے عنوان سے اطہر فاروقی نے اُردو کا جائزہ لیا ہے۔ اور آخر میں اعراب کے مسئلے تک آ گئے ہیں۔ اس کے بعد شمس الرحمٰن فاروقی ،سیّد جعفر رضا ، احمد محفوظ، وزیرہ فضیلہ یعقوب علی زمیندار، خالد جاوید ، رؤف پاریکھ اور دیگرکے مضامین شامل ہیں۔ اس شمارے کے تمام تر مضامین اور تحریریں پوری توجّہ سے پڑھے جانے کے قابل ہیں۔ مَیں نے یہ رسالہ پہلی بار پڑھا ہے اور دِل کرتا ہے کہ اسے مسلسل حاصل کیا کروں۔

تازہ ترین
تازہ ترین